وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان،وبا اور بدامنی

جمعرات 28 مئی 2020 بلوچستان،وبا اور بدامنی

بلوچستان کے اندر پچھلے چند دنوں میں تخریب و دہشت گردی کے متعدد ناخوشگوار واقعات رونما ہو چکے ہیں۔بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور چند دوسرے بلوچ سیاسی حلقوں کی جانب سے مبینہ جبری گمشدگیوں بارے احتجاج اور تشویش کا اظہار ہو رہاہے۔ 20مئی 2020ء کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس متحدہ حزب اختلاف کی بار بار کی ریکوزیشن پر طلب کیا گیا تھا۔ حزب اختلاف کورونا وباء اور اس تناظر میں حکومتی اقدامات اور عوام کو صحت کی سہولیات دینے اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والے و دیگر مستحق افراد کو معاشی ریلیف بارے بات کرنے پر مصر تھی۔حزب اختلاف سمجھتی ہے کہ بے اعتدالیاں اور بد عنوانی مختلف مدات ،شعبوں اور محکموں میں ہوئی ہے۔ گویا یہا ں کورونا وباء ، عوام کے مسائل حکومت اور سرکاری محکموں کی نا اہلی ، غفلت اور دوسرے مسائل تو اپنی جگہ موجود ہیں۔ مگرمسئلہ امن و امان کا بھی درپیش ہے۔ جس پر بلوچستان اسمبلی میں بات ہونی چاہئے تھی۔ بلکہ اسمبلی اجلاس کے ایجنڈا میں یہ نقطہ بھی شامل ہونا چاہئے تھا۔ ذکر ہوا کہ پچھلے دنوں سنگین واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کی مختصر تفصیل یوں ہے۔ 08مئی 2020کو بلوچستان کے ضلع کیچ میں بلیدہ کے مقا م پر سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ کیا گیا ،چھ اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ ریموٹ کنٹرول بم سڑک کنارے نصب کیا گیا تھا۔ سیکورٹی فورسز کی گاڑی پاک ایران سرحد پر معمول کی گشت پر تھی۔ اس واقعہ میں میجر ندیم عباس بھٹی، نائیک جمشید، لانس نائیک تیمور، لانس نائیک خضر حیات، سپاہی ساجد اور سپاہی ندیم جاں بحق ہو گئے۔ ایک سپاہی شدید زخمی بھی ہوا۔
19مئی 2020ء کو ضلع کچھی (بولان) میں پیر غائب کے مقام پر فرنٹیئر کور کی گاڑی ہدف بنی۔ فورسز کی گاڑی گشت کرنے کے بعد بیس کیمپ جا رہی تھی کہ آئی ای ڈی کا حملہ ہوا۔ نتیجتاً چھ اہلکار جان سے گئے۔ پاک آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ نے جونیئر کمیشنڈ آفیسر اور سویلین ڈرائیور سمیت چھ اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کر لی ہے۔ آئی ایس پی آر نے ان اہلکاروں کے نام نائب صوبیدار احسان اللہ خان، نائیک زبیر خان، نائیک اعجاز احمد، نائیک مولا بخش، نائیک نور محمد اور ڈرائیور عبدالجبار بتایا ہے۔ اس نوعیت کا ایک اور واقعہ پاک افغان سرحدی ضلع قلعہ عبداللہ میں بھی رونما ہوا۔ افغان سرحد کے قریب توبہ اچکزئی میں ایک بم دھماکے میں پاک فوج کے دو سپاہی جاں بحق ہو گئے۔ اسی واقعے میں دو سپاہی زخمی بھی ہو گئے تھے۔ فوج کے یہ سپاہی سرحد پر باڑ لگانے کے کام کے دوران وہاں موجود تھے۔ 20مئی کو ضلع کیچ میں سیکورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا۔مند اور بلیدہ میں کی گئی یہ کاروائیاں فورسز پر پے در پے حملوں کے بعد عمل میں لائی گئیں۔ عسکریت پسندوں کے اہم کمانڈر احسان اللہ سمیت پانچ دوسرے عسکریت پسند مارے گئے۔ ایک عسکریت پسند حراست میں بھی لیا گیا۔ اور بھاری مقدار میں اسلحہ،گولہ بارود، ریموٹ کنٹرول بم اور دیگر اسلحہ برآمد کیا گیا۔
مئی 2020ء کے پہلے ہفتے میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ ضلع قلات اور خاران کے مابین واقع شور پارود کے مقام پر جھڑپ میں کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے دو افراد شہداد بلوچ اور احسان بلوچ مارے گئے۔ بی ایل اے اپنے لوگوں کے مرنے کی تصدیق بھی کر چکی ہے۔ان میں شہداد بلوچ تربت کا رہائشی تھا۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ڈیفنس اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں ایم اے کیا تھا۔ اور یونیورسٹی کے شعبہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز میں ایم فل کی ڈگری کے لیے ایڈ مشن بھی لے رکھا تھا۔ شہداد بلوچ مارچ 2015ء میں ایک بار تربت سے لاپتہ بھی ہو چکا تھا۔ تب انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اْن کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ چناں چہ چند ماہ بعد شہداد بلوچ منظر عام پر آ گئے۔ یوں اس روز فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ان کی ہلاکت اور بی ایل اے کی تصدیق نے مہر تصدیق ثبت کر دی کہ شہداد بلوچ ریاست کے خلاف مسلح کاروائیو ں میں ملوث تھا۔ بلوچستان اسمبلی کے اس اجلاس میں بد امنی کی صورتحال پر بات ہونی چاہئے تھی۔ یقینا سیاسی کارکنوں یاکسی کی جبری یا ماورائے عدالت گرفتاری و گمشدگیوں پر اعتراض و تشویش بجا ہے۔مگر ساتھ فورسز پر حملوں کے پہلو پر بھی خفگی کا اظہار کرنا چاہئے۔ یقینا جب عسکریت پسندانہ عملیات نہ ہوں گی تو کوئی شخص ماورائے عدالت لاپتہ بھی نہیں ہو گا۔ غرض اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ بڑے زور و شور سے کیا جاتا رہا مگر جب اجلاس ہوا تو اس میں حزب اختلاف کے محض تیرہ ارکان شامل تھے۔ اور حکومتی بینچوں میں سے بھی تیرہ ارکان شریک ہوئے۔ گویا 20مئی کا اجلاس مقصد حاصل نہ کر سکا۔ حزب اختلاف اور حکومتی اراکین کو اجلاس میں دلچسپی دکھانی چاہئے تھی تاکہ درپیش وباکی صورتحال اور مبینہ محکمانہ بے اعتدالیوں اور جملہ صورتحال پر سیر ح?اصل بحث ہوتی۔ اچھا ہو گا کہ اگر آئندہ کے اجلاس میں صوبے کے اندر فورسز پر حملوں اور دوسرے افراد کو ٹارگٹ بنانے کے واقعات پر بھی بات ہو۔
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر