وجود

... loading ...

وجود

ہر مسیحا کو جنوں جشن ِ مسیحائی کا

پیر 11 مئی 2020 ہر مسیحا کو جنوں جشن ِ مسیحائی کا

بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!!! سندھ پر ایسے حکمران مسلط ہیں، جنہیں کچھ سمجھایا ہی نہیں جاسکتا! مگر یہ ڈاکٹرز، یہ ہمارے چارہ گر!!!کچھ خدا کا خوف کریں!!فیض احمد فیض پر جانے کیا بیتی ہوگی، کہا:

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا

ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے

سندھ حکومت جب دباؤ میں ہوتی ہے تو اچانک کچھ ڈاکٹرز میدان میں کودتے ہیں،اور لاک ڈاؤن میں نرمی کو خطر ناک باور کراتے ہیں۔ اُن کا بیانیہ طے شدہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے وہ کورونا کے مریضوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں۔ پھر اسپتالوں میں سہولیات کے فقدان کا رونا روتے ہیں۔ اس دوران اپنے خلوص کایقین دلاتے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے سماج نے اعلیٰ ذہن پیدا کرنے بندکردیے۔ طب کا کھیت بھی ویران پڑا ہے۔ کہنے کو تو مسیحاؤں کا ایک ہجوم ہے۔ مگر کسی نئے خیال کا کوئی بیج نہیں۔نری نقالی ہے۔ تابع مہمل ذہن اور پھر وہی مادہ پرست سماج کی نفسیات میں لتھڑی طبیعتیں!طب کا میدان دولت کی یافت میں جرائم کی سرحدوں کو چھوتا ہے۔ مگر یہاں کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ گزشتہ روز کا ماجرا بھی مختلف نہیں جب کچھ ڈاکٹرز نے ذرائع ابلاغ کے مرکزی دھارے میں وہی گھسا پٹا موقف دُہرایا، جو دنیا بھر میں اب پٹا پٹایا بیانیہ ہے۔ پہلے دیکھ لیتے ہیں کہ ڈاکٹرز کیا کہہ رہے ہیں؟
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے دیگر تنظیموں کے ڈاکٹرز کے ہمراہ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دنیا بھر کے پامال موقف کا اعادہ کرتے ہوئے لاک ڈاؤن میں نرمی کی مخالفت کی۔ ڈاکٹرز بھی سیاست دانوں کی طرح لمبی باتوں کے عادی ہوگئے ہیں۔ لہٰذا اس کے غیر ضروری حصوں کو نظرانداز کرتے ہوئے محض ڈاکٹرز کے معروف موقف کو کچھ نکات کے تحت زیر بحث لاتے ہیں۔
٭لاک ڈاؤن میں نرمی سے بیماری اور وبا پھیلنے کے دروازے کھل جائیں گے۔
٭ ان دنوں کوئی شخص بھی بھوک کے باعث نہیں مرا۔ اگر کوئی مرا ہے تو کسی بیماری یا وہ کورونا وائرس کا شکار تھا۔
٭ عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائن ہے کہ جب گراف نیچے آنے لگے تو لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی کی جائے۔
٭ہمیں تشویش ہے کہ حکومت احتیاطی تدابیر کی ذمہ داری عوام پر ڈال رہی ہے۔
٭جب کیسز میں اضافہ ہوگا تو ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے جگہ بھی بنانی ہوگی اس وقت کراچی میں صرف 63 وینٹی لیٹرز ہیں، جو تشویش کی بات ہے۔
آئیے اس موقف کو اب دنیاکے جانے مانے ڈاکٹرز کے”آپریشن ٹھیٹر“ میں لے جاتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے موقف کا مرکزی نکتہ لاک ڈاؤن میں نرمی کی مخالفت بلکہ شدید مخالفت ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن سیاسی حل کے طور پر مسلط کیا گیاہے، یہ کوئی طبی حل نہیں۔ جبکہ ڈاکٹرز سے ہم طبی حل پیش کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ پھراس حل کو دنیا کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹرز مسترد کرچکے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ پروفیسر مائیکل لیوٹ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی اسکول آف میڈیسن سے وابستہ ہیں۔اُنہیں ڈیلینو ایوارڈ برائے کمپیوٹیشنل بائیوسائنس بھی مل چکا ہے۔ طبی دنیا میں انتہائی احترام رکھنے والے پروفیسر لیوٹ لاک ڈاؤن کو ایک قابل احتساب فاش غلطی قرار دیتے ہیں۔ اُنہوں نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کہاکہ

”میرے ذہن میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم اس پر نظر ڈالیں گے تو لاک ڈاؤن کے ذریعہ ہونے والا نقصان
جانوں کے تحفظ سے زیادہ بڑا ثابت ہوگا“۔

واضح رہے کہ پروفیسر لیوٹ یہ بات کہہ رہے تھے، تو اُن کے ذہن میں امریکا، برطانیا اور اٹلی کے ماڈل تھے، جس میں کورونا وبا کے مبالغہ آمیز اعدادوشمار تھے، جبکہ شرح اموات بھی زیادہ تھیں، اس کے مقابلے میں پاکستان میں کورونا کے متاثرین اور اُن متاثرین میں پائے جانے والی شرح اموات نہ ہونے کے برابر ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان اُس بھیڑ چال کا حصہ بنا جو امریکا اور برطانیا نے اختیار کی۔ درحقیقت چین نے بھی یہ پالیسی زیادہ تر ہوبائے کے شہر ووہان میں زیادہ سختی سے لاگو کی۔ باقی چین میں اپنی سرگرمیوں کو مستعدی سے جاری رکھا۔ پھر لاک ڈاؤن کو بروقت ختم کرنے میں ذرا بھی تساہل سے کام نہیں لیا۔ اس کے برعکس امریکا اور برطانیا میں لاک ڈاؤن کی پالیسی میں خاص طرح کا ایک جبر اور طے شدہ ایجنڈے کے نفاذ کی جانب واضح پیش قدمی تھی۔ چنانچہ وہاں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے اسباب کو اُس تناظر میں سمجھا، پرکھااور جانچا جارہا ہے۔ پروفیسر لیوٹ نے اپنے انٹرویو میں واضح طور پر سوئیڈن کی مثال دی جس نے لاک ڈاؤن نہ کرکے کورونا وبا پر فتح پائی۔ مرکزی ذرائع ابلاغ کے دھارے(ایم ایس ایم) پر ساری مثالیں فرانس، اٹلی، امریکا اور برطانیا سے متعلق اُبھاری، اُچھالی اور دکھائی جارہی ہیں۔ مگر وہاں سوئیڈن، آئس لینڈ،بیلا روس، جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان کا ذکر نہیں ملے گا، جن ممالک نے لاک ڈاؤن سے بچتے ہوئے کورونا وبا کا مقابلہ کیا۔ لاک ڈاؤن کے باوجود امریکا اور برطانیا نے کورونا وبا کے نام پر اندراج ہونے والی نام نہاد اموات کی جدول میں سب سے زیادہ ہندسے چھوئے، اس کے برعکس لاک ڈاؤن سے گریزپا سوئیڈن کے ہاں کورونا وبا کی اموات انتہائی کم ترین رہیں۔ جن ممالک کے پاس ایک ایجنڈا تھا، وہ تو لاک ڈاؤن کے کھیل میں شریک ہو کر اپنے مخصوص اہداف حاصل کررہے تھے، سوال یہ ہے کہ پاکستان اس بیگانے کی شادی میں عبداللہ بن کر کیوں دیوانہ ہوا جارہا ہے؟سوئیڈن اس کھیل میں شریک نہیں تھا تواُس نے لاک ڈاؤن کی پالیسی میں کوئی دیوانگی بھی نہیں دکھائی۔
کورونا وبا کی بحث میں ظفریاب سوئیڈن نے نہ تو اپنے ملک کو لاک ڈاؤن کی راہ دکھائی، نہ ہی بڑے پیمانے پر مریضوں کو کورنٹائن کیا، یہاں تک کہ اپنی سرحدوں کوبھی بند نہیں کیا۔ پرائمری اور سیکنڈری اسکول کھلے رکھے، کالج اور جامعات کی بندش کے ساتھ طلباء کے آن لائن کورسز جاری کردیے۔ ریسٹورنٹ بھی کھلے رکھے اور دُکانوں پر فاصلوں کی بے تُکی ہدایات سے گریز کیا۔ مملکت خداداد پاکستان میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی تو مساجد میں جاکر نمازیوں کے درمیان فاصلوں کو ناپتے رہے۔اے خدایا!ہمارے مقدر میں بھی کیا مخلوق لکھ رکھی ہے۔یا حیرت! سوئیڈن میں دُکانوں میں خریداروں سے بھی اس کی پابندی نہیں کروائی گئی۔ سوئیڈن کے حکام صحت نے مناسب رہنمائی پر مبنی وقتاً فوقتاً ہدایات جاری کیں جو سماجی فاصلے اور”عام سمجھ بوجھ“ (کامن سینس)پر مبنی تھیں۔ پھر ان ہدایات کو بھی ملک کے ہر شہری اور زندگی کے تما م شعبوں میں بے چینی کے لیے نہیں پھیلایا، بلکہ اُن شعبوں تک محدود رکھا جو کورونا وبا کے مبینہ پھیلاؤ میں زیادہ متاثر ہو سکتے تھے۔ مثلاً حفظانِ صحت اورسفری شعبوں کے علاوہ عوامی اجتماعات پر ان ہدایات کو لاگو کیا۔ بوڑھوں کے کمزور مدافعتی نظام کے باعث اُن کے لیے مخصوص ہدایات پر عمل درآمد کو لازمی بنایا۔ یوں لاک ڈاؤن کے بغیر سوئیڈن کورونا وبا سے سرخرو نکلا۔پروفیسر لیوٹ نے برطانیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ابتدا میں لاک ڈاؤن سے گریز کی برطانوی پالیسی زیادہ بہتر تھی، مگر بعد ازاں برطانیا نے مرکزی ذرائع ابلاغ (ایم ایس ایم)اور سیاسی حزب اختلاف کے دباؤ میں خود شکن لاک ڈاؤن کی پالیسی کو اختیار کرلی۔ پروفیسر لیوٹ جیسے محقق کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ”عام سوجھ بوجھ“(کامن سینس) تک کا استعمال نہیں ہوا۔سوئیڈن نے اپنی پالیسی کی تشکیل میں ملک کے بہترین سائنسدان، ماہرین وبائیات(epidemiologist)اور ماہرین خُرد حیاتیات (microbiologist) کے ساتھ عام سوجھ بوجھ کا استعمال کیا۔ پاکستان میں اس پر بات کرنے والے نہ تو ماہرینِ وبائیات ہیں اور نہ ہی ماہرینِ خُرد حیاتیات ہیں۔ دانتوں، پھیپھڑوں اور امراضِ نسواں کے ماہرین بھی نہیں عام ڈاکٹرز اس پر بات کررہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر پر فارما مافیا سے مستفید ہونے کے الزامات ہیں۔ ان میں سے کچھ اتنے جری ہیں کہ دودھ کے ڈبوں کی اشتہاری مہم میں حصہ لیتے رہے۔ اور اصلی دودھ کو حفظانِ صحت کے خلاف ثابت کرنے میں جتے رہے۔ اب یہ کورونا وبا کے حوالے سے ہمیں لاک ڈاؤن کی فضیلتیں سمجھا رہے ہیں۔ پروفیسر لیوٹ کی رائے اور سوئیڈن کے ماڈل پر پر ہی ورق تمام ہوا۔ لاک ڈاؤن کی بحث صرف اتنی نہیں۔ مغربی ماہرین یہ بھی ثابت کر رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن پالیسی سے کورونا وبا سے نمٹنے میں فائدے کے بجائے اُلٹا نقصان ہورہا ہے۔ اس بحث کو آئندہ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔یہاں اپنے مسیحاؤں کا حال دیکھتے ہیں تو یہ شعر نہیں،آج کا ماجرا لگتا ہے

ہر مسیحا کو جنوں جشن مسیحائی کا
ہر نفس درد کی تشہیر ہے درماں کم ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر