... loading ...
یہ کون لوگ ہیں جن کے دلوں پر سانپ لوٹتے ہیں، جنہیں کوئی کل قرار نہیں پڑتا۔
یہ دن بھی دیکھنے تھے، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی قبر مبارک کی بے حرمتی!، یاللعجب یہ دن بھی دیکھنے تھے!!!کیا عجب کہ یہ امت دوبارہ جی اُٹھے، ققنس کی طرح اس کی راکھ پر کوئی حیات افزا مینہ برسے، کوئی بیل بوٹے اُگیں۔
خلفائے راشدین کا دور ختم ہوگیا، پھر وہ کیا دور تھا جب عیسائی شاعر اخطل، خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دربار میں اِٹھلائے پھرتا۔ گلے میں سونے کی صلیب لٹکائے آتا، داڑھی کے بالوں سے شراب کے قطرے ٹپکتے،مگر دینی حمیت رخصت ہوچکی تھی، کون اُسے روکتا۔ کون اُسے ٹوکتا۔ عربی مقولہ ہے:مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے“۔ جب سرکار دربار ایسے ہو تو معاشرے شکست وریخت کے منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ بنی امیہ کا دور تھا، عرب عصبیت سراُٹھانے لگی تھی، اسلام اس جاہلیت عصبیہ کے خلاف ایک آفاقی پیغام تھا، خاندانی تفاخر کو اس نے ملیا میٹ کیا تھا، اعزہ پروری اور خاندانہ جنبہ داری کی بیخ کنی کی تھی۔مگر بنی امیہ کے دور میں یہ سیلاب پھر امڈ آیا۔ذوقِ عبادت اور شوقِ شہادت کی جگہ اب دنیا داری کا چلن تھا۔اعمال واخلاق کی تحریک میں بندگی کا شعور ناموری اور برتری کے غرور میں بدلنے لگا۔ عرب سردار رات کی ریاضتوں اور عبادت کی رقتوں پر نہیں، پکوانوں اور مہمانوں کی اقسام وتعداد میں مقابل ہوتے۔دو سرداروں حوشب اور عکرمہ میں بیش کھانا اور زیادہ مہمان بلانے کا جھگڑا رہتا۔یہ خوشامدی درباری اور آبرو باختہ مصاحبین کا دور تھا۔
ایک عربی ضرب المثل سکھاتی ہے:حُسنُ نَبَاتِ الارضِ مِن کَرمِ البَذرِ(زمین کی بہتر روئیدگی اچھے بیج پر منحصر ہے)۔ یہ بیج خلیفہئ ثانی حضرت عمرؓ کے دورِ مبارک میں پڑچکا تھا۔ واقعہ مشہور ہے۔ حضرت عمرفاروقؓ ایک رات گشت فرما رہے تھے، جب ایک گھر سے کسی عورت کی آواز سنی۔ بیٹی صبح ہو رہی ہے، دودھ میں پانی ملادے۔ لڑکی جواب دیتی ہے:ماں آپ کو معلوم نہیں امیر المومنین حضرت عمرؓ نے دودھ میں پانی ملانے کی ممانعت کی ہے۔ عورت نے کہا: امیر المومنین کو اس کی کیا خبر؟ تب لڑکی جواب دیتی ہے:امیر المومنین نہیں، خد ا تو دیکھ رہا ہے۔حضرت عمرؓ نے اگلے روز اپنے صاحبزادے حضرت عاصمؓ سے کہا کہ تم اس لڑکی کو اپنے رشتہئ مناکحت میں لے لو، مجھے امید ہے کہ اس کے بطن سے ایک نیک جواں مرد پیدا ہوگا“۔ وہ پیدا ہوا۔ فاروقیت اور امویت کا ایک حسین سنجوگ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز بانی خاندان مروان بن حکم کے پوتے تھے اور اُن کی والدہ ام عاصم حضرت عمرؓ کی پوتی تھیں۔آپ پانچویں خلیفہ راشد کہلائے۔ کیا زندگی تھی اور کیا خلافت تھی۔ آدمی ہکا بکا رہ جاتا ہے۔ تبدیلی کیا ہوتی ہے، تبدیلی سرکار کسے کہتے ہیں،خود پتہ چلتا ہے۔
حضرتِ عمر بن عبدالعزیز ؒ کو حادثاتی طور پر خلافت کی ذمہ داری ملی۔ولید بن عبدالملک کے دور میں مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ سرزمین عرب پر ایسی نخرے والی چال کسی نے دیکھی نہ تھی، جو نوجوانوں کا فیشن بنی۔ اُن کی خوشبو اُن کے ساتھ مخصوص تھی، جس راستے سے گزرتے، دیر تک وہ مہکتارہتا۔جاگیریں تھیں، اور دنیا میں کیا تھا، جو اُن کے پاس نہ تھا۔ یہی باتیں ہمیں اپنے حکمرانوں سے بھی سننے کو ملیں۔مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے کیا کہنے!آٹھویں خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی وصیت کے مطابق اُنہیں خلافت مل گئی۔سلیمان بیمار ہوئے،بچے چھوٹے تھے۔اُنہیں لمبی لمبی قبائیں پہنائی گئیں، ہتھیار باندھے گئے، شاید قد آور دکھائی دیں مگر جچے نہیں۔ سلیمان حسرت سے اُنہیں دیکھتا رہا، تب مشیروں میں کوئی چنگاری ہوتی تھی، رجاء بن حیوہ میں اصلاح احوال کی کوئی آگ دہک رہی تھی، اُنہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی جانشینی کا مشورہ دیا۔ آسمان سے اُترنے والے اس مہربان لمحے میں سلیمان نے مشورہ قبول کرلیا۔ خاموشی سے وصیت لکھ دی گئی۔ اندیشہ تھا کہ وصیت قبل ازوقت طشت از بام ہوئی تو ہنگامہ اُٹھے گا۔ موروثی سیاست اصلاح کی اس کوشش کو نگل لے گی۔ چنانچہ انتہائی خاموشی سے ملفوف وصیت پر بیعت لے لی گئی اور پھر وصیت کو کھولا گیا تو اس میں سے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا نام نکل آیا۔ مدینے کی ریاست حزب اختلاف پر نہیں خود پر پہلے نافذ کی جاتی ہے۔ سیرت عمر بن عبدا لعزیز کا پیغام تو یہی ہے۔ چنانچہ جب اُن کا نام سامنے آیا اور آپ قبول کر لیے گئے تو مسلمانوں کے مجمع عام کو مخاطب کیا۔ مجھے اپنی خواہش کے برخلاف اور خود سے کسی بھی مشاورت کے بغیر خلافت کی ذمہ داریاں دے دی گئی ہیں۔ مگر میں تمہاری گردنوں سے اپنی خلافت کا طوق اُتارتا ہوں، آپ جسے چاہے اپنا خلیفہ منتخب فرمائیں۔
کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ اصلاح کی طاقت اور قربانی کیا ہوتی ہے۔ خلافت بنی امیہ موروثی راستے پر تھی۔ یہ پہلی اور بنیادی اصلاح تھی جو خود کو داؤ پر لگا کر شروع کی گئی۔ خلافت کو بنی امیہ کے موروثی مزاج سے نکالنے کے لیے اپنی خلافت کو وصیت کی تحویل سے نکال دیا اور امت کی مشاورت اور صوابدید پر چھوڑدیا۔ جب آدمی حبِ جاہ نہ رکھتا ہو تو پھر وہ غیر معمولی فیصلے بھی کرسکتا ہے۔ اقتدار پر لات مارنے والے ہی اقتدار کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ بڑے بڑے فیصلے کر سکتے ہیں۔ یوٹرن سے بچ سکتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یہ کرکے دکھایا۔ جب اُن کی خلافت مان لی گئی تو سب سے پہلے اپنی جاگیریں مسلمانوں کو لوٹادیں، بیوی کے تمام زیورات بیت المال میں جمع کرا دیے۔ پھر سب کو حکم دیا کہ اپنی جاگیریں بیت المال میں جمع کرادیں۔ مسلمانوں کے ایک وفد نے اُنہیں اپنے پیش رو بنی امیہ کے خلفاء کے راستے پر چلنے کا مشورہ دیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ میرے پاس اس سے بھی بہتر راستا ہے جو قرآن پاک کی صورت میں ہے۔ اس بے مثال روش پر چلتے ہوئے خود بھی سادگی کا پیکر بن گئے۔ وہ نخرے کی چال اب کہاں، وہ خوشبوئیں بھی باقی نہ رہیں۔ حضرت عمرؒ کی زندگی سادگی کا جوہر بن گئی۔ اُن کی زاہدانہ زندگی بادشاہوں میں تو ہمیشہ بے نظیر رہے گی، مگر درویش اور فقراء بھی اُن کے آگے پانی بھرتے نظر آئیں گے۔ ایک دفعہ اپنی بیٹیوں سے ملنے گئے، دیکھا کہ بیٹی بات کرتے ہوئے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیتی ہے۔ پوچھا تو معلوم ہوا:بچیوں نے آج صرف دال اور پیاز کھائی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رونے لگے۔ فرمایا: بیٹیوں کیا تم اس پر راضی ہو کہ تم انواع واقسام کے کھانے کھاؤاور تمہارا باپ جہنم میں جائے۔یہ سننا تھا کہ بیٹیاں بھی رو پڑیں۔ بیٹیاں آج بھی روتی ہیں،یہ آنسو بہتے رہیں گے، اگر حکمران حضرت عمر بن عبدالعزیز ایسے ہوں گے تو یہ آنسو اُن کے رخساروں پر نظر آئیں گے اور اگر ہمارے حکمرانوں جیسے ہوں گے تو یہ عوام کے رخساروں پربہتے رہیں گے۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ روئے زمین کی سب سے بڑی سلطنت کا حکمران حج کرنا چاہے اور اُن کے پاس اپنے ذاتی خرچ میں اتنی رقم نہ ہو کہ وہ جاسکیں۔ پھر ایک بڑی خاندانی مالیت آتی ہے تو خادم خوشی سے کہتا ہے کہ اب سامان حج ہوگیا۔ تو فرمایا:ہم نے اس مال سے بہت دنوں فائدہ اُٹھایااب یہ مسلمانوں کا حق ہے۔ پھر تمام خاندانی مالیت کو بیت المال میں جمع کرادیا۔ یہ وہ مبارک حج ہے جو کبھی نہیں ہوا، مگر قبول ہوا۔ ہم نے ایسے حکمران پائے جنہیں حج اور عمرے سرکاری خزانے سے کرنے کی عادت ہے۔جب حکمران نہ ہوتے تو کبھی اپنے ذاتی مال سے دیارِ حبیب کے کوچے میں نہ گئے۔ سرکاری خزانے اور بیت المال کا بوجھ کیا ہوتا ہے، حضرت عمرؒ کے طرزِ عمل سے پتہ چلتا ہے۔ سرکاری شمع جل رہی ہو اور کوئی اُن کی خیریت بھی دریافت کرتا تو شمع گل کردیتے۔ بیت المال کے مُشک کو سونگھنا گوارا نہ کرتے۔ سرکاری باورچی خانے کے گرم پانی سے غسل میں بھی دامن بچاتے۔ ایک درخواست میں سرکاری کاموں کے لیے کاغذ طلب کیے گئے، تو لکھا:
”قلم باریک کردو،گٹھا ہوا لکھو، ایک پرچے پہ بہت سی ضروریات لکھ دیا کرو، کیونکہ مسلمانوں کو ایسی لمبی چوڑی.
باتوں کی ضرورت نہیں، جس سے خوامخواہ بیت المال پر بار پڑے“۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے صرف چالیس بر س کی عمر (61تا 101 ہجری)پائی، جس میں خلافت کا عرصہ صرف دوسال پانچ ماہ تک محیط ہے۔ اگر کوئی کچھ کرنا چاہے تو یہ عرصہ بھی بہت ہے، مگر ہمیں ایسے حکمران نصیب ہوئے جو ہماری گردنوں پر زندگی بھر مسلط رہتے ہیں، اپنے بعد اپنے خاندانوں کو کوس لمن الملک بجانے کے لیے چھوڑجانا چاہتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں کے لیے پھربھی دوسروں کے کندھے تلاش کرتے ہیں۔کیا ہم مسلمان ہیں؟ ایک ہوک کے ساتھ سوال اُٹھتا ہے۔ ہوں بھی تو کیسے مسلمان ہیں؟ ایک زندہ دین کے ساتھ اُس کے ماننے والوں نے زندگی کے کسی لمحے کو وابستہ نہیں رکھا۔ بناوٹی تعلق کی تمام پرتوں میں ریاکاری اور نفاق جھلکتا، چھلکتا،اُچھلتا، اُبلتا ہے۔ کسی کو پروا نہیں۔ پھر بھی زمانے کے اُلٹ پھیر پر قادراور تبدیلی کی صنعت کے معمار اول وآخر رب کائنات سے کیوں نہ امید باندھی جائے۔ کیا عجب کہ حضرتِ عمر بن عبدالعزیز کی قبر کی بے حرمتی پر اُس کی قدرتِ کاملہ جوش میں آئے۔ اُس کے کارخانہئ قدرت میں تبدیلیوں کے محرکات اچانک جاگ اُٹھیں، یہ امت دوبارہ جی اُٹھے، ققنس کی طرح اس کی راکھ پر کوئی حیات افزا مینہ برسے، کوئی بیل بوٹے اُگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔