... loading ...
تبدیلی سرکار نئے مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے جو کہ آخری مراحل میں ہے ا ور قوی امکان یہی ہے کہ نئے مالی سال 20/21کا بجٹ 12جون تک قومی اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا ۔نئے مالی سال کے بجٹ میں عوام کے لیے کس قدر خوشخبری ہوسکتی ہے اس حوالے سے اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں اسے کسی صورت حوصلہ افزاء نہیں کہا جاسکتا جبکہ عوام ہر بار کی مایوسی کے باوجود اس مرتبہ بھی یہی امید لگائے بیٹھی ہے کہ تبدیلی سرکار نئے بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دے گی ۔بہر کیف نئے مالی سال کی بجٹ کی تیاری میں تبدیلی سرکار کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے جبکہ اسے اپنی توقعات کے بر عکس ایک بار پھر ایسا بجٹ بنا ناپڑرہا ہے جو عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس امر میں کسی قسم کا کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو اپنی حکومت کی ابتداء سے لیکر اب تک اپنے انتخابی منشور اور اپنے عوام دوست دعووں کو عملی شکل دینے میں ناکامی کا سامنا ہے حالانکہ وہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے متعدد یوٹرن بھی لے چکی ہے ۔ذرائع ابلاغ خبر دے رہے ہیں کہ تبدیلی سرکار نے نئے مالی سال کا بجٹ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(IMF)کی سفارشات کی روشنی میںبنانے کا فیصلہ کیا ہے اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی’’ نیو لبرل فلاسفی‘‘ اپنانے پر مجبور ہوگئی ہے لہذا آنے والے وقتوں میں بہت سے قومی اداروں کی نجکاری ہوسکتی ہے اور اس کی پہلی مثال اسٹیل ملز کی بندش اور اس کے ملازمین کو فارغ کیا جانا ہے ۔
بہر کیف میڈیا کا اپنے ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت نئے مالی سال کے بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کی سفارشات یا شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں’’ قرض پروگرام ‘‘ متاثر ہونے خدشہ ہے۔ لہذا نئے مالی سال کے بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات منجمد کرنے اورکرنٹ اکائونٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے حکومت کو 1150ارب روپے کی ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑے گی جو کہ آئی ایم ایف کی جانب سے نئے مالی سال کے حوالے سے دی گئی سفارشات کا حصہ ہیں ۔دوسری جانب پاکستان بزنس کونسل کی جانب سے اس امر پر غیر معمولی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اگر نئے مالی سال کے بجٹ میں آئی ایم ایف کی جانب سے شرح سود 11فیصد رکھنے کی سفارش کی گئی ہے تو اس سے معاشی صورتحال میں مذید خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں اسی طرح اگر ٹیکس محاصل میں 34فیصد اضافہ کیا جاتا ہے تو اس صورت میں آئی ایم ایف کے مجوزہ ٹیکس ہدف کے حصول کے لیے 800ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے پڑ سکتے ہیں ۔یہاں یہ واضح رہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے اب تک جو اطلاعات موصول ہوئی اس میں یہ بھی ہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں نیا ٹیکس نہ لگانے پر غور ہورہا ہے۔بہر کیف نئے مالی سال کے بجٹ سے مہنگائی اور بے روزگاری کو کم کرنے کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی توقع نہ رکھی جائے بلکہ اس ضمن میں جو اندازے لگائے جارہے ہیں وہ مہنگائی اور بے روزگاری میں مذید اضافے کی گھنٹی بجارہے ہیں ۔
کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں لگائے گئے لاک ڈائون کی وجہ سے ملکی معیشت تیزی سے نیچے کی طرف جارہی ہے حالانکہ ملکی معیشت کی ابتری تو پہلے سے ہی چلی آرہی تھی لیکن کورونا وائرس اورلاک ڈائون کی وجہ سے اس میں مذید اضافہ ہوگیا ہے ۔لہذا ایسی صورت میں تنخواہ دار اور مزدور طبقہ کو اس بجٹ سے زیادہ امیدیں نہیں لگانی چاہئے جہاں تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا معاملہ ہے تو وہ بھی قابل تعریف ہونے سے قاصر ہوگا کیونکہ نئے مالی سال کے بجٹ میں حکومت غیرتر قیاتی فنڈ منجمد کرنے جارہی ہے جس کا براہ راست اثرحکومتی اخراجات پر پڑے گا جس میں یقینا کمی کرنا پڑے گی ۔دوسری جانب دفاعی بجٹ ہے جس میں کمی کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے حالانکہ اس میں کمی کرکے بہت سے مسائل کا بہترین حل نکالا جاسکتاہے لیکن ایسا کرنے سے پہلے ہمیں اپنے دشمن ممالک کے دفاعی بجٹ اور اور اسکی دفاعی اہلیت اور حیثیت کا مطالعہ کرنا ہوگا اگر وہ اس ضمن میں جارحانہ پالیسی رکھتے ہیں تو اس صورت میں تو ہم قطعی دفاعی بجٹ میں کمی نہیں کرسکتے بصورت دیگر اس میں کمی کی جاسکتی ہے جو یقینا ’’سماجی ترقی ‘‘ میں ایک انقلابی قدم ثابت ہوسکتی ہے لیکن اس کے لیے دو طرفہ عوامی خدمت اور باہمی خیر سگالی کے جذبات کا ہونا ضروری ہے ۔نئے مالی سال کے بجٹ میں ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کے حامل شعبوں کی ترقی کے لیے نئی ترقیاتی اسکیمیں متعارف کرائی جارہی ہیں یا نہیں اس حوالے سے پلاننگ کمیشن کی طرف سے فی الوقت کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا ہے لیکن تبدیلی سرکار کے زرعی شعبے کے تھنک ٹینک جہانگیر ترین اور تجارتی وصنعتی شعبے کے ماہر عبدالرزاق دائود بیک فٹ پر جاچکے ہیں جبکہ اس سے پہلے پی ٹی آئی کے معاشی دماغ اسد عمر بھی اپنے حقیقی ٹھکانے پر جابیٹھے ہیں تاہم وہ پلاننگ کمیشن میں انٹری دینے میں کامیاب رہے ہیں ۔
جہاں تک تبدیلی سرکار کی ٹیکس پالیسی رہی ہے اس میں اسے ناکامی کا سامنا رہا ہے جس میں ایک عرصے تک ایسے شخص کو اعزازی چیئر مین لگایا گیا جو خود بھاڑے پرکمپنیوں کا آڈٹ کرتا رہا ہے۔بہر کیف اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بہت سے شعبے براہ راست صوبائی عمل داری میں چلے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بعض شعبوں میں قومی سطح کی پالیسی بنانے اور اصلاحاتی پروگرام لانے کی ضرورت ہے جن میں زراعت و لائیواسٹاک ، صنعت و تجارت، موسمیاتی تبدیلی ،اعلیٰ تعلیم ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ ،اسٹنڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول،مواصلاتی نظام ،ہائی ویز ،کورونا وائرس کے تناظر میں صحت عامہ ،ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور گڈ گورننس جیسے دیگر اہم شعبے شامل ہیں جبکہ ریاستی و قومی اداراوں میں کرپشن کے خاتمے کے لیے غیر جانبدرانہ احتسابی عمل کا ہونا بھی ناگزیر ہے ۔ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اداروں میں اصلاحاتی پروگرام اور کرپشن کے خاتمے کے لیے خود کار میکنزم لانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر معیشت کی ترقی ممکن نہیں ۔لہذا عوام دوست بجٹ لانے کے لیے سماجی ترقی کی حامل پالیسیوں کا ہونا ضروری ہے جبکہ مثالی مفروضوں اور پُر کشش دعووں سے محض پُر فریب بجٹ ہی لایا جاسکتا ہے اور ایسے بجٹ کو ہر دور میں اعداو شمار کا گورکھ دھندہ ہی کہا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔