... loading ...
اور اب یہ سنتھیارچی!
پاکستان میں اعلیٰ ذہانت کی کمی ہے! مگر یہا ں ایسی ذہانت ضرور پائی جاتی ہے، جو ہر چیز میں اعلیٰ ذہانت کا عمل دخل ڈھونڈ لیتی ہے۔ بسا اوقات یہ خوبی سے زیادہ خرابی بن جاتی ہے۔ یہ روش اکثر غلط نتائج کی بنیاد بنتی ہے۔ پاکستان میں مقیم امریکی خاتون سنتھیارچی آج کل خبروں کی زینت ہے۔ سنتھیارچی نہیں، ہمارا تناظر اہم ہے کہ اس مسئلے کو کیسے لیا جائے؟
ایک روز قبل کتاب چہرہ (فیس بک) پر ایک سوال دوستوں سے پوچھا:سنتھیارچی کے الزامات سے متعلق کون کیا جانتا ہے؟ جواب سارے روایتی تھے۔ ایک ذرا سی ذہنی مشق کرتے ہیں۔سب سے پہلے سنتھیارچی کا نام ذہن سے کھرچ دیں۔کیا سیاست دانوں کے نام پر جو مخلوق ہمارے سامنے ہے، وہ کوئی کردار رکھتی ہے؟ سب کا جواب تقریباً یکساں ہوگا۔ سنتھیارچی کو شک سے دیکھنے والے بھی کم ازکم یقین سے ان سیاست دانوں کے کردار کی گواہی کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ پھر اعتراض کیا ہے؟اولاً: پاکستان میں مقیم امریکی خاتون سنتھیارچی نے یہ الزامات لگائے ہیں۔ ثانیاً: پاکستان کے مخصوص سیاسی ماحول (الیکٹڈ سلیکٹڈ کھیل)میں مخصوص تعصبات کی رکاوٹ سے جنم لینے والے گھسے پٹے دلائل ہیں۔ جس میں ایک چلتا پھر تا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ سے متعلق ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی بس ایک تکلف ہے، سب جانتے ہیں کہ اس سے مراد کون سا ادارہ ہوتا ہے۔ یہ اعتراض دراصل اُسی ”ذہانت“ کا آئینہ دارہے جو ہر چیز میں ”اعلیٰ ذہانت“ ڈھونڈتی پھرتی ہے۔
دیانت دارانہ رویہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی موقف کو اختیار کرنے سے پہلے ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہوکر اس کا سیاق وسباق اچھی طرح سمجھا جائے، اس کا منطقی پیرایہ تلاش کیا جائے، ہر موقف کی تاریخی بنیادوں کو کھنگالا جائے کہ کیا یہ ممکن ہے؟سب سے پہلے جان لیں کہ سنتھیارچی کیا کہہ رہی ہے؟ سنتھیارچی نے گزشتہ کچھ ہفتوں سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو اپنے الزامات کے نشانے پر لے رکھا ہے۔ وہ پیپلزپارٹی کے مختلف رہنماؤں پر اخلاق باختگی سے بھی زیادہ سنگین یعنی اباحیت پسندی کے الزامات لگارہی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے درجہ دوم اور سوم کے رہنماؤں کی طرف سے ردِ عمل ظاہر کرنے والوں کی ایسی تفصیلات سامنے لارہی ہیں، جو اُن کی زبانوں کو گُنگ کردیتی ہیں۔ مثلا! پیپلزپارٹی کی ایک سابق سینیٹر سحرکامران نے سنتھیارچی کی سرگرمیوں کا نوٹس لینے کی اعلیٰ حکام سے استدعا کی تو سنتھیارچی نے سحرکامران کی جدہ اسکول میں بدعنوانیوں کی نقاب کشائی کی۔ سحرکامران کا سارا جوش اب معدوم ہو چکا ہے۔ سندھ میں صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے بلاول بھٹو پر لگائے گئے الزامات پر ردِ عمل دیا تو سنتھیارچی نے ان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ جواب آں غزل کے طور پر ہر وقت پریس کانفرنس سجائے رکھنے کے شوقین وزیر نے اس کے بعد اچانک چپ سادھ لی۔اس دوران میں اس خاکسار نے پیپلزپارٹی کے ایسے تین رہنماؤں سے رابطہ کیا جن کے بارے میں گمان تھا کہ وہ کبھی نہ کبھی سنتھیارچی کے ساتھ رابطے میں ضرور رہیں ہوں گے۔ اُنہوں نے اپنا دامن چھڑاتے ہوئے انتہائی لجاجت و خجالت سے درخواست کی کہ اُنہیں اس دلدل میں نہ گھسیٹیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ سنتھیارچی کا جادو کام کررہا ہے۔ سنتھیارچی کے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی، رحمان ملک اور مخدوم شہاب الدین پر لگائے گئے دست درازی کے الزامات درست ہیں یا غلط، اس سے قطع نظر پنجاب کے کسی بھی صحافی یا باخبر آدمی سے ان کے کردار کے متعلق پوچھا جائے تو سب ہی کان پر ہاتھ لگالیتے ہیں۔ سنتھیارچی کے الزامات کو تب دیوار پر مارا جاسکتا ہے جب کسی کے کردار پر اس سے پہلے کوئی اُنگلیاں نہ اُٹھی ہو اور سنتھیارچی کی جانب سے یہ پہلی بار ہورہا ہو۔ تب سوال اُٹھے گا کہ سنتھیارچی کون ہے؟ کہاں سے آئی؟ اس کے الزامات کے مقاصد کیا ہیں؟ الزامات جانے بوجھے ہیں۔ کردار کی کوئی گواہی نہیں۔ شخصیات پہلے بھی اسی نوعیت کی سرگرمیوں پر اعتراضات کی زد میں رہی ہیں۔اس تناظر میں ان الزامات کے خلاف آمادہئ ذہن ہونے کے باوجود اس پر بات کرنے کی گنجائش بہت محدود ہوجاتی ہے۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سنتھیارچی کی مشکوک سرگرمیوں کا نوٹس لیا جائے۔ یہ درست مطالبہ ہے مگر ادھورا ہے۔ درحقیقت مملکت خداداد پاکستان میں ہر قسم کی مشکوک سرگرمیوں کا نوٹس لینا چاہئے، چاہے وہ پیپلزپارٹی کے کچھ رہنما ہوں یا سنتھیارچی۔ دھیان رہے کہ سنتھیارچی اگر درست کہہ رہی ہے، تو پھر مشکو ک سرگرمیاں پیپلز پارٹی کی بھی ہو جاتی ہیں۔پیپلزپارٹی کا یہ مطالبہ اس لیے کوئی وقعت نہیں رکھتا کیونکہ سنتھیارچی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اُسے پاکستان لانے والے ہی پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں۔ سنتھیارچی ذرا بھی مشکوک پس منظر رکھتی ہے تو پھر اس کی جوابدہ پیپلز پارٹی ہی ہوگی کہ وہ ایک مشکوک پس منظر رکھنے والی خاتون کی پاکستان میں میزبان کیوں بنی؟ پیپلزپارٹی کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ سنتھیارچی کب مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہوئیں؟ کیا سنتھیارچی پی پی رہنماؤں کی اخلاق باختہ سرگرمیوں کو منظرعام پر لانے کے بعد مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہوئیں،اس سے پہلے نہیں؟اگر وہ مشکوک پہلے سے ہی تھی تو پھر وہ ماضی میں سب سے زیادہ پی پی رہنماؤں کے ساتھ کیوں منسلک رہیں؟ اب دیکھیے یوسف رضا گیلانی کا دفاع کیا ہے، جب اُن پر الزام لگا کہ اُنہوں نے ایوانِ صدر میں سنتھیارچی پر دست درازی کی۔ یوسف رضا گیلانی کا جواب ایک سوال کی صورت میں تھا کہ سنتھیارچی ایوانِ صدر میں کیا کررہی تھی؟ارے بھائی یہ تو آپ بتائیں کہ وہ ایوانِ صدر میں کیا کررہی تھی؟ وزیراعظم آپ تھے اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری۔ یہ سوال تو براہ راست آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ قائم کرتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا تمام دفاع دراصل خود اُنہیں ہی مشکوک ٹہراتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی ارشاد کیا کہ وزیراعظم کی سطح کا رہنما اس قسم کی سرگرمیوں میں کیسے ملوث ہو سکتا ہے۔پاکستان میں وزیراعظم کی سطح کے رہنماؤں کا ہی ریکارڈ تو سب سے زیادہ مشکوک ہے۔ اوروں کا ذکر پھرکبھی، جناب یوسف رضا گیلانی اپنی وزارتِ عظمیٰ میں ہالی وڈ ادکارہ اور اقوام متحدہ کی خیرسگالی کی سفیر انجلینا جولی کے دورہ ئپاکستان میں کیسے پیش آئے؟ اس پر انجلینا جولی نے کچھ لکھا بھی ہے، پڑھ لیجیے گا لطف دیتا ہے۔ سیلاب زدگان پر جب مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے تو ہمارے پیارے وزیراعظم ہالی ووڈ کی اُس اداکارہ پر کیسے لٹو ہورہے تھے، کبھی فحش مناظر کا حصہ رہنے والی اس اداکارہ سے وزیراعظم کا پورا خاندان خاتون اول سمیت کس طرح ”روابط“قائم کرنے میں اتاؤلا ہورہا تھا، انجیلنا جولی اُس سب کو محسوس کرتی رہی۔ ایسے لوگوں کو بس ایک آڑ چاہئے ہوتی ہے۔ چنانچہ یوسف رضا گیلانی سے لے کر رحمان ملک تک کسی بھی رہنما کا ردِ عمل دیکھ لیں، وہ ایک بات مشترکہ طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوپر الزامات سے زیادہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی پروا ہے۔ یہی آڑ ہوتی ہے۔ عام لوگوں کی عقیدت اور محبت کسی لیڈر سے ہو، تو اس خیالی ڈھال کے پیچھے خود کو بھی چھپانے کا یہ نسخہ آزمودہ ہے۔ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ سنتھیارچی کے سامنے آنے کے بعد ایک ایسی کتاب کے مندرجات بھی سوشل میڈیا پر گردش کررہے ہیں جو مرحومہ بے نظیر بھٹوکے متعلق بھی سنگین سوالا ت اُٹھاتے ہیں۔اس کتاب کے مندرجات اور سوالات پر بحث آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ آزادیئ اظہار کے نام پر انبیاء اور اصحاب ِ رسول ؓکی توہین کا بھی یہاں تماشا دیکھتے ہیں، اُنہیں اپنے قائدین اورٹکے ٹکے کے ان سیاسی رہنما ؤں کی ذاتی اخلاق باختہ زندگیوں پر گفتگو کیوں گوارا نہیں۔
اور اب یہ سنتھیارچی! جس سے اعلیٰ ذہانت کی کمی کے ساتھ ایسی ذہانت سے مقابلہ کیا جارہا ہے جس میں اعلیٰ ذہانت کا کوئی عمل دخل دکھائی دے۔کہیں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی سایہ دکھائی دے تاکہ روایتی قسم کے سوالات میں شکوک کی دھند پیدا کرکے وقت اور مصیبت کو ٹال دیا جائے۔ ان رہنماؤں نے ہمیشہ وقت اور مصیبت کو ہی تو ٹالا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔