... loading ...
آج کے دور میں انسانیت کے نام پر سب سے بڑا دھندا ہوتا ہے۔ یہ جدید دور کی سرمایہ دارانہ چالیں ہیں جو منافع بخش طریقے سے کاروبار میں ڈھلتی ہیں۔کسی بھی کاروباری جن کو دیکھیں، اُس کی انسانیت دوست اور فلاحی خدمات کی کچھ تنظیمی شکلیں دکھائی دیں گی، دسترخوان بچھے ملیں گے، علاج معالجے سے لے کر ہر وہ کام جو اُس کے لیے کسی طرح کی ہمدردی پیدا کرسکتا ہو، یا اُس کے کاروباری مفادات کے حصول کے انتہائی سفاکانہ پہلوؤں کو ایک مناسب آڑ دے سکتا ہوں۔ یہ عہدِ جدید کے انسان نما جانوروں کے اندر پائی جانے والی ”ہمدردی“ کی سب سے سفاکانہ تصویر ہے۔ جس میں شقاوت، رکاکت اور ذلالت کے تمام رنگ بھرپور خباثت کے ساتھ پوری طرح موجود ہے۔
بل گیٹس نے ابتدا میں وہی طریقہ اختیار کیا، جو اُسی سے ملتا جلتا ایجنڈا رکھنے والے تیل کی صنعت کی جناتی شخصیت راک فیلر نے اختیار کیا تھا۔ بل گیٹس نے خود کو ایک سافٹ ویئر کی دنیا کے اجارہ دار سے ایک انسان دوست شخصیت کے روپ میں پیش کرنے کے لیے کم و بیش دو عشرے کھپا دیے۔ درحقیقت بل گیٹس نے اپنی ”بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاونڈیشن“کے ذریعے اپنے وقت کی سب سے خطرناک راک فیلر فاونڈیشن کی میراث کو بہت پیچھے چھوڑ دیا، جس کے پاس 46.8 بلین ڈالر کے اثاثے تھے۔درحقیقت اس کے لیے بل گیٹس نے اپنے پیش رو راک فیلر کی طرح ایک زبردست تعلقات عامہ کی مہم شروع کی۔ دولت کی چکا چوند چالوں سے اپنی مکروہ شخصیت کو بالکل برعکس طور پر اُبھارنے اور اُجالنے کی اس دوڑ میں کسی اور کامیاب آدمی کا نام آسکتا ہے تو وہ ایک طرح سے بل گیٹس کے”مشفق اتالیق“وارن بفیٹ کا نام ہے۔ جس نے راک فیلر کی چالوں سے پوری طرح فائدہ اُٹھایا۔ مگر بل گیٹس ان سب سے آگے نکلا۔ اُس نے اپنی شہرت کے لیے محض اس پر اکتفا نہیں کیا کہ کوئی اُسے محض ایک انسان دوست سمجھے، نہیں وہ اس معاملے میں کسی بزرگ یا درویش (saint) کی نیک نامی چاہتا تھا۔ جو انسانیت کی بھلائی کے لیے بے غرض ہوچکا ہوں۔ اُس نے یہی کیا اور شہرت خریدنا شروع کی۔ اس کے لیے ”بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاونڈیشن“ نے دسیوں ملین ڈالرز سے مختلف میڈیا شراکت داریاں قائم کیں۔ اپنی تمام سرگرمیوں کی تشہیر کے لیے ابلاغی اداروں کی مالیاتی کفیل (اسپانسرڈ) بنی۔ اب پڑھتے جائیں، گیٹس نے ڈی گارجین کی”گلوبل ڈویلپمنٹ ویب سائٹ“ کو فنڈز فراہم کیے، گیٹس نیشنل پبلک ریڈیو کی عالمی سطح پر صحت کے تمام پرگرامات کو مالی امداد مہیا کرتا ہے۔ گیٹس ”اَور ورلڈ ان ڈیٹا“ ویب سائٹ کو بھاری فنڈ دیتا ہے۔ یہی ویب سائٹ کورونا وبا کے شکار افراد کے متعلق تازہ ترین اعداد وشمار دنیا کو مہیا کرتی ہے۔ گیٹس بی بی سی کے عالمی صحت و ترقی سے متعلق امور کی تشہیر پر فنڈدیتا ہے۔ اس سے بی بی سی خود اور اس کی بی بی سی میڈیا ایکشن آرگنائزیشن دونوں ہی مستفید ہوتے ہیں۔ گیٹس اے بی سی نیوز کو بھی فنڈز دیتا ہے۔ گیٹس کی پہنچ اور دباؤ کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ حکومتوں کو دبوچ لیتا ہے اورملکوں کی افواج کو تنہا قابو کرلیتا ہے، طاقت اسی کانام ہے۔درحقیقت عالمی صحت عامہ کے کسی پروگرام میں کوئی بھی ایسا گوشہ تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہے جو گیٹس فاونڈیشن کے شکنجے سے باہر ہو۔
بل گیٹس کیا کیا کچھ کرتا ہے؟اس کا اندازا لگانا بھی بے حد مشکل ہے۔ بل گیٹس اُس اجلاس کی سرپرستی کررہا تھا، جس میں ویکسین الائنس کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی ایک پبلک پرائیوٹ شراکت داری ”Gavi“ کے نام سے قائم ہوئی۔ یہ اکٹھ دراصل عالمی سطح پر ریاستی سرپرستی میں کارگزار اداروں اور بڑے ادویہ ساز گروپوں (دراصل مافیا) کے مابین تھا، جس کا بنیادی ہدف ویکیسن اور دیگر حفاظتی ٹیکوں کی مصنوعات کے لیے منڈیوں کی تشکیل تھا۔ یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ بل گیٹس کسی بھی کام کے لیے منڈی تلاش نہیں کرتا بلکہ اُسے تشکیل دیتا ہے۔ اسی اتحاد کے بانی شراکت دار کے طور پر گیٹس فاونڈیشن نے 750ملین ڈالرز کی بنیادی رقم فراہم کی اور اس مالی اعانت کو بتدریج 4.1بلین ڈالر کے وعدے تک پہنچایا۔ گیٹس نے ہی اُس عالمی فنڈ کو ابتدائی رقم مہیا کی جسے ایڈز، تپ دق اور ملیریا سے لڑنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایک سرکاری نجی شراکت کے تحت قائم کیا گیا نظم ہے جو سرکاری طور پر ایڈز،ٹی بی اور ملیریا پروگرام کے لیے مالیاتی ذریعہ بنتا ہے۔ بل گیٹس کہاں نہیں ہے؟ عالمی ادارہ صحت اور تیرہ سرفہرست ادویہ ساز کمپنیوں کے مابین ایک سرکاری نجی شراکت داری 2012ء میں
قائم ہوئی جس کا مقصد دس نظرانداز بیماریوں پر قابو پانے میں پیش رفت کرنا تھا، تو یہاں بھی بل گیٹس 363ملین ڈالرز کے ساتھ موجود تھا۔
اسی طرح عالمی صحت اور ترقیاتی پروگراموں کے لئے اربوں ڈالر کے ساتھ سرکاری اور نجی شراکت داری میں خواتین، بچوں اور نوعمروں کے لئے عالمی مالی اعانت کی سہولت کا پروگرام شروع کیا گیا تو، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے بانی شراکت دار کی حیثیت سے 275 ملین ڈالر دیے۔ اسی طرح ڈیوس میں مختلف منصوبوں کے ساتھ بل گیٹس کھڑا ملتا ہے۔ ڈیوس میں وبائی امراض کے خلاف ویکسین تیاری کے لیے 2017ء میں ایک اتحاد کی بازگشت سنائی دی تو گیٹس فاونڈیشن نے یہاں بھی 100ملین ڈالر دان کیے۔ کیا یہ سب ایک مزاق ہے؟ کیا ایک شخص اپنے نشانات دنیا کے ہر مرض سے متعلق کسی بھی سرگرمی پر چھوڑ رہا ہے یہ محض ایک فلاحی سرگرمی ہے؟مثالیں اور بھی بہت سی ہیں۔ ایشیاء اور افریقا سمیت دنیا کے تمام براعظموں کے اکثر ممالک میں بل گیٹس کے منصوبے کام کررہے ہیں۔ اب اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں رہ جاتی کہ کورونا وبا پھیلی تو گیٹس فاونڈیشن اس میں سب سے زیادہ متحرک نظر آئی۔بل گیٹس نے کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے ابتدائی طور پر 250 ملین ڈالر دیے۔ اس وقت کورونا وبا کے خلاف جاری تمام سرگرمیوں کے کسی نہ کسی پہلو سے ہر تنظیم، گروپ، یا افراد کا اس امداد سے کوئی نہ کوئی تعلق بنتا ہے۔
اب ذرا عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کو دیکھیں۔ وہ ہمیں بظاہر ووہان سے وائرس کی ابتداسے ہی یہ ہدایت جاری کرتا ہے کہ کوروناو با کے حوالے سے ایک عالمی ردِ عمل ضروری ہے۔ مگر اس کے ابتدائی ردِ عمل اور جنوری میں جاری اعلامیے تک کسی بیان، براہ راست بریفنگ اور تکینیکی رہنمائی میں اس طرح کے کوئی ثبوت یا شواہد مہیا نہیں کیے جاتے کہ کورونا وائرس ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں منتقل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہی ادارہ اس قسم کے کسی بھی معاملے میں رہنمائی مہیا کرنے اور ملکوں کی پالیسی تشکیل کے لیے سفارشات تیار کرنے کا سب سے مسلمہ اور بڑا ادارہ ہے۔ جبکہ ڈبلیو ایچ او خود بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاونڈیشن کی مالی اعانت پر سب سے زیادہ انحصار کرنے والا ادارہ ہے۔ ڈبلیوا یچ او کے مالی معاونین کی تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنہا گیٹس فاونڈیشن برطانیا،روس، جرمنی،فرانس، کینیڈااور آسٹریلیا کی مجموعی امداد سے زیادہ اس ادارے کی مالیاتی اعانت میں حصہ ڈالتی ہے۔ یہی نہیں،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم اس ذمہ داری پر فائض ہونے سے قبل گیٹس کے ایڈز، تپ دق اور ملیریا سے لڑنے کے لیے قائم کردہ عالمی فنڈ کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں، اور گیٹس کے زیر سرپرستی قائم گیوی، ویکسین الائنس اور انسدادِ ٹی بی پروگرام کے بورڈ کے رکن رہ چکے ہیں۔کیا آپ کے علم میں ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل پر ایتھوپیا کے سابق وزیرصحت کے طور پر ملک میں ہیضے کی وبا پھیلانے کا بھی الزام ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم کی خاص بات یہ ہے کہ وہ بھی ہمارے پیارے بل گیٹس کی طرح کوئی ڈاکٹر وغیر ہ نہیں ہے، اور اس اہم ترین منصب پر بل گیٹس کی ہی وجہ سے بیٹھے ہیں۔اب ذرادیکھیے!
٭ امریکی صدر اعلان کرتے ہیں کہ وہ ڈبلیو ایچ او کی مزید امداد نہیں کریں گے۔ یہ ادارہ سب سے زیادہ مدد امریکا سے لیتا ہے، اور جھکاؤ چین کی جانب رکھتا ہے۔
٭بل گیٹس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو نشانہ تنقید بناتے ہیں۔
٭ امریکی صدر چین پر وائرس پھیلانے کاالزام لگاتے ہیں اور ووہان لیبارٹری سے وائرس کے باہر نکلنے کا اشارہ دیتے ہیں۔
٭ ووہان لیبارٹری کو امریکا کے وبائی امراض کے کنٹرول کرنے والے ادارے کی جانب سے امداد دی جاتی ہے۔
٭ امداد دینے والے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر فوکی ہیں، امریکی صدر اُن پر ٹوئٹر کے ذریعے ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہیں۔
٭ڈاکٹر فوکی بل گیٹس کے دوست ہیں۔
٭بل گیٹس چین کی کورونا وائرس سے لڑنے اور اس حوالے سے اختیار کی گئی پالیسیوں کی خوب اور جی کھول کے تعریفیں کرتے ہیں۔
٭ امریکا ایک مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے تحت چین کے خلاف ایک بڑے محاذ کی تیاری کررہا ہے۔
ان سب باتوں سے کیا سمجھ آتا ہے۔ سب ایک طے شدہ کردار اداکررہے تھے۔ سب کی لڑائیاں ایک کھیل کا حصہ ہے۔ سب دنیا کی ایک خاص طرح کی تشکیل میں اپنے اپنے متعین کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ سب کسی فلم کی طرح ہے، جس کے سب مناظر ڈرامائی ہیں۔اس ڈرامے کے بہت سے نئے مناظر آگے دیکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔