... loading ...
کیا ہم تاریخ کے چوراہے پر پڑے رہیں گے؟ بے سمت، بے منزل!
کیا یہی لوگ ہمارا مقدر ہیں؟جنہوں نے اپنے ذہن مغرب میں رہن رکھوا دیے، اور ہم سے جبراً اپنے ذہنوں کی اطاعت مانگتے ہیں؟ کوئی بلند خیال انہیں چھوتا نہیں۔یہ کبھی اپنے تعصبات اور ادنیٰ سیاسی مفادات سے بلند نہیں ہوتے۔لفظوں کے خراچ اور عمل کے قلاش۔ ایک ایسی مخلوق ہم پر حکومت کرتی چلی آتی ہے، جس کے پاس باتیں کرنے کے لیے الفاظ کم نہیں پڑتے اور عمل کے لیے ابتدائی قدم بھی اُنہیں سوجھتا نہیں۔ 427سال قبل ازمسیح میں سقراط نے کہا تھا:لیڈروں کی بڑھک بازیوں پر اعتبار کے بجائے اپنی عام سوجھ بوجھ (کامن سینس) کا استعمال کرو“۔
کورونا وبا کے ہنگام سب بے نقاب ہوگئے۔ عمران خان ابتدا میں درست راستے پر گامزن تھے، پھر ٹھوکر کھائی۔ مرکزی ذرائع ابلاغ کا دباؤ اور سندھ حکومت نے اُن کی ”کامن سینس“کو یر غمال بنالیا۔ سندھ حکومت ایک خاص ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہی جس میں پوری قومی ریاست ٹامک ٹوئیاں مارتی رہی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پا س ہمار ا اور ہماری اگلی نسلوں کا مستقبل ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ذاتی مفادات اور فارما مافیا کے ہتھکنڈوں میں زندگی کرنے والے ڈاکٹرز بھی اس کھیل کا حصہ بنے رہے۔ اس نے سائنس پر اعتماد کو متزلز ل کر دیا۔ سائنس بھی سیاست دانوں کی طرح بہروپ بھرتی ہے، بھیس بدل لیتی ہے، موقف بدلتی رہتی ہے، کورونا وبا کے حوالے سے بدلتے موقف دیکھیں تو لگتا ہے کہ سائنس یوٹرن لینے میں ہمارے سیاست دانوں سے کہیں آگے ہے۔ اس پر خاموشی قومی جرم لگتی ہے۔ آئن اسٹائن کتنی سچی بات کہہ گئے:
یہ ایک نیا دور ہے جس میں ہم ایسے قانون دانوں کے درمیان رہتے ہیں جو انصاف کو تباہ کرتے ہیں، ایسی جامعات میں پڑھتے ہیں جو علم کو تباہ اور معلومات کو مکروہ منصوبوں کے لیے استعمال کرتی ہیں،ایسی حکومتوں میں رہتے ہیں جو آزادی دشمن ہیں،ایسے ذرائع ابلاغ رکھتے ہیں جو اطلاعات کو توڑتے مڑورتے ہیں،ایسی مذہبیت میں گرفتار ہیں جو اخلاقی روشنی سے محروم ہوگئی،ایسے معاشی نظام میں رہتے ہیں جو استحصالی ہے اور ایسے ڈاکٹرز کے ہاتھوں میں ہیں جو صحت دشمن ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
ان مسیحاؤں کو یہ چاہیے تھا کہ وہ کورونا وبا کے حوالے سے اگر خود تحقیقات کے قابل نہیں، ان میں کوئی اچھے ماہرین وبائیات نہیں، کوئی اچھے ماہرین خُردِ حیاتیات نہیں، تو کم از کم یہ تو کرسکتے تھے کہ دنیا کے قابل اعتبار ماہرین وبائیات کی تحقیقات کا مطالعہ کرتے۔ اُن کی آراء کا جائزہ لیتے۔ اور ایک بہتر رائے بنانے کی قابل قدر جستجو دکھاتے۔ ہر وقت نسخے لکھنا اور جہاں تہاں سے پیسے پکڑنا کون سا کام ہے؟ اگر وہ خود کو کورونا وبا پر ماہرین کے مطالعے میں نہیں کھپانا چاہتے تھے، تو ایک کام تو وہ کر ہی سکتے تھے کہ خوامخواہ کی لن ترانیوں سے بچے رہتے۔ آخر بولنا ہی نہیں چپ رہنا بھی تو ایک کام ہے۔ افسوس ناک طور پر یہ کورونا وبا کے حوالے سے جو موقف بھی پیش کررہے ہیں وہ سب مغرب میں اب ردی کی ٹوکری میں ملتا ہے۔ کورونا وبا کے تمام ابتدائی ماڈلز، موت کے خطر ناک اعدادوشمار سب آزاد جائزوں میں جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ جسے کورونا کا مریض بتایا جارہا ہے، وہ کووڈ۔ 19 کا مریض ہی ہو۔ ا س حوالے سے کورونا کے مریض کو جانچنے والی آزمائشی کٹس پر سوالات اُٹھ چکے ہیں۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ جس مرنے والوں کی وجہ موت کووڈ۔19 لکھی گئی، وہ درست بھی ہو۔ اس معاملے میں بہت سے جائزے چھپ چکے ہیں۔ اس خاکسار نے بھی اس حوالے سے بنیادی نوعیت کی تمام معلومات گزشتہ تحریروں میں سپردِ قلم کردی ہیں۔ ا ب موضوع لاک ڈاؤن کا ہے، جس کا سراغ ہی نہیں ملتا کہ یہ حل کس ذہن ِ رسا کی پیداوار ہے، اور اس حل کے آئن اسٹائن کو دنیا کس طرح یاد رکھے گی؟
ترقی یافتہ ممالک میں ایک دوسرا ماڈل بھی موجود تھا، جو لاک ڈاؤن کے بغیر تھا۔ اس ماڈل کی نمائندہ ریاستیں سوئیڈن، آئس لینڈ، بیلا روس، جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان تھیں۔ جنہوں نے لاک ڈاؤن کے بغیر کورونا وبا کاسامناکیا اورسرخرو رہیں۔ ا س ماڈل کی تائید ماہرِوبائیات اور نوبل انعام یافتہ پروفیسر مائیکل لیوٹ کرچکے ہیں۔ یہاں بحث کو اگلے مرحلے میں لے جاتے ہیں جو اس سے بڑھ کر ہے کہ لاک ڈاؤن کی پالیسی فائدے کے بجائے اُلٹی نقصان دہ ہے۔ یہ امراضِ نسواں کے کسی ڈاکٹر کی نہیں بلکہ مستند ماہرین ِ وبائیات کی آراء ہیں جو دنیائے طب میں بہت مان دان رکھتے ہیں۔ ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر نٹ وٹکووسکی (Dr Knut Wittkowski) بھی اُن میں سے ایک ہیں۔ جنہوں نے لاک ڈاؤن کے خلاف لب کشائی کی تو امریکا کے مرکزی ذرائع ابلاغ کا دھارا (ایم ایس ایم) اُن کے خلاف بہنے لگا۔ مگر اُنہوں نے اعدادوشمار کی غلطیوں اور طبی بنیادوں سے یہ ثابت کیا کہ لاک ڈاؤن کی پالیسی انتہائی مضرت رساں ہے۔ ڈاکٹر نٹ وٹکو وسکی پندرہ سال تک جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں دنیا کے جانے مانے ماہرِ وبائیات ڈاکٹر کلاس ڈائیٹز کے ساتھ رہے۔ بعد ازاں وہ نیویارک میں راک فیلر یونیورسٹی کے شعبہ وبائیات وحیاتیات کے سربراہ کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ ڈاکٹر نٹ وٹکو وسکی نے امریکا کی پوری لاک ڈاؤن پالیسی کو سائنس کی نوک پر لے لیا۔ اُنہوں نے اعدادوشمار سے ثابت کیا کہ وائرس کا رویہ عروج، پھر نیچے اور بتدریج ختم ہونے کا ہوتا ہے۔ اس سے وابستہ اموات کے اعدادوشمار درست پیرایے میں بیان نہیں کیے گئے۔وائرس اپنے معمول میں یہی کرتا جو اس نے کیا۔ اسے کسی لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ وائرس اپنے شکار لوگوں میں سے صرف ایک یا دو فیصد لوگوں کی زندگیوں کو نشانا بناتا ہے۔ یہ کسی بھی مرض میں مرنے والوں کی سب سے کم شرح اموات ہیں۔ اس لیے ا س میں کچھ بھی ایسا نیا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
ڈاکٹر نٹ وٹکو وسکی نے واضح کیا کہ ”ہمارے پاس ایک خاص وائرس ہے جو آبادی میں رہتا ہے، جیسے کہ سانس کی بیماری کے تمام وائرس دو ہفتوں کے لیے ہوتے ہیں اور پھر ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ اس سے مختلف نہیں، پھر ہم اپنے سلوک کو کیوں تبدیل کریں؟ سمجھ نہیں آتا“؟
ڈاکٹر نٹ وٹکو وسکی کے پاس ہر چیز بہت واضح ہے، وہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ ہر سانس کی بیماری کا وائرس سیدھے طریقے سے پھیلتا ہے، اس سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ اور پھر جسم اپنے مدافعتی نظام کے تحت اس میں اپنے لیے ایک ڈھال پیدا کرلیتے ہیں۔ چند ہفتوں میں کورونا وبا سے ہمارے جسم بھی مدافعت پیدا کرلیتے۔ اُنہوں نے مثال دی کہ نیویارک میں ہونے والے ایک مطالعے سے واضح ہوا کہ وہاں اکیس فیصد لوگ ایسے تھے جو کسی اسپتال میں نہیں گئے، اُنہیں یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ اُن کے جسم کورونا وائرس سے مدافعت پیدا کرچکے۔ یہ سب معمول کے مطابق ہوا۔
ایک اور تحقیقی مطالعے کے ساتھ کیلی فورنیا کے ڈاکٹر ڈینیئل ڈبلیو، ایرکسن اور ڈاکٹر آرٹن مسیح سامنے آئے۔ اُنہوں نے اب تک کے کورونا وائرس کے کیسز کے مطالعے سے یہ ثابت کیا کہ لاک ڈاؤن کورونا وائرس کو مضبوط اور انسان کے مدافعتی نظام کو تباہ کررہا ہے۔ اُنہوں نے ثابت کیا کہ کورونا وائرس لگنے سے انسان زیادہ بڑی تعداد میں محفوظ ہوں گے،ا س سے بچ کر نہیں۔ اُنہوں نے کیلی فورنیا کے دستیاب تمام اعدادوشمار سے ثابت کیا کہ اگر کیلی فورنیا کو کورونا وائرس سے پہلے کی حالت میں بغیر کسی بھی پابندی کے کھول دیا جاتا ہے تو چھیانوے فیصد لوگ کورونا وبا کے شکار ہو کربھی بغیر کسی طبی سہولت کے معمول کے مطابق صحت یاب ہوجائیں گے، جیسے وہ کسی نزلہ اور زکام میں ہوتے ہیں۔ یہ پورا مطالعہ انتہائی قابل قدر ہے۔ جسے کسی بھی پالیسی کی تشکیل کے لیے بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔ افسوس ناک طور پر ہمارے حصے میں ماہرین امراض نسواں اور مراد علی شاہ آئے ہیں۔
پاکستان میں تو یہ معاملہ بالکل مختلف تھا اور بہت بہتر حالت میں ہے۔ خود وائرسوں کے ماما، مائیکرو سوفٹ کے شریک بانی بل گیٹس بھی ایشیا کے مدافعتی نظام پر ان الفاظ کے ساتھ حیرت ظاہر کرچکے ہیں کہ یہاں وائرس اس طرح اثر انداز نہیں ہوسکاتھا، جس طرح یہ مغرب کے سرد ممالک میں ہوا تھا۔ یہاں بہترین حکمت عملی یہی تھی کہ اسکول اور کاروبار کھلے رکھے جاتے، جبکہ بوڑھوں کو انتہائی احترام اور خبر گیری کی روایت کے ساتھ الگ تھلگ کردیا جاتا۔ یوں زندگی کا پہیہ چلتا رہتا۔ ہمارا مدافعتی نظام بغیر کسی تگ ودو کے وائرس سے اپنا تحفظ بھی پیدا کرلیتا۔ ہمارے صحت کے نظام پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا، اگر ہم اپنے وسائل کا ایمان دارنہ استعمال کرتے۔اس کے لیے ضروری تھا کہ ہم خود سے بھی ذرا ایماندار ہوجاتے۔ مگر یہ کام گورکن نہیں کرسکتے، جو دوسرے کی موت کو اپنی روزی روٹی سمجھتے ہیں۔ اس دفعہ یہ گورکن صرف سیاست دان نہیں، ہمارے یہ بھولے بھالے مسیحا بھی تھے۔ بے سمت، بے منزل!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔