... loading ...
دوستو، رمضان المبارک کی بہاریں رواں دواں ہیں، رمضان کا پہلا جمعہ مبارک بیت گیا، آج دوسرا جمعہ ہے، پہلا عشرہ بھی ختم ہوچکا، اب دوسرا عشرہ یعنی عشرہ مغفرت چل رہا ہے۔۔کراچی میں رمضان المبارک کی آمدکے ساتھ ہی اتنی شدید گرمی تھی کہ محکمہ موسمیات نے ’’ہیٹ ویو‘‘ الرٹ جاری کردیا تھا،آج کراچی میں پہلے ہیٹ ویو الرٹ کا آخری دن ہے۔۔اس کے بعد پندرہ مئی سے ایک اور ہیٹ ویو الرٹ جاری ہوچکا ہے۔۔ سوچ سوچ کر دل دہلا جارہا ہے کہ رمضان میں بھی ایسا موسم رہا تو روزے تو کسمپرسی کی حالت میں گزریں گے، گرمی بہرحال بہت ہے لیکن وہ شدت نہیں کہ پیاس سے زبان باہر آجائے یا پھر حلق میں کانٹے چبھنے لگیں۔۔گرمی نہ لگنے کا شاید ایک سبب یہ بھی ہوکہ سارا دن تو گھر میں قید ہی رہتے ہیں، لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت گھر میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔۔بہرحال آج رمضان کے حوالے سے ہی کچھ باتیں کرلیتے ہیں، رمضان المبارک میں اب تک ہمارے پانچ کالم آپ لوگ پڑھ چکے ہیں، احباب کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن، کورونا اور رمضان سے باہر آجائیں اور زندگی کے دیگر معاملات پر بھی روایتی اوٹ پٹانگ باتیں کریں، اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم کوئی ادیب یا مستند مزاح نگار تو ہیں نہیں۔۔ نہ ہم یہاں کوئی ’’شاہکار‘‘ تخلیق کررہے ہیں، ستائیس سال سے صحافت سے وابستہ ہیں اس لیے ہمیشہ کرنٹ موضوعات پر ہاتھ صاف کرنے کی عادت سے پڑ گئی ہے۔۔ خیر کوشش کریں گے کہ آپ کی شکایت دور کریں۔۔لیکن فی الحال آج تو یہ کالم برداشت کریں۔۔
گزرے رمضان المبارک کے ایک جمعہ کا واقعہ ہے۔۔ اس بار تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے نمازجمعہ کے اجتماعات پر شدید قسم کی پابندی ہے اور اطلاعات ہیں کہ عیدین کے اجتماعات بھی نہ ہوسکیں، سندھ حکومت نے تو گلے مل کر عید مبارک کہنے پر بھی پابندی لگادی ہے۔۔تو ہم بتارہے تھے کہ گزشتہ سال رمضان المبارک کے ایک جمعہ کو ہمارے ساتھ ایک ’’سین‘‘ ہوگیا، اسے ’’شین‘‘ مت سمجھئے گا، ورنہ آپ کے ساتھ بھی کبھی عین،غین ہوسکتا ہے۔۔ہوا کچھ یوں کہ ۔۔جمعہ کی نماز پڑھنے اپنے علاقے کی جامع مسجد گئے، رمضان المبارک کی وجہ سے کافی رش کا اندازہ تھا اس لیے عین دوسری اذان کے وقت جانے کے بجائے کچھ پہلے جانے کی ٹھانی اور مسجد کے اندر سایہ دار جگہ میں ’’جگہ‘‘ بناکربیٹھ گئے۔مولوی صاحب کا اردو میں خطاب یا بیان جاری تھا، بڑے پرجوش اور ولولے کے انداز میں وہ اپنی تقریر جاری رکھے ہوئے تھے، مولوی صاحب کے لہجے سے بالکل اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ ان کا روزہ ہے(یہ ہمارے اندر کا راڈار بتارہاتھا،واللہ اعلم باالصواب)آواز میں گھن گرج، ہاتھوں کا فضا میں ہلانا، باربار ریش مبارک پر ہاتھ پھیرنا، روزے میں تو انسان بالکل ڈھیلا ڈھالا سا ہوجاتا ہے،(شاید یہ ہماری آبزورویشن ہو، ممکن ہے آپ اتفاق نہ کریں)، بہرحال مولوی صاحب کے خطاب کے دوران چندے کا بکس نمازیوں کے آگے کیاجارہاتھا، بکس ہمارے سامنے پہنچا تو ہم نے بسم اللہ پڑھ کر جیب سے دس روپے کا کڑک نوٹ نکالا اور اسے چندہ بکس کے سپرد کرڈالا، ہمارے پیچھے بیٹھے صاحب نے اسی دوران ہمارا کاندھا ہلایاپھر ممکن ہے تھپکی دی اور پانچ سو کا نوٹ ہمارے ہاتھ میں تھمادیا،ہمارے دل میں ان صاحب کے لیے جذبات امڈ آئے، ہم نے وہ نوٹ پکڑا اور اسے بھی جلدی سے چندہ بکس کی نذر کردیا اور پلٹ کر ان صاحب کو بڑے عقیدت بھرے انداز میں کہا، جزاک اللہ جناب۔۔ وہ صاحب تھوڑا سا آگے کی طرف جھکے ، ہمارے کان کی طرف اپنا منہ لائے اور بہت ہی آہستہ سے بولے، احتیاط کیا کیجئے، یہ نوٹ آپ کی جیب سے گر گیا تھا۔۔
رمضان کا مہینہ ہے، روزانہ افطاری کے لیے پھل فروٹ بھی لینا ضروری ہوتا ہے۔۔ دسترخوان پر جب تک بھرپور افطاری نہ ہو تو مزہ ہی نہیں آتا، کراچی اور لاہور کی افطار میں ہم نے یہ فرق بخوبی دیکھا کہ لاہور میں افطار ہلکی پھلکی ہوتی ہے جس کے فوری بعد کھانا کھایاجاتا ہے، جب کہ کراچی میں بہت تگڑی قسم کی افطار ہوتی ہے، جس کے بعد کسی کھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔۔ تو ہم کہہ رہے تھے کہ جب آپ افطار کے لیے فروٹ لینے بازار جاتے ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا تربوز والے آپ کو کس انداز سے تربوز دیتے ہیں۔۔ ہم نے ایک تربوز والے سے سوال کیا۔۔یار تمہیں کیسے تربوزکو تھپکی دینے سے پتہ چل جاتا ہے کہ تربوز میٹھا اور لال نکلے گا؟؟ تربوز والا ہماری بات سن کر مسکرایا، پھر اس نے اپنی بڑھی ہوئی شیو والا والے گال کو کھجایا،پھر پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔پتہ نہیں صاحب جی،لیکن میرے باپ نے مجھے سمجھایا تھاکہ دو تربوز پر تھپکیاں ماروپھر تیسرے والا تربوزگاہک کو پکڑا دو،گاہگ خوش ہو جاتا ہے۔واقعہ کی دُم: نوازشریف پہلا تربوز،آصف زرداری دوسرا تربوز۔تربوز والے نے یہی کیا، عوام کو تیسرا تربوز یعنی ’’خان صاحب‘‘ کو پکڑادیا،عوام بھی تیسرا تربوز لے کر خوش ہوگئے، وہ تو اس وقت پتہ چلا جب گھر آکر تربوز کاٹا۔۔۔
پاکستانی تو جب تک 10 خربوزے سونگھ نہ لیں، ان کو میٹھا خربوزہ ملتا ہی نہیں۔چاہے اس چکر میں کورونا ۔۔ناسوں میں وڑ جائے۔ آفرین لوگ ہیں ہم۔ فروٹ کی دکان پر پڑے ایک خربوزے کو نجانے کتنے لوگ سونگھ کر اور کتنے دبا کر چھوڑ چکے ہوں گے پھر بھی جو شخص خربوزہ لینے آتا ہے وہ سب سے پہلے ماسک اتارتا ہے پھر اسے اٹھا کر سیدھا ’’ناسوں‘‘ سے دبا کے یوں لگاتا ہے کہ ناک ہی اوپر کو چڑھ جاتا ہے پھر گہری سانس یوں بھرتا ہے جیسے عطر سونگھ رہا ہو۔۔سارے ملک میں تاجروں نے دکانیں،سیٹھوں نے صنعتیں اور مولویوں نے مساجد کھولنے کے مطالبات کئے اور کورونا احتیاط کو بالائے طاق رکھ دیا۔لیکن سلام ہے دفتری ملازمین کی احساس ذمہ داری کو،آج تک پورے ملک میں کسی ایک نے ضد نہیں کی کہ ہمارے دفتر کھول دو، ہم کام پر جائیں گے. یہ ہوتی ہے قانون کی پاسداری۔۔ہمیں سرکاری ملازمین سے قانون کی پاسداری سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔۔ باباجی گزشتہ رات فرمارہے تھے۔۔ابھی تک افطاری کی ایک بھی دعوت نہیں آئی،یہ قوم تباہی کی طرف جارہی ہے۔۔
عوام کی اکثریت اس رمضان میں پریشان اور تنگ نظر آرہی ہے۔۔مہنگائی اپنے عروج پر ہے، ہمارے کپتان کو بھی احساس ہے ، لیکن وہ بے چارہ مجبور ہے۔وہ کسی بھی منصوبے کا افتتاح کرتا ہے تو پیپلزپارٹی یا نون لیگ فوری دعویٰ کردیتی ہے کہ یہ منصوبہ تو ہماری حکومت نے تیار کیا تھا، لیکن جب قرضوں کی بات ہوتی ہے تو لگتا ہے سارا قرضہ کپتان نے لیا تھا۔۔تو ہم بتارہے تھے کہ اس رمضان میں سب ہی پریشان نظر آرہے ہیں۔۔ایک گوالا رمضان کے مہینے میں سحری کے وقت اپنے کسی گاہک کے مکان پر دودھ دینے گیا تو اندر سے کسی خاتون کی نے کہا۔دودھ جلدی لایا کرو۔گوالے نے جواب دیا۔بیگم صاحبہ، دودھ تو جلدی لے آؤں مگر کیا کروں میرے محلے کے نلکے میں پانی ساڑھے چار بجے آتا ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ معصوم اور بھلے لوگو،صرف کرونا کو ہی پھیلنے سے نہیں روکنا بلکہ خود کو بھی پھیلنے سے روکنا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔