... loading ...
جب لوگ کورونا وائرس یا کووڈ۔ 19 کو مڑ کر کر دیکھیں گے‘ تب انہیں سب سے زیادہ جو چیز یاد رہے گی‘ وہ ہوسکتا ہے کہ بحران کے دوران ملازمتوں سے محرومی رہے۔ ملازمتوں سے محرومی کا مطلب انسانوں پر ایک بہت بڑا ذہنی دبائو ہوتا ہے۔ اس سے پہلے بھی جو بحران دنیا میں پیدا ہوئے ان بحرانوں نے انسانوں کو ذہنی دبائومیں مبتلا کردیا۔ اس سلسلہ میں ہم جان اسٹین بیک کی The Grapes of Wrat اور سٹڈس ٹرکیل کے ہاٹ ٹائمس : اینڈ اورل ہسٹری آف دی گریٹ ڈپریشن کی مثالیں دے سکتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ ا سٹین بیک کو ان کے اس فکشن پر ادب کے نوبل پرائز سے نوزا گیا تھا۔ انہوں نے یہ فکشن نان فکشن کے انداز میں پیش کیا۔ اس کے باوجود سٹالن نے اس کتاب پر پابندی عائد کردی۔ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ ا سٹالن یہ نہیں چاہتے تھے کہ روسی شہری یہ نہ دیکھے کہ ایک غریب امریکی خاندان بھی کار رکھنے کا متحمل ہوسکتا ہے (اس وقت ایک فورڈ ماڈل T کی قیمت ایک اوسط خاندان کے لیے 4 ماہ کی تنخواہ کے مساوی ہوا کرتی تھی)۔ روسی ادب سے جو چیز منظر عام پر آئے گی‘ اس بارے میں جاننا ضروری ہے۔ روس کے تقریباً تمام علاقوں میں اپریل کے اواخر تک 78 فیصد ملازمین کام نہیں کررہے تھے۔ یہ بات ’’فنانشیل ٹائمز‘‘ نے وزیر فروغ اقتصادیات کے حوالہ سے بتائی۔ روس میں اقتصادی سرگرمی اور ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی 30 فیصد سے بھی کم ہوگئی۔ ذہن نشین رہے کہ امریکامیں بیروزگاری 15 فیصد تک پہنچ گئی ہے ‘جو 1939 میں گریپس آف رات کی اشاعت کے وقت بھی اِتنی ہی تھی۔ ہندوستان ہنوز بے روزگاری کے معاملہ میں سرفہرست ہے۔ اس ملک میں بے روزگاری بڑھ کر 27 فیصد ہوگئی ہے۔ 27 فیصد کا مطلب ہندوستان میں 122 ملین لوگ بے روزگار ہیں۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں‘ بلکہ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں سے 91 ملین افراد صرف اپریل میں اپنی ملازمتوں سے محروم ہوئے ہیں۔ زیادہ تر چھوٹے بیوپاری اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔ ہمارے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کی زبانی تاریخ ایک ہندوستانی ا سٹڈس ٹرکل کی منتظر ہے جو ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ منظر عام پر آئے۔ گریپس ریپ کی جوڑ فیملی کے پاس کم از کم ایک کار تو تھی اور اسے 66 روٹ پر ہزاروں کیلو میٹر پیدل چل کر جانا نہیں پڑا اور نہ ہی تھک ہار کر وہ خاندان ریلوے پٹریوں پر گر پڑا۔
جہاں تک چین کا سوال ہے‘ کووڈ۔ 19 سے قبل ہی وہاں پر غیر معمولی تبدیلیاں رونماں ہو رہی تھیں۔ سال 2019ء میں زائد از 10 ملین صنعتی ملازمتوں سے لوگ محروم ہوگئے تھے۔ 2015ء سے 2018ء کے درمیان بتایا جاتا ہے کہ 20 ملین افراد روزگار سے محروم ہوئے تھے۔ اسی طرح 100 ملین صنعتی ملازمتیں گھٹ کر 70 ملین ہوگئی تھیں۔ کورونا وائرس نے عالمی معیشت کو بھی شدید متاثر کیا ‘چونکہ یہ وائرس چین سے پھیلا تھا ‘ اس لیے دنیا کے مختلف ممالک نے چین کے خلاف عظیم دیوار تعمیر کرنی شروع کردی‘ یعنی اس سے دوری اختیار کرنی شروع کی۔ ایسے میں صنعتی ملازمتوں سے محرومی یقینی ہے۔ ایک خطرناک ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستانی ریاستوں کے بعض چیف منسٹر زنے ایسا لگتا ہے کہ یہ سوچ لیا کہ وہی اکثر لیبر قوانین کو معطل کرتے ہوئے ان ملازمتوں کے لیے راغب کرسکتے ہیں یا تارکین وطن کے ساتھ محروسین کی طرح سلوک کرتے ہوئے‘ وہ کووڈ۔ 19 کے بہانے ایک نئی افراتفری کو دعوت دے رہے ہیں۔ مستقبل میں کئی ایک سوالات پیدا ہوں گے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا لوگ زیادہ سے زیادہ اسی طرح کاریں خریدیں گے‘ جیسے کہ پہلے خریدا کرتے تھے‘ کیونکہ حالیہ عرصہ کے دوران یہی دیکھا گیا ہے کہ دفاتر جاکر کام کرنے والے اپنے گھروں سے کام کررہے ہیں۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کمرشیل بلڈنگز میں موجودہ دفتر کی جگہ کتنی فاضل ہو جائے گی اور ایسا ہونا تعمیراتی صنعت کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟ آپ کو بتادوں کہ کار ساز کمپنیاں‘ تجارتی ادارے اور تعمیراتی صنعت ہندوستان میں روزگار یا ملازمتوں کے تین بڑے ذرائع ہیں۔ کسی بھی صورت میں نقل مکانی کرنے والے مزدور ان علاقوں میں زندگی گزارنے کے لیے واپس ہونے کے لیے تیار ہوں گے اور یہ مزدور زندگی اور موت‘ یعنی کووڈ۔ 19 کا ایک اور جوکھم مول لینے کے لیے بھی تیار رہیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان مزدوروں کو واپس لانے کے لیے آجرین انہیں پرکشش تنخواہوں یا اجرت دینے پر مجبور ہوں گے؟ یہ وہ چیز نہیں ہے ‘جو چیف منسٹرز انہیں کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ کسی بھی صورت میں لاکھوں مزدور جو روزگار کو اب صرف یادوں کا ایک حصہ سمجھتے ہیں‘ خود کو افرادی قوت سے دستبردار کرواچکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادیات پر مبنی پیداوار متاثر ہوگی ‘کیونکہ بڑھتی آبادی میں ایک چھوٹی افرادی قوت کام کرے گی۔
موجودہ بحران میں سیاسی رہنمائوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اقتدار پر فائز جن سیاستدانوں نے کورونا وائرس بحران کے آغاز کے دوران مقبولیت حاصل کی تھی‘ اب انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ اس وبا کے بڑھنے کے ساتھ ان کی مقبولیت گرتی جارہی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جو ہمیشہ اپنی مقبولیت کے فیصد کو بڑھانے کی فکر میں رہتے ہیں ‘فی الوقت امریکی صدارتی انتخابات کے سلسلہ میں منعقدہ سروے میں اپنے حریف جوبیڈن سے پیچھے چل رہے ہیں۔ دوسری طرف روسی صدر ولادمیر پوٹن کی مقبولیت بھی بری طرح گھٹ گئی ہے۔ 20 سال سے وہ روس میں اقتدار پر ہیں‘ لیکن اب جو ان کی مقبولیت میں گراوٹ آئی ہے‘ وہ 20 سال میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ چینی صدر ڑی جن پنگ کو بھی زبردست دھچکا لگا ہے۔ کورونا وائرس کے باعث ملک و بیرون ملک ‘یعنی قومی و عالمی سطح پر ڑی جن پنگ تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ برازل کے جیئربولسونارو‘ جنہوں نے ابتداء میں امریکی صدر ٹرمپ کی طرح کورونا وائرس کی وبا کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے۔ اب‘ اپنے کاروبار میں کافی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ہمدردوں کی تعداد بھی خطرناک حد تک گھٹ کر رہ گئی ہے۔ صرف کٹر حامیوں کی تعداد انہیں گھیرے ہوئے ہیں۔ اب چلتے ہیں برطانیجہاں بورس جانسن عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں‘ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد صحت یاب ہوئے ہیں۔ فی الوقت برطانیہ میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر مرنے والوں کی کثیر تعداد کے باعث شدید نکتہ چینی کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تمام کے تمام مقبولیت حاصل کرنے کی بے پناہ صلاحیتیں رکھتے ہیں اور کورونا وائرس بحران کے باوجود اپنی بقائ کو یقینی بنائیں گے۔ کورونا وائرس بحران میں خوش قسمتی سے کچھ ہیروز منظر عام پر ا?ئے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم کیرالا کی وزیرصحت کے کے شیلیجا‘ امریکہ کے سانفرانسسکو کی میئر اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسنڈا ا?رڈن کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔ یہ تمام خواتین ہونے کے باوجود کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے بڑی تیزی سے حرکت میں ا?ئیں اور فیصلہ کن انداز میں کارروائی کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔