... loading ...
’’ ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر چین خاموشی کے ساتھ امریکا کی جگہ لے رہا ہے اور یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے ۔ یعنی اَب ہم پر کسی ایک عالمی طاقت کا انتخاب کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا ہے ۔اس لیے ہمیں جلد ازجلد چین کے حوالے سے ایک مضبوط پالیسی طے کرنی ہوگی ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمیں درست فیصلہ کرنے میں بہت دیر ہوجائے ‘‘۔یہ الفاظ نہ تو چین کے وزیرخارجہ کے ہیں اور نہ ہی یہ خیالات پاکستان سمیت کسی ایسے ملک کے حکومتی ترجمان کے ہیں جو چین کے ساتھ دوستی کا دَم بھرنے کا دعوی دار ہو بلکہ پوری دنیا کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے والے اور امریکا کے اتحادیوں کے سروں پر کسی ہتھوڑے کی طرح برسنے والے یہ الفاظ یورپین یونین کے وزیرخارجہ جناب جوزف بوریل کے ہیں ۔جن کا اظہار انہوں نے گزشتہ دنوں جرمنی کے سفارت کاروں کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔یہ وہی یورپی یونین ہے جو کل تک امریکا کی سب سے بڑی حاشیہ بردار ہونے پر فخر سے پھولے نہیں سمایا کرتی تھی لیکن آج اِسی یوروپی یونین کے ایک وزیرخارجہ کسی بند کمرے میں ہونے والی خفیہ میٹنگ میں نہیں بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ کے سامنے پوری تمکنت اور یقین کے ساتھ ساری دنیا کو یہ بتانے بلکہ شاید سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں امریکا کے سر سے عالمی طاقت کا تاج کھسک کر چین کے قدموں میں آگرا ہے اور چین کسی بھی وقت اِس تاج کو اپنے سر کی زینت بنا کر دنیا کی ایک نئی عالمی طاقت ہونے کا باضابطہ اعلان کر سکتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بوریل نے صرف اِسی پر بس نہیں کی بلکہ لگے ہاتھوں وہ ترنگ میں آکر یہ بھی کہہ گزرے کہ ’’ ماہرین جس’ ’ایشائی صدی‘‘ کی آمد کی پیشگوئی کر رہے تھے اس کا شاید کورونا کی وبا کے دوران ظہور ہو چکا ہے اور اب تاریخ میں کووڈ19 کی وبا کو ایک ایسے فیصلہ کن موڑ کے طور پر یاد رکھاجائے گا جب دہائیوں بعد امریکا دنیا کی رہنمائی کرتا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا۔جبکہ امریکا کے مقابلہ میں کورونا وائر س کی عالمگیر وبا کے دوران چین کا کردار انتہائی متاثر کن رہا ہے لہٰذا ضرور اِس امر کی ہے کہ ہم جلد ازجلد اجتماعی نظم و ضبط کے ساتھ چین کے ساتھ اپنے تمام تصفیہ طلب معلامات طے کرلیں کیونکہ تب ہی مستقبل میں ہمارے پاس کوئی موقع ہوگا‘‘۔
یورپی وزیرخارجہ کے درج بالا فرمودات اور ارشادات کو آپ سفارتی زبان میں چین کے عالمی طاقت ہونے کے حق میں پیش ہونے والی پہلی باضابطہ قرارداد بھی کہہ سکتے ہیں جسے یوروپی یونین نے ساری دنیا کے سامنے منظوری کے لیے پیش کرکے ابتدائی سبقت حاصل کرنے کا اعزاز تو اپنے نام کرہی لیا ہے ۔اَب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے ’’وبائی ایّام‘‘ میں مزید کون کون سا ملک اِس قرار داد کے حق میں اپنے ہاتھ بلند کر کے امریکا سے اپنی ’’سفارتی نظریں ‘‘ چرانے کی ہمت کرتاہے ۔ یاد رہے کہ کورونا وائر س کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود بھی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ آج کل کئی عالمی ادارے امریکا کے بجائے چین کی پشت پر کھڑا ہونا زیادہ پسند کر رہے ہیں ۔ بالخصوص انہوں نے عالمی ادارہ صحت پر کورونا وائرس کے معاملہ میں چین کی جانب داری کرنے کا براہ راست الزام لگاتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کی مالی امداد بند کرنے کی دھمکی بھی دی ۔ لیکن لطیفہ ملاحظہ ہو کہ عالمی ادارہ صحت امریکا صدر کے الزام سے مرعوب ہونے کے بجائے مزید پوری قوت سے امریکا کے خلاف اور چین کے حمایت میں کھڑا ہوگیا ۔ یہ اوّلین اشارہ تھا کہ عالمی ادارے کس طرح سے امریکا کے انتظامی چنگل سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں ۔ یا یہ بھی ہوسکتاہے کہ عالمی اسٹیبلیشمنٹ سب سے پہلے امریکا کے زمین بوس ہوتے ہوئے عروج کا بالکل درست اندازہ لگا تے ہوئے اپنی نئی پناہ گاہ یعنی چین کے سائے تلے سکھ چین کے ساتھ اپنی پکی جگہ بنانے کی متلاشی ہو۔ بہر حال ایک بات طے ہے کہ کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے بعد عالمی منظر نامہ میں سیاسی تبدیلی کے تیز جھکڑ چلنا شروع ہوگئے ہیں ۔ بقول محشر بدایونی۔۔۔اَب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ\جس دیئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔
ایک پاکستانی کہاوت’’ مرے کو مارے شاہ مدار ‘‘کے مصداق پیشہ وارانہ سروس کی عالمی فرم پی ڈبلیو سی کی حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ ’’دی ورلڈ ان 2050‘‘ نے بھی چین کی ایک نئی عالمی طاقت ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے یہ لکھ دیا ہے کہ ’’اگر کسی بھی ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کو لوگوں کی مساوی قوتِ خرید جس کا حساب مختلف ملکوں میں قیمتوں کے فرق کو برابر کر کے لگایا جاتا ہے، اس کے اعتبار سے دیکھیں تو چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی عالمی معاشی طاقت بن چکا ہے‘‘۔اگر بنظرِ غائر جائز ہ لیا جائے تو ایک کے بعد ایک ملک کا چین کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا اعلان کرنا اور آئے روز کسی نہ کسی عالمی ادارہ کا اپنی رپورٹ میں جلی حروف سے یہ لکھ دینا کے ’’چین ایک عالمی طاقت ہے‘‘۔کیا یہ سب یونہی بس ایک حسن ِ اتفاق یا کسی کی شرارت کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتاہے ؟ یقینا ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی عالمی ادارہ ہو یا پھر کوئی بھی ملک اگر وہ چین کے عالمی طاقت ہونے میں صبح و شام رطب اللسان بنا ہوا ہے تو اِس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ دنیا رفتہ رفتہ جہاں چین کو نئی عالمی طاقت کے طورپر تسلیم کرتی جارہی ہے وہیں وہ اپنے ڈھکے چھپے لفظوں میں امریکا کو یہ بھی باور کروانے کی کوشش کررہی ہے کہ ’’برائے مہربانی عالمی طاقت کا سنگھاسن خود ہی چھوڑ دیں اِسی میں آپ کی عزت ہے ۔وگرنہ کہیں ایسا نہ ہوکہ چین زبردستی یہ راج سنگھاسن چھین لے ۔بالکل ویسے ہی جیسے کبھی آپ نے روس کے عالمی بادشاہت کے تخت کو تاراج کیا تھا‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔