وجود

... loading ...

وجود

عالمگیر لاک ڈاؤن کا خواب بھی ٹوٹ گیا؟

پیر 18 مئی 2020 عالمگیر لاک ڈاؤن کا خواب بھی ٹوٹ گیا؟

کیا کورونا وائرس کا دنیا سے خاتمہ ہوگیاہے؟یقینا ابھی تک اِس سوال کا جواب ایک بہت بڑی نفی میں ہی دیا جاسکتا ہے لیکن اِس کے باوجود دنیا کے کم وبیش سب ہی ممالک آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن کو ختم کرتے جارہے ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ کیا جانے والا عالمگیر لاک ڈاؤن عالمی ادارہ صحت کے حکم پر عمل میں آیا تھا اور اِس وقت بھی عالمی ادارہ صحت بالکل نہیں چاہتا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں سے لاک ڈاؤن کا خاتمہ ہو۔ مگر شاید دنیا کی معاشی صورت حال اِس حد تک ناگفتہ ہو چکی ہے کہ کوئی بھی سربراہِ مملکت عالمی ادارہ صحت کی لاک ڈاؤن ختم نہ کرنے کی اپیل پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔ حالانکہ کورونا وائرس بدستور دنیا کے ہرملک میں نہ صرف موجود ہے بلکہ آنے والے ایام میں پہلے سے بھی ہلاکت خیزہونے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتاہے۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جسے بار بار عالمی ادارہ صحت کی طرف سے لاک ڈاؤن جاری رکھنے کے حق میں بطورِ دلیل بیان کیا جارہاہے۔ یاد رہے کہ کورونا وائرس انسانی جان کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے،گزشتہ دو ماہ میں یہ دنیا کی ہر حکومت اچھی طرح سے جان چکی ہے۔اگر پھر بھی دنیا کا کوئی ملک مزید لاک ڈاؤن جاری رکھنے پر تیار نہیں ہے تو اُس کی صرف دو ہی بنیادی وجوہات ہوسکتی ہیں کہ یا تو اَب تک کورونا وائرس کے خلاف لاک ڈاؤن اُتنا موثر ثابت نہیں ہوسکا ہے جتنا کہ اِس کے متعلق بلند و بانگ دعوے کیے جارہے تھے؟یا پھر دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کورونا وائرس سے زیادہ نقصان کا باعث خود لاک ڈاؤن ثابت ہو رہا ہے۔ جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں وجوہات مل کر ہی ایک ایسی بڑی وجہ بن گئی ہے کہ جس کے باعث آخر کار دنیا کے ہر ملک کو اپنے ملک میں لاک ڈاؤن مزیدجاری رکھنے سے انکار کرنا پڑا۔
ابتدا میں جب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی ایڈوائزری جاری کی گئی تھی۔ اُس وقت بھی کئی سنجیدہ حلقوں کی طر ف سے یہ سوال اُٹھا دیا گیا تھا کہ کیا واقعی لاک ڈاؤن کورونا وائرس کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہوسکتاہے؟۔ بلاشبہ اکثریتی رائے تو عالمی ادارہ صحت کے موقف کی تائید ہی کرتی دکھائی دی اور اِسی وجہ سے ایک تہائی دنیا میں چند گھنٹوں کے نوٹس پر لاک ڈاؤن کا عملی نفاذ ممکن بھی ہوگیا۔ مگر ایک اقلیتی حلقہ ایسا بھی تھا جو بدستور بضد رہاکہ لاک ڈاؤن کورونا وائرس کے خلاف کارگر اور مفید ثابت نہیں ہوسکتا۔بہرحال یہ رائے جیسی بھی تھی اِسے قبولیت عام نہ حاصل ہوسکی اور اِس رائے کی حمایت میں بولنے والوں کی دنیا بھر میں خوب بھد اُڑائی گئی۔ لیکن دنیا کے چند ممالک جیسے سوئیڈن اور بیلاروس، ایسے بھی تھے جن کی حکومتوں نے عالمی ادارہ صحت کی ایڈوائزری پر عمل پیرا ہونے کے بجائے موخر الذکر اقلیتی تجویز پر عمل کرتے ہوئے اپنے اپنے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے مکمل طور پر انکار کردیا۔ ایسا نہیں تھا کہ اِن دونوں ممالک میں کورونا وائرس نے حملہ نہیں کیا تھا۔بس فرق اتنا تھا کہ اِن ممالک کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن سے اپنی معیشت کا پہیہ جام کرنے کے بجائے کورونا وائرس کے خلاف دیگر دستیاب طریقہ کار اور وسائل سے جنگ کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ صرف اِن دو ممالک کی وجہ سے کورونا وائرس اِس کریڈٹ سے محروم رہا کہ اُس نے اپنے خوف میں مبتلا کرکے پوری دنیا کو لاک ڈاؤن ہونے پر مجبور کردیا۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک لاک ڈاؤن نہ کرنے کے باوجود بھی کورونا وائرس سے کافی حد تک محفوظ و مامون رہے۔ خاص طور پر جس طرح سوئیڈن اور بیلاروس کے پڑوسی ممالک پر کورونا وائرس نے لاک ڈاؤن ہونے کے باوجود بھی جو آفت ڈھائی۔ اُس کا عشر عشیر جانی نقصان بھی کورونا وائرس اِن ممالک میں نہیں پہنچاسکا۔ جس کے بعد لاک ڈاؤن کرنے والے ممالک بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ آخر کار سخت ترین لاک ڈاؤن کرکے بھی وہ اُن ہزاروں اُموات سے اپنے معصوم شہریوں کیوں نہ بچا سکے،جن سے سوئیڈن اور بیلاروس جیسے ممالک باآسانی بچ نکلے ہیں۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ جن ممالک نے جتنا زیادہ سخت لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی کوشش کی، اُتنی زیادہ ہی وہاں کورونا وائرس کے باعث اُموات واقع ہوئیں جبکہ وہ ممالک جنہوں نے لاک ڈاؤن نہیں کیا یا پھر نام کا لاک ڈاؤن نافذ کیا وہاں کورونا وائرس کے موذی مرض کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے افراد کی شرح اموات ناقابلِ یقین حد تک کم رہی۔ اِن اعدادو شمار نے کورونا وائرس کے خلاف لاک ڈاؤن کی افادیت کی قلعی کھول کر رکھ دی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ تنگ آمد،بجنگ آمد کے مصداق امریکہ،جرمنی،فرانس و دیگر ممالک کی عوام بھی اپنے اپنے ملکوں میں لاک ڈاؤن کے خلاف باقاعدہ مظاہرے کرنے پر مجبور ہوگئے۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں دنیا پلان اے یعنی لاک ڈاؤن کی ناکامی کے بعد پلان بی اور سی مثلاً اسمارٹ لاک ڈاؤن یا ہینڈسم لاک ڈاؤن سمیت کسی دوسری مؤثر حکمت عملی کی تلاش میں ہے۔ کیونکہ کورونا وائرس نے ایک بات تو اچھی طرح سے حضرت انسان کو ذہن نشین کروادی ہے کہ اگر دشمن لڑنے کے لیے آپ کے دروازے پر دستک دینے آجائے تو اُس سے مقابلہ کرنے کے لیے سب کام دھندہ چھوڑ کر گھروں میں دُبک کر نہیں بیٹھا جاتابلکہ حوصلہ اور ہمت کے ساتھ دشمن کا سامنا کرکے اُس کے ساتھ پنجہ آزمائی کی جاتی ہے۔میرے خیال میں یہ ہی کچھ سوئیڈن اور بیلاروس جیسے ممالک نے کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے اپنا کاروبارِ زندگی یکسر معطل کرنے کے بجائے صرف طبی میدان میں کورونا وائرس کو شکست دینے کی منفرد حکمت عملی اپنائی۔نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ آج ساری دنیا کورونا وائرس سے نبرد آزما ہونے کے لیے اُسی حکمت عملی کی پیروی کرنے کی تیاری کررہی ہے جس کی بنیاد ابتداء میں سوئیڈن اور بیلاروس نے رکھ دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر