... loading ...
دنیا کا معاشی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ چین ڈالر کے جبر سے خود کو نکال رہا ہے۔عالمی سطح پر ڈالر کے مستقبل پر اُٹھنے والے سوالات روز بروز تیز سے تیز تر ہورہے ہیں۔ چین کیا کررہا ہے؟ یہ سمجھنا نہایت ضرور ی ہے تاکہ اگلے وقتوں کی انقلابی تبدیلیوں کا فہم حاصل ہوسکے۔
چین نے سب سے پہلے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے اکٹھ آسیان پلس تھری کے ممالک برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائیشیا، میانمار، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ، اور ویتنام سے مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دیا۔ جاپان اور جنوبی کوریاکے ساتھ بھی چینی تجارت ڈالر سے گریز کے اُصول پر ہے۔ان ممالک میں باہمی تجارت کے لیے سی آئی پی ایس (Cross-Border Interbank Payment System) کو مالیاتی لین دین کے لیے رائج کیا جارہا ہے۔ اس جرأت مندانہ قدم سے ان ملکوں کی معیشت ادائیوں کے نظام میں ڈالر کے شکنجے سے باہر نکل گئی ہے۔ یہ قدم بین الاقوامی مالیاتی لین دین میں امریکی مداخلت کا راستا مسدود کرے گا۔دوسری طرف یہ امریکا کی دھمکی کا بھی جواب ہے جو وہ چین کو اُس کی سپلائی لائن توڑنے کی شکل میں ہروقت دیتا رہتا ہے۔ امریکا کی جانب سے یہ دھمکی سراسر فریب خوردہ ہے۔ امریکی صنعتوں کا تقریباً اسی فیصد سے زائد انحصار چین سے سپلائی پر ہے۔ یہ انحصار طبی میدان میں تو حد سے زیادہ ہے جس میں اسی سے نوے فیصد تک طبی اشیاء چین سے امریکا کو فراہم کی جاتی ہے۔ امریکا کے پاس چین کی اس سپلائی لائن کو توڑنے کا راتوں رات کوئی حل یا متبادل موجود نہیں۔ 2020 کی پہلی سہ ماہی میں چین نے آسیان ممالک سے تجارت میں یورپی یونین کو پیچھے چھوڑدیا۔ آسیان ممالک نے 15.1 فیصد کے ساتھ چین کے ساتھ سب سے بڑی تجارتی شراکت داری قائم کی۔ جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ13.7 فیصد تجارت ہوئی، اب اگر اس میں چین کی روس کے ساتھ 15 فیصد تجارت کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ ہندسہ مجموعی طور پر پچاس فیصد کے قریب جا ٹہرتا ہے۔ ذرا سوچئے چین کے ساتھ یہ ممالک اپنی تمام ترتجارت امریکی ڈالر کے بغیر کررہے ہیں۔
چین کے مرکزی بینک”پیپلز بینک آف چائنا“ (پی بی سی)کے ذریعے عالمی تجارت کے لیے ”کرپٹو کرنسی“ کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔
اس طرح امریکی مداخلت اور پابندیوں کا وہ نظام جو امریکی ڈالراور عالمی رقوم کے تبادلے کے نظم میں جاندار مگر نرم کنٹرول کو یقینی بناتا تھا، مکمل غیر متعلق اور غیر موثر ہورہا ہے۔ چین میں پہلے سے ہی ڈالر کے بجائے رقوم کی دیگر شکلیں رائج ہوچکی ہیں۔ سائبر منی یعنی ای۔ آر ایم بی یا پھر یوآن اس وقت مختلف چینی شہروں میں رائج ہیں۔ شینزین، سوژو،چنگڈاؤ، ژیانگان سمیت متعدد شہروں میں اس کا تجربہ جاری ہے۔ یہ پیسے ہر نوعیت کے لین دین میں قابل قبول ہیں۔ تنخواہ کی ادائی، عوامی نقل و حمل، خوراک اور بیشتر خریداریوں میں یہ رقم بلا تردد قبول کی جاتی ہے۔ چین میں ڈیجیٹل منی کا استعمال نیا نہیں، وہاں مالیاتی لین دین کا تقریبا نوے فیصد ڈیجیٹل ہے، جو وی چیٹ (WeChat)اور علی پے (AliPay) کے توسط سے ہوتا ہے۔ تاہم یہ نقدی کرنسی کو تبدیل نہیں کرتا۔ اب اجناس کی قیمتوں کے تعین کا مسئلہ رہ گیا ہے جو زیادہ تر ڈالر میں ہوتی تھی،چین میں اب یہ تعین ڈالر سے نہیں یوآن سے ہوگا، جبکہ اس کی ادائی یا تجارتی لین دین کرپٹو۔یوآن کے ذریعے ہو سکے گا۔ جبکہ یوآن کے ذریعے سونے، خام تیل اور خام دھاتوں کی قیمتوں کے تعین کا آغاز پہلے ہی ہو چکا ہے۔ کورونا وبا کے ہنگام دنیا کی تمام کرنسیوں پر ایک دباؤ ہے، چین اس وبا سے نجات پانے میں کامیاب ہونے کے بعد زیادہ جلدی معیشت کی بحالی کی طرف لوٹنے میں کامیاب ہوگیا ہے، یہ سرمایہ کاری اور اجناس کے معاملات میں یوآن سے منسلک کاروبار ی لین دین کو زیادہ دلکش بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
ایک اہم معاملہ معاشی امور میں سیاسی عدم مداخلت کا ہے۔ ڈالر کے ساتھ لین دین میں سے بڑا مسئلہ امریکی مداخلت کا ہے۔ممالک اس سے تنگ آچکے ہیں۔ کوئی ملک اپنی ذرا سی خودمختاری کا مظاہرہ کرتا ہے، یا پھر امریکی حکمرانوں کی منشاء سے اپنی پالیسی کو مختلف بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے بین الاقوامی لین دین میں امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ممالک کے لیے چینی مرکزی بینک کی حمایت یافتہ کرپٹو کرنسی میں عدم مداخلت کی پالیسی رِجھائے گی، یہ چینی یوآن کو ایک محفوظ کرنسی کی حیثیت سے فروغ دینے میں معاون ہوگی۔ یہ تمام پہلو ڈالر رکھنے والے ممالک کو آہستہ آہستہ اور بتدریج ڈالرز کو چینی یوآن میں منتقل کرنے کی طرف راغب کریں گے۔ چین کے لیے کھیل بدل منظرنامے کو تخلیق کرنے کے لیے یوآن کے ذریعے سو فیصد عالمی تجارت تک پہنچناضروری نہیں۔ اگر عالمی تجارت اور عالمی ذخائر کا تقریباً پچاس فیصد یوآن کے توسط سے بین الاقوامی لین دین کے دائرے میں آجاتا ہے تو دنیا بھر میں ڈالر کا تسلط باقی نہیں رہے گا۔ مگر یہ کوئی معمولی چیلنج نہیں۔ دنیا کے متعدد ممالک کے رہنما خود کو ڈالر کے چنگل سے نکالنے کی کوشش میں ہلاک ہوگئے۔ صدام حسین عراق کے ہائیڈرو کاربن کے ذخائر کی تجارت میں ڈالر کے بجائے یورو میں کرنا چاہتے تھے۔ کرنل قذافی گولڈ دینا رکو پان افریقن تجارت کے لیے بطور کرنسی لانا چاہتے تھے تاکہ افریقا مغربی غلامی سے باہر نکل سکے۔ انہیں نیٹو اتحاد سے سزا دی گئی، باقاعدہ مارپیٹ کا نشانا بنایا گیا۔ باقی تاریخ ہے۔ کوئی اس پر بات تک کرنا گوارا نہیں کرتا کہ افریقا مکمل طور پر مغربی ممالک کا طفیلی ہے، یہ ایک نئی قسم کی نوآبادیات ہے۔
چین کی اندرونی سیاست اور معاشی فیصلوں کے رجحانات کو کھنگالا جائے تو صاف لگتا ہے کہ سائبر منی ای آر ایم بی (یوآن) چین کی مختلف ریاستوں میں آزمائشی مرحلے میں ہے۔ اگلے مرحلے میں اسے بین الاقوامی طور پر استعمال کے لیے پیش کیا جائے گا۔ یہ سب ایک جنگ کی طرح ہے۔ اگر چین اپنی سائبر منی کو عالمی طور پر تبادلہ دولت کے طور پر تسلیم کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر یوآن چین کے تمام معاشی شراکت دار ممالک کے لیے ایک ریزرو کرنسی کے طور پر سب سے زیادہ پرکشش بن جائے گی۔ ممکن ہے یہی وہ وقت ہو جب چین اپنے پاس محفوظ 1.2 ٹریلن کے ڈالر کے ذخائر بیرون ملک اثاثوں کی خریداری کے لیے مارکیٹ میں نکال پھینکے۔ ہوسکتا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ میں سرمایہ کاری کے لیے بھی یہ ڈالر استعمال ہو۔ عالمی معاشی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ چین اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کورونا بحران کے ہنگام میں اپنے اُن غریب شراکت دار ممالک کے قرضوں کی معافی پر بھی غور کرسکتا ہے، جو ممکنہ طور پر بیلٹ اینڈ روڈ میں اُن کے مستقبل کے شراکت دار بن سکتے ہوں۔
آئی ایم ایف میں کرنسیوں کی طاقت کا ہیر پھیر جنگ کا اگلا مورچہ بنے گا۔ اس وقت آئی ایم ایف دنیا کی پانچ کرنسیوں کی ایک ٹوکری رکھتا ہے۔جس میں اسپیشل ڈرائنگ رائٹس یعنی ایس ڈی آر(جودنیا کی حتمی ورچوئل ریزرو کرنسی ہے) میں کچھ اس طرح شیئر کی تقسیم ہے۔
٭امریکی ڈالر۔41.73 فیصد
٭یورو۔۔۔ 30.93 فیصد
٭چینی یوآن۔ 10.92 فیصد
٭جاپانی ین۔8.33فیصد
٭ برطانوی پاؤنڈ۔8.09 فیصد
دنیاکی دوسری بڑی معیشت کے طور پر چین کی معاشی طاقت کا حجم دیکھتے ہوئے یہ حصہ انتہائی غیر متناسب ہے۔ یوں لگتا ہے کہ چین کرنسی کی اس غیر متناسب تقسیم پر آئی ایم ایف کے ساتھ بھرپور مذکرات کرے گا۔ آئی ایم ایف کے معاملات میں مزید خرابیاں بھی موجود ہیں۔ جو اس تحریر کا موضوع نہیں۔ الغرض چین کے آئی ایم ایف کے ساتھ کرنسی ٹوکری میں یوآن کے جائز تناسب کی بات چیت چین کی کرنسی یوآن میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔ اس کے ساتھ چینی سینٹرل بینک کے زیر کنٹرول کرپٹو کرنسی اور پھر سونے کی حمایت دنیا کے معاشی منظرنامے پر انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ واشنگٹن چین سے اسی لیے خوف زدہ ہے جو ڈالر کے عالمی تسلط کو کچلنے کے بالکل قریب پہنچتا جارہا رہے۔ اب اگر امریکا چین کو کورونا وبا کے حوالے سے ذمہ دار قرار دے رہا ہے تو آسانی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکا کیا چاہتا ہے؟ وہ چین کی ساکھ تباہ کرنا چاہتا ہے۔یوآن کی مسلسل عالمی منڈی میں تجارتی حوصلہ افزائی کو روکنا چاہتا ہے۔ کورونا وبا کی آڑ میں جاری یہ جنگ زیادہ شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ جس کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی پڑ سکتا ہے۔ ہمیں تیاری کرنی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔