... loading ...
امریکی زوال علامتوں میں ڈھونڈتے تھے مگریہ توکہانیوں میں ملا۔ جارج فلوئڈ تو بس ایک نام ہے۔ سیاہ فام باشندوں پر ظلم کی ایک تاریخ ہے۔ یہ تاریخ کی کہانی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے باہر سیاہ فام باشندے جارج فلا ئیڈ کے قتل کے خلاف احتجاج کررہے تھے تو دنیا کا سب سے طاقت ور شخص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ زیر زمین خفیہ بنکر میں جا چھپا۔ کیا یہ محض مظاہرین کے نعروں کا دباؤ تھا؟ نہیں، اس کے پیچھے تاریخ کا بھی ایک دباؤ ہے۔ یہ اُسی تاریخ کی کہانی ہے۔ جس میں ایک نہیں کروڑوں جارج فلا ئیڈ جان کی بازی ہار گئے۔
یہ نو روز قبل 25/ مئی کا واقعہ ہے، جارج فلا ئیڈ زمین پر گرا ہے، اس کی گردن پر پولیس افسر چاؤن کا گھٹنا ہے۔ وہ مایوس کن التجا کرتا ہے: ”میرا دم گُھٹ رہا ہے، مجھے مت مارو“۔ پولیس افسرفلا ئیڈ کی گردن پر آٹھ منٹ 46 سیکنڈز تک اپنا گھٹنا پورے وزن کے ساتھ ٹیکے رکھتا ہے۔ صرف تین منٹ میں فلا ئیڈ بے سدھ ہو جاتا ہے۔ مگر پولیس افسر گھٹنا پھر بھی ہٹانے کو تیار نہیں۔ اس دوران میں دوسرے پولیس افسرفلا ئیڈ کی دائیں کلائی پکڑ کر نبض کو ٹٹولتے ہیں، زندگی کا سراغ نہیں ملتا۔ مگر پولیس افسرچاؤن اس کے باوجود اگلے دو منٹ تک اپنا گھٹنا مردہ فلا ئیڈ کی گردن سے نہیں ہٹاتا۔ ذرا تصور کریں، یہ کسی قتل کے لیے معمول کی نفسیات ہرگز نہیں۔ تاریخ، اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔ یہ اُسی تاریخ کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔
امریکا میں سیاہ فام اور ریڈ انڈینز (سرخ ہندی) ہونا اپنے آپ میں موت کی ایک سزا ہے۔ سیاہ فام کے لیے بس یہ طے ہونا باقی ہوتا ہے کہ اُس کو یہ سزا کیسے ملتی ہے؟ گزشتہ ساڑھے تین صدیوں سے سیاہ فام ایک کمتر اور گھٹیا سماجی حیثیت میں سفید فام نسل کے احساس تفاخر کے آگے موت کا سامنا کرتے آرہے ہیں۔ ہاورڈ زِن (Howard Zinn) اپنی کتاب ”A People’s History Of The United States“ میں لکھتے ہیں: دنیا میں کوئی دوسرا ملک ایسا نہیں، جہاں نسل پرستی ایک لمبے عرصے تک اس قدر اہم رہی ہو“۔ درحقیقت دنیا میں انسانی حقوق کے محافظین کے طور پر غلط متعارف کرائے گئے امریکا کے سفاک بانیان نے ایک طرف خود کو آزادی اور انسانی اقدار کا علمبردار ثابت کیا اور دوسری طرف انتہائی بے رحمی سے سیاہ فام اور ریڈانڈینز کو مختلف حیلوں بہانوں سے قتل کیا۔امریکا میں ایک صدی سے زائد 1860 سے 1965ء تک جم کرو قوانین (Jim Crow Laws)نافذرہے۔ جس کے تحت سفید فام نسل کی برتری کو تحفظ دیا گیا۔ ان قوانین کے تحت کسی سفید فام کی ذہانت پر شک نہیں کیا جاسکتا تھا، اُس کے متعلق یہ نہیں سوچا جاسکتا تھا کہ وہ جھوٹ بول سکتا ہے، اُس پر ہنسا نہیں جاسکتا تھا،اُس کے متعلق تحقیر آمیز خیالات کو ذہن میں نہیں لایا جاسکتا تھا۔ ان قوانین کے تحت 1965ء تک سیاہ فام مرد سفید فام مرد سے مصافحے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھا سکتے تھے، اُس کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتے تھے۔ کسی سیاہ فام کے نام کے ساتھ کوئی قابل احترام سابقہ یا لاحقہ نہیں لگایا جاسکتا تھا۔ سیاہ فام سفید فام کے ساتھ گاڑی میں برابر بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ یہاں تک کہ تعارف میں کسی سفید فام کو سیاہ فام سے متعارف نہیں کرایا جاتا یہ سیاہ فام کی ذمہ داری تھی کہ وہ کمتر رتبے کی وجہ سے اپنا خود تعارف کرائے۔ اسپتالوں میں سیاہ فام الگ ہوتے، قبرستانوں میں الگ دفنائے جاتے۔ ان کے ٹکٹ گھر، نشستیں، انتظار گاہیں اور غسل خانے سب الگ تھے۔ ان کی کتابیں، سرکس اورسینماتک الگ تھے۔کیا آپ جانتے ہیں جب امریکی صدور غیر مہذب کی اصطلاح استعمال کرتے، تو اس سے ان کی مرادیہی سیاہ فام اور ریڈ انڈینز ہوتے تھے۔ ذرا ٹہر کر امریکا کے سترہویں صدر اینڈریو جانسن کے کانگریس کے نام پیغام کو تاریخ سے تازہ کرلیں:اگر غیر مہذب (ریڈ انڈینز،سیاہ فام) مدافعت کریں تو تہذیب ایک ہاتھ میں بائبل کے دس احکامات اور دوسرے میں تلوار کے ساتھ ان کے فوری قتل کا تقاضا کرتی ہے“۔
جم کرو قوانین پر اسی ذہنیت کے ساتھ سختی سے عمل کیا جاتا۔ ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے سفید فاموں کے تشدد پسند گروہ وجود میں آئے۔ انہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا۔اور ایک صدی سے زائد تک سیاہ فاموں کواپنی دہشت سے دوچار رکھا۔ یہ کسی بھی سیاہ فام کو پکڑتے، گلے میں پھندا ڈالتے، اُسے پھانسی دے دیتے اور یہیں تک اکتفا نہ کرتے۔ پھر لاش کو آگ لگاتے، تالیاں بجاتے، سیٹیاں مارتے اور قہقہے لگاتے۔ اسی عمل کو”لنچنگ“ کہا جاتا۔ درحقیقت ”لنچنگ“کا لفظ اور نظریہ سیاہ فاموں کے خلاف اس وحشیانہ اور سفاکانہ روش کے بعد ہی مقبول ہوا۔ سفید فام نسل کے اندر پوشیدہ حیوانیت کا یہ ننگا مظاہرہ ایک صدی تک بلا تعطل اور بلاتوقف جاری رہا۔ ریڈ انڈینز اور سیاہ فام مختلف طریقوں سے بہیمانہ تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اتارے جاتے رہے۔سینکڑوں مختلف طریقوں میں سے پھانسی محض ایک طریقہ تھی۔ تاریخ کی کتابوں میں صرف انسانیت سوز پھانسی کے ذریعے قتل ہونے والوں کی محتاط تعداد 4742شمار کی گئی ہے۔یہ اُن کروڑوں قتل ہونے والوں میں سے محض پھانسی پانے والوں کی تعداد ہے۔اس میں جارج فلا ئیڈکو نشانا بنانے والے طریقے سے موت کو گلے لگانے والے لوگ شامل نہیں۔
امریکا نے اپنی زمین کے اصل وارث دس کروڑ ریڈ انڈینز (سرخ ہندی) کو قتل کیا۔ برکلے یونیورسٹی کے ایک سائنٹیفک تحقیقی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جب کولمبس جیسے بھیڑیے، وحشی اور ننگ انسانیت نے نئی نوآبادیات کی تلاش میں امریکی سرزمین پر قدم رکھا تو یہاں پر ریڈ انڈینز کی آبادی لگ بھگ سو ملین تھی۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں امریکیوں کے ہاتھوں ریڈ انڈینز قتل نہ ہوتے تو آج چینیوں اور ہندوستانیوں کے بعدآبادی کے مسلمہ شرح اضافہ کے پیمانے سے کم وبیش 737 ملین کی آبادی کے ساتھ تیسری بڑی قوم یہی ریڈ انڈینز ہوتے۔ امریکا کے ہاتھوں منظم نسل کشی سے اب یہ صرف چند لاکھ رہ گئے ہیں۔ اس سلسلے میں مائیکل مین کی کتاب ”The Dark Side of Democracy“ کا مطالعہ لازمی ہے۔مائیکل مین کے مطابق امریکا کے ہاتھوں قتل ہونے والے ریڈ انڈینز کی تعداد دس کروڑ ہے۔ مصنف نے اپنی کتاب میں واضح کیا کہ اس سرزمین کے اصل باشندوں کو قتل کرنے کے لیے امریکا کے پانچ صدور جارج واشنگٹن، تھامس جیفرسن، اینڈریو جیکسن، ابراہم لنکن اور تھیوڈور روز ویلٹ کے سفاکانہ فرامین نے کس طرح شرمناک نسل کشی کو ممکن بنایا اور اس پورے عمل میں عدلیہ اور کلیسا نے ان جمہوری صدور کی ہمنوائی کی۔ مرکزی دھارے کے تمام ذرائع ابلاغ رائے عامہ کو ہموار رکھنے میں شریک جرم رہے۔ مائیکل مین نے اس کتاب میں جمہوریت اور نسل کشی کے مابین نامیاتی تعلق کو واضح کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ایک پوری نسل کو نابود ومعدوم کرنے کا یہ جذبہ جتنا نسلی تھا اُتنا ہی جمہوری بھی تھا۔ یہ کتاب اُن کچے پکے دانشوروں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو چند بدعنوان سیاست دانوں کے ساتھ اپنے ذاتی منفعت بخش تعلق کا قرض اتارنے کے لیے جمہوریت کا نقاب چہرے پر چڑھاتے ہیں۔ جارج فلا ئیڈ کا قتل امریکا کی جمہوری و عوامی تاریخ میں کڑوروں افراد کے بے رحمانہ قتل کے ہندسوں میں بس ایک کا اضافہ ہے۔ افریقی نژاد سیاہ فاموں کے قتل میں ”لنچنگ“امریکا کی صرف تاریخ نہیں بلکہ روزمرہ کی سچائی ہے۔
جارج فلائیڈ کا قتل نیویارک کی ایک سڑک کی یاددلاتا ہے جہاں 2014 ء میں ایک سیاہ فام ایرک گارنر کو اسی طرح ایک پولیس افسر نے موت کے گھاٹ اتار اتھا۔ اُس نے بھی فلائیڈ کی طرح دم گھٹنے کی مایوس کن التجا کی تھی،جب پولیس نے اُسے گلے سے پکڑا تھا۔ وہ سانس نہیں لے پارہا تھا۔ فلائیڈ کے قاتل کی طرح ایرک گارنر کے قاتل پولیس افسر نے بھی اس فریاد کو نظرانداز کردیا تھا۔ قاتل اور مقتول دونوں ہی جانتے ہیں کہ امریکی تاریخ کیا ہے؟ مقتول کے بس میں مایوس کن فریاداور مقتول کے قتل ہونے تک قاتل کی وحشیانہ لاتعلقی۔ ایرک گارنر کی والدہ نے2014 میں اپنے بیٹے کے قتل کے بعد ایک کتاب ”This Stops Today“ لکھی تھی، اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے امریکا کے شہری حقوق کے فعال کارکن الفریڈ چارلس شیرپٹن کا ایک فقرہ ملتا ہے:گلا دبائے کسی آدمی کو یہ کہنے کے لیے کسی تربیت کی ضرورت نہیں کہ اس کا دم گھٹ رہا ہے“۔مگر کتاب میں یہ فقرہ نہیں ملتا کہ ایسے افتادگان خاک کی مرتی آوازوں کو سفاکانہ طور پر نظرانداز کرنے کے لیے ایک وحشیانہ تربیت کی ضرورت ہے اور سفید فام نسلی برتری کے جنون میں مبتلا امریکی حکمرانوں کو اس کی بہت پرانی تربیت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔