... loading ...
ہم جانتے ہیں، بل گیٹس ڈاکٹر نہیں، اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈورس ازانوم بھی ڈاکٹر نہیں۔ بل گیٹس اس ادارے کے سب سے بڑے مالی معاون ہیں۔ پھر بھی ڈبلیو ایچ او نے پوری دنیا کی درست رہنمائی نہیں کی۔ کیوں؟ کیا یہ ایک طے شدہ کھیل کا منظر تھا۔آئیے کورونا وبا کے سب سے بڑے ردِ عمل کی بات کرتے ہوئے یہ نکتہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کورونا وبا کے حوالے سے سب سے بڑا ردِ عمل لاک ڈاؤن کی صورت میں ایک عالمگیر رجحان تھا۔ ابھی ہم کووڈ۔ 19 کی بہت بنیادی باتوں کوبھی نہیں جانتے۔ سائنس نے بے ایمانی سے جو ابتدائی دعوے کیے تھے، وہ سب جھوٹے نکلے۔ مگر ایک مستحکم رجحان کے طور پر لاک ڈاؤن کو ایک حل بنا کرپیش کیا گیا۔ یہ سب کیا تھا؟
درحقیقت لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے لیے مختلف جعلی دعوے گھڑے گئے۔ سب سے زیادہ امریکا اور برطانیا میں کووڈ۔19 سے لاکھوں اموات کی خانہ ساز اعدادوشمار کی پیش گوئیاں کی گئیں۔ دو مختلف تحقیقاتی رپورٹیں لاک ڈاؤن کے فیصلے تک پہنچنے میں بنیادی عامل رہیں۔ جس نے امریکا اور برطانیا میں ایک وسیع لاک ڈاؤن کی راہ ہموار کی اور پھر پوری دنیا اس کی پیروی میں جُت گئی۔ پہلی رپورٹ امپریل کالج کی کورونا وبا کی ریسرچ ٹیم کی جانب سے16/مارچ کو سامنے آئی۔اس رپورٹ میں یہ پیش بینی کی گئی کہ اگر فوری سخت ترین اقدامات نہ اُٹھائے گئے تو امریکا میں کورونا وبا سے پانچ لاکھ اموات ہو سکتی ہیں،جبکہ برطانیا میں ہلاکتوں کا ہندسہ 22لاکھ کو چھو سکتا ہے۔
دوسری رپورٹ انسٹی ٹیوٹ برائے ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن (آئی ایچ ایم ای) کی تھی جو واشنگٹن سے جاری ہوئی۔جس نے وائٹ ہاؤس کے ابتدائی اندازوں کی تصدیق کرتے ہوئے کورونا وبا کے خطرناک اثرات میں مسلسل اضافے کا خوف دلایا۔ اب اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ دونوں گروپوں میں گیٹس فاونڈیشن نے کافی رقم لگائی ہوئی ہے۔ صرف رواں برس ہی گیٹس فاونڈیشن نے امپریل کالج کو 79 ملین ڈالر کی رقم دی۔ جبکہ آئی ایچ ایم ای کے لیے صرف 2017ء میں 279 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا۔ تاکہ یہ گروہ اپنے کام کو وسعت دینے کے ساتھ ہیلتھ کے اعدادوشمار اور مختلف نمونوں (ماڈلز) کو تیار کرسکیں۔ آپ جان سکتے ہیں کہ خوف قائم کرنے کے ساتھ امریکا اور برطانیا کو لاک ڈاؤن کی جانب دھکیلنے کے لیے کس قدر منظم کام کیا گیا تھا۔ اس دوران میں کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے امریکی حکومت کا واحد چہرہ ڈاکٹر انتھونی فوکی دراصل بل گیٹس کا ایک مہرہ بن کر سامنے آیا۔ اس نے بل گیٹس کے پورے بیانئے کو اپنا لیا۔ ڈاکٹر فوکی نے کہا کہ اب امریکا اُس وقت تک معمول پر نہیں آسکتا جب تک عوام کے تحفظ کے لیے وائرس کے خلاف ویکسین سامنے نہیں آتی۔ بل گیٹس کے ساتھ ڈاکٹر فوکی کے ماضی کے مراسم وروابط کو ایک طرف رکھیں۔ڈاکٹر فوکی گیٹس فاونڈیشن کے مختلف منصوبوں (بشمول مالیاتی پراجیکٹ) کے ساتھ براہ راست منسلک رہا ہے۔ ٖڈاکٹر فوکی کو 2010 میں گیٹس فاونڈیشن کی لیڈر شپ کونسل میں مقرر کیا گیا تھا جس نے ”ویکسین کی دہائی“ کے منصوبے کو عالمی سطح پرعمل میں ڈھالنا تھا۔اس منصوبے کے لیے بل گیٹس نے دس بلین ڈالر کی خطیر رقم مختص کی تھی۔ حالیہ وبائی بیماری کے آغاز میں گزشتہ سال اکتوبر میں گیٹس فاؤنڈیشن نے دیگر پروگراموں میں امریکا کے قومی انسٹی ٹیوٹ برائے الرجی و متعدی امراض کے ایچ آئی وی سے متعلق تحقیقی منصوبے میں مدد کے لیے ایک سو ملین ڈالر سے شراکت قائم کی۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس ادارے کے سربراہ یہی مشکوک شخص ڈاکٹر فوکی ہیں۔
الغرض عالمی صحت عامہ کا کوئی کونا، کوئی گوشہ، کوئی حصہ اور کوئی دائرہ ایسا نہیں جو بل گیٹس کے قدموں کے نیچے،پیسے کے پیچھے اور اثر کے سائے میں نہ آتا ہو۔ بل اور میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن عالمی صحت سے وابستہ ہر منصوبے میں ناقابل یقین حد تک دخیل ہو چکا ہے۔عالمی صحت کی منڈی کے ہر کونے میں بل گیٹس کی بولی لگی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بل گیٹس کورونا کے وبائی اور ساختہ بحران کے ہر مرحلے میں موجود ہے۔ بل گیٹس نے سوفٹ ویئر مارکیٹ پر اپنی اجارہ داری سے حاصل ہونے والی بے پناہ دولت کو صحت کی دنیا میں اپنا تسلط قائم کرکے بے پناہ فوائد سمیٹنے کے لیے استعمال کیا۔ اس سارے عمل کو انسان دوستی کے لبادے میں جاری رکھا گیا۔ گیٹس فاونڈیشن کسی رفاہی، فلاحی یا انسان دوستی کے لیے تشکیل نہیں دی گئی۔ یہ ایک دہرے ڈھانچے پر قائم نظام ہے۔ بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاونڈیشن رقم وصول کرنے والے اداروں کوالگ الگ شناختوں سے رقوم تقسیم کرتی ہے۔ جبکہ گیٹس فاونڈیشن براہ راست ٹرسٹی اثاثوں کا انتظام سنبھالتا ہے۔ اور یہ اکثر ہوتا ہے کہ فاونڈیشن کی جانب سے دی جانے والی گرانٹ یا عطیے سے ٹرسٹ کے اثاثوں کی قیمت میں براہِ راست فائدہ ہوجاتا ہے۔ کاروباری حضرات باقی جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہے؟اس موضوع پردلچسپی رکھنے والے بل گیٹس کے افریقا میں کاروباری ماڈل کا مطالعہ کر لیں، اُن کی سمجھ میں ساری بات آجائے گی۔
یہ ایک سادہ سی بات ہے۔ بل گیٹس نے اپنے مائیکرو سوفٹ اسٹاک سے 35.8 بلین ڈالرز گیٹس فاونڈیشن کو عطیہ کیے تو بل گیٹس کی شبیہ ایک ہیرو کی حیثیت سے بنائی گئی۔ مگراس کے متنازع ترین پراجیکٹ ”ویکسین کی دہائی“ کے دوران میں گیٹس کی مجموعی مالیت دگنی ہو کر 54 بلین سے 103.1بلین ڈالرتک ہوگئی۔ راک فیلر کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ کس طرح عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے تو انسان دوستی کا لبادہ اوڑھ کر خود کے خلاف بات کرنا بھی مشکل بنایا جاسکتا ہے۔ شدید عوامی ردِ عمل کی لہر میں راک فیلر نے ایک ایسا نظام بنایا جس میں انسان دوستی کے لبادے کے ساتھ کاروباری مفادات کو زیادہ بہتر تحفظ دیتے ہوئے مزید منافع بخش بنا یا جاسکے۔ یوں انگریزی محاورے کے مطابق ایک پتھر سے دو پرندوں کو مارنے میں کامیابی حاصل کی گئی۔اس طرح اپنے خاندان کے کاروباری مفادات کا تحفظ بھی آسان ہوجاتا ہے اور عوامی تصور میں ایک محبوب شخصیت کا دھوکا بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ بل گیٹس نے یہ سب کچھ اور زیادہ منافع بخش طریقے سے کرکے دکھادیا۔ اُس نے اپنی سوفٹ ویئر کی سلطنت سے عالمی صحت عامہ کے منصوبے، ترقی اور تعلیم کو ہدف بنایا۔ پھر سرمایہ کاری اور تحقیق کی جعلسازیوں سے ویکسین اور حفاظتی ٹیکوں کے جعلی دھندے کی ایک نئی منڈی پیدا کی۔ اور یوں راک فیلر کی طرح بل گیٹس بھی عوام کی ملامت سے ڈرے ڈرے ملامت زدہ اجارہ دار سے ایک رحمدل بوڑھے کے روپ میں تبدیل ہو گیا۔جو بظاہر اپنی دولت سے ایک غیر معمولی حصہ عوامی بھلائی کے لیے لوٹاتے ہیں۔ لیکن سب ہی تعلقات عامہ (پبلک ریلیشنگ) کی ان گھٹیا چالوں میں نہیں آتے۔ خود امریکا میں بل گیٹس کے خلاف آوازیں موجودہیں،جو روز بروز تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ پاکستان کے وزیرا عظم عمران خان کو جس دن بل گیٹس نے فون کیا، امریکا میں عوام بل گیٹس کے خلاف باہر نکلے اور اُس کی گرفتاری کے لیے نعرے لگائے۔
واپس اپنے سوال کی طرف لوٹتے ہیں۔ بل گیٹس کون ہے؟اس کی دلچسپی کا محور کیا ہے؟اس کے فیصلوں میں کون سا عامل اہم ترین ہے؟ ہم جانتے ہیں، بل گیٹس اربوں ڈالر کے بہاؤ پر تنہا قابو پانا چاہتا ہے۔ وہ وسیع ترین ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے عالمی شراکت داریاں قائم کرتا ہے۔ فارما ویکسین کے بڑے بڑے اداروں کے لیے صحت مند منڈیاں تشکیل دیتا ہے۔ اور اب اُ س کی تمام دلچسپیوں کا محور کورنا وبا سے پیدا ہونے والی منڈی کا کنٹرول ہے۔جس کے لیے وہ دنیا بھر کے ردِ عمل کو اپنی مرضی میں ڈھال رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔