... loading ...
ذرا ہم چونکتے ہیں، مگر زیادہ نہیں۔ دنیا کی نئی شکل وصورت کے ممکنہ آثار میں ہم واضح طور پر کاغذی کرنسی کا مستقبل دیکھ سکتے ہیں۔ پھر بھی ذرا سے چونکنے کی بات ہے، جب 18.7 ارب ڈالرز کے ساتھ دنیا کے اناسی ویں امیر ترین شخص اور دنیا کی سب سے بڑی ہیج فنڈ کمپنی بریج واٹر کے روح رواں ”رے ڈیلیو“(Ray Dalio) کہتے ہیں: کیش دراصل ٹریش ہے“۔چند سری حکومت کے ایک ممکنہ عالمی نقشے میں رے ڈیلیو بھی جارج سوروس(دنیا بھر کی اسٹاک ایکسچینج کو اُتھل پتھل کرنے والا) کے ساتھ ایک سرے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔پھر سوچنا تو چاہئے کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟کاغذی کرنسی کا مستقبل کیا ہے؟
رواں برس کے اوائل میں جب کورونا وائرس انسانوں کے پاؤں میں زنجیر پہنا کر خود بستی بستی گلیوں گلیوں رقص کرنے نکلا تو ہمیں رے ڈبلیو ایسے خوف کے سودا گروں نے باور کرایا کہ کووڈ۔ 19 کے باعث لوگ نقد لین دین سے خائف ہیں۔ کاغذی کرنسی کے خلاف اس نوع کی بڑھک بازیاں بلاوجہ نہیں۔ دنیا کی منتخب اشرافیہ یہ چاہتی ہے کہ نقد میں رقم کا لین دین (کاغذی کرنسی اس کے لیے سب سے اہم ذریعہ ہے)روک دیا جائے، کیونکہ یہ وہ طریقہ ہے جس کا سراغ لگانا (ٹریک) قدرے مشکل ہے۔یورپی یونین نے لمبے چوڑے بلوں سے دوری اختیار کرنے کی جب کوشش کی تو سوئیڈن نے بے کاغذ لین دین کی اس سوسائٹی سے چھیڑ چھاڑ بھی کرکے دیکھی ہے۔ امریکا بھی اسی راستے پر ہے۔ بھارت نے 9/ نومبر 2016 کو ایک اہم اقدام کے طورپر ایک ہزار اور پانچ سو روپے کے نوٹوں کو معاشی چلن سے نکال پھینکا۔ اس مہم پر بد عنوانیوں کے خاتمے کی مہر لگائی جاتی ہے۔ شربت کو زیادہ میٹھا کرنا ہو تو منی لانڈرنگ پر قابو پانے کی چینی بھی گھول دی جاتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ ایسا ہی ہے؟
درحقیقت عالمی اشرافیہ کے جانے پہچانے کھلاڑی کاغذی کرنسی کے خاتمے کے ذریعے دنیا بھر کے مالیاتی لین دین کے ڈیٹا بیس کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔مکمل اقتدار دولت پر مکمل کنٹرول کے بغیر ممکن نہیں۔ کاغذی کرنسی غیر ریاستی اور ناقابل گرفت دولت کے مراکز پیدا کرنے میں معاون ہے۔ یہ مظہر تب زیادہ سنگین محسوس ہوتا ہے جب حکومتیں دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتی ہیں، تب وہ فطری طور پر ٹیکس میں اضافے کے راستے ڈھونڈتی ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے پروفائل بنائے جاتے ہیں جو ان کے مسلسل وجود کے لیے کسی طرح خطرناک سمجھے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقت کے مراکز کیش کو ٹریش میں ڈالتے ہوئے قومی کرنسیوں کو ڈیجیٹل ایڈیشن میں دھکیلنے کے جتن کر رہے ہیں۔یہ طاقت پر مزید قبضے کو یقینی بنانے کے ساتھ سخت ترین نگرانی کا مستبد اور مستند ذریعہ ہے۔عالمی مالیاتی نظام ٹوٹ چکا ہے۔ اِسے بچانے کے لیے ایک عالمی مربوط بیل آؤٹ منصوبے کی ضرورت ہے۔ اس بحران میں آسان طریقہ ہے کہ کی بورڈ پر ڈیجیٹل کرنسی پیدا کی جائے۔ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران میں اس کی ضرورت محسوس کی گئی تھی کہ تمام بڑے مرکزی بینکوں کو عالمی مالیاتی فنڈ کی حمایت سے منسلک کرکے بقا کا سامان کیا جائے۔
شنگھائی گولڈ ایکسچینج کے سربراہ وانگ زینینگ(Wang Zhenyin)کا حالیہ بیان دھیان میں رہنا چاہئے، جس میں وہ اس پر زور دیتے ہیں کہ ایک بین الاقوامی ڈیجیٹل کرنسی کو امریکی ڈالر کے بجائے دنیا بھر کے تمام تجارتی تصفیوں کے لیے معیار مان لینا چاہئے۔وہ صاف صاف کہتے ہیں کہ ڈالر امریکی دباؤ کا ایک ہتھیار ہے، دیگر ممالک کو اس کے ذریعے ہمیشہ نقصان کا خطرہ رہتاہے، لہذا یہ عالمی معیاری کرنسی کے طور پر مزید آگے نہیں چل سکتا۔ وہ مانتے ہیں کہ سونا بھی ایک مثالی متبادل کی جگہ اس لیے نہیں لے سکتا کیونکہ اس کی مقدار بہت محدود ہے جو بڑھتی ہوئی عالمی تجارتی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا۔ لہذا آزاد تجارتی تصفیوں کے لیے بین الریاستی کرنسی ہر ملک کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی نیا اور اچھوتا خیال نہیں۔ خود چین نے 2008 کے مالیاتی بحران میں اس تصور کو فروغ دیا تھا۔ تب چین کے مرکزی بینک کے چیف چاؤ ژاؤچوان(Zhou Xiaochuan) نے عالمی مالیاتی تصفیوں کے نظام میں درستی کے لیے ایک اسپیشل ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آر) کی تجویز پیش کی تھی۔ آپ کو بے شمار کتابیں مل جاتی ہیں جو کرنسی کی جنگ اور دولت کی موت کے موضوع کو زیر بحث لاتی ہیں۔ اس میں ایک خطرناک نکتہ یہ ملتا ہے کہ آئی ایم ایف خود عالمی مرکزی بینک کی حیثیت سے کردار ادا کرنا کا خواہاں ہے کیونکہ یہ باور کیا جاتا ہے کہ آنے والے مالیاتی بحرانوں کا مقابلہ ریاستوں کے مرکزی بینکوں سے نہیں ہوسکے گا۔
اس پوری بحث کا جائزہ لیں تو ایک بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ کاغذی کرنسی کا خاتمہ ہر بڑا ملک اپنے اپنے مقاصد کے تحت چاہتا ہے۔ مگر اس کے متبادل کے طور پر حل سب کے الگ الگ ہیں۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ چین کیا چاہتا ہے؟گولڈ ایکسچینج کے سربراہ وانگ زینینگ ڈالر کے جس متبادل کی بات کررہے ہیں، وہ آئی ایم ایف کے اسپیشل ڈرائنگ رائٹس(ایس ڈی آر) سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی سونے کے متبادل سے۔ ایسے میں سوال جائز ہے کہ آگے پھر کیا ہوگا؟یہاں ہم ہر ملک کی اپنی اپنی بانسری اور اپنا اپنا راگ دیکھتے ہیں۔
چین جیسے ممالک اپنی کاغذی کرنسیوں کے ڈیجیٹل ایڈیشن پر کام کررہے ہیں۔ روس کرنسی کی ڈیجیٹل دنیاپر کام کررہا ہے۔یہاں تک کہ وہ روبل کے ایک کرپٹوکرنسی نقل کی جانب بھی راغب ہے۔ یورپی یونین کی شدید خواہش ہے کہ رکن ممالک اپنے نفع ونقصان کی باہم شراکت کے ساتھ ایک مالیاتی انضمام پر اتفاق کرلیں، تاکہ یورو کا صرف ڈیجیٹل ایڈیشن رائج کیا جائے اور کاغذی یورو سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لی جائے۔جرمنی میں سونے کی ملکیت کو انتہائی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ایک اونس سے بھی کم سونے کی فروخت کی نگرانی کی جاتی ہے۔
مالیاتی رازداری اب قصہ پارینہ لگ رہی ہے۔ ایک نام نہاد ”فرسٹ ورلڈ“ کی باتیں ہورہی ہیں جس میں کرپٹو کرنسی کو بھی دو نعروں کے ساتھ مالی انفرااسٹرکچر کا حصہ سمجھا جائے گا۔ یہ نعرے اے ایم ایل یعنی”اینٹی منی لانڈرنگ“ اور کے وائی سی (Know Your Customer) یعنی اپنے گاہک کو پہچانئے، پر مشتمل ہیں۔ نقد رقم کے خاتمے کے لیے دباؤ اب ایک حقیقت ہے۔یہ خطرناک رجحان حکومتوں کے تمام محصولات اور مختلف فیسوں کو جائز قرار دینے میں معاون ہوگا، اور آپ سے کسی فیصلے کو لینے سے پہلے ہی خودکار نظام کے تحت عمل درآمد کو یقینی بنا لے گا۔اگر آپ کسی بھی قسم کی پرائیوسی پر یقین رکھتے ہیں تو اس نظام کے تحت آپ یا تو منی لانڈرر ہیں یا پھر دھوکے باز۔ اس سے زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ امریکا جو پہلے بھی ڈالر کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے، زیادہ خطرناک طور پر دنیا کے معاشی اور معاشرتی نظام کو اپنے گرفت میں لینے کے قابل ہو جائے گا۔
ظلم وجبر سے بندھے یک قطبی نظام کے بجائے ہم ایک کثیرقطبی دنیا میں جیناچاہتے ہیں۔مگر قومی ریاستیں ایک ایسے مالیاتی جبرسے ہم آغوش ہو چکی ہیں جس میں کمانے کھپانے کے علاوہ کرنے کو کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔ آدمی تو آدمی ریاستیں بھی اس میں تباہ ہورہی ہیں۔ پاکستان اُن ریاستوں میں سے ایک ہے جو عالمی مالیاتی جبر سے باہر نکلنے کی سکت تک پیدا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اب اُس کے پاس سوچنے اور کچھ نیا کردکھانے کا حوصلہ تو دور امنگ بھی دکھائی نہیں دیتی۔ہم بھیڑ چال کا حصہ ہے جس میں عالمی طاقتیں ہماری سمت اور منزل کا فیصلہ کرتی ہے۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ اس نئے مالیاتی نظام میں تقریبا ایک صدی تک دنیاکے مالیاتی منظرنامے کو کنٹرول کرنے والے امریکا کا کردار کچھ مختلف ہوگا، تو یہ خام خیالی ہے۔ اگر کوئی اس میں یہ امکان ڈھونڈتا ہے کہ امریکا کے متبادل کے طور پر اس ذریعے سے کوئی اور قوت اُبھر آئے گی، جس سے امریکا سے مختلف رویے کی توقع جائز ہوگی، تو یہ بھی ایک نادانی ہے۔طاقت اور جبر چہرہ بدل بھی لے تو کردار کبھی نہیں بدلتا۔ایسی صورت میں ہمارے پاس انتخاب یہ رہ جاتا ہے کہ یا تو امریکا کے بے راہ رو بینکاری کے ظلم وستم کو آئی ایم ایف کے ذریعے سہتے رہیں یا پھر عالمی سطح پر ایک دوسرا مگر اتنا ہی بُرا نظام گلے سے لگائیں۔
ہوسکتا ہے کہ دنیا کو واقعتا کسی نئے نظام مالیات کی ضرورت ہو، ایک نئی کرنسی اور اس کے عالمی متبادل کا احساس لازمی ہوگیا ہو۔ مگر ہمیں قدیم قدر پر مبنی ایک حقیقی اور ٹھوس کرنسی کی ضرورت ہے، جو ہوائی نہ ہو، جس کا حساب صرف ہندسوں میں نہ ہوتا ہو،اور جس پر کسی بینک میں بیٹھے اُلوکے پٹھے کا اکیلا کنٹرول نہ ہو۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ڈالر کا ریزور معیار مرنے کے مرحلے میں ہے۔ دنیا کے مالیاتی نظام کی ساکھ کا ڈھانچہ بلبلے کی طرح پھٹ رہا ہے۔ایک متبادل کی تلاش کے لیے دنیا کھلی ہے۔ مگر جب ایک بار شکار کا کھیل شروع ہوجائے تو شیر کا حصہ کون روک سکتا ہے؟ امریکا ایک ایسا ہی شیر ہے۔ چین شیر کی آوازیں نکال رہا ہے، مگر امریکا کی آہنی گرفت میں موجود آئی ایم ایف کے ہوتے ہوئے ایک نئے ”آقا“کی خواہش بھی جھوٹی خواہش ثابت ہوسکتی ہے۔ کیا ہم سوچ رہے ہیں کہ کاغذی کرنسی کے خاتمے کی دنیا میں جاری کشمکش وطنِ عزیز میں کیا گُل کھلا سکتی ہے؟ یا ہمارے لیے عید پر نئے نوٹوں کو چھاپنے اور نہ چھاپنے جیسے مسئلے ہی زیر بحث رہیں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔