وجود

... loading ...

وجود

آزادیٔ صحافت ، یہ کس چڑیا کا نام ہے؟

منگل 05 مئی 2020 آزادیٔ صحافت ، یہ کس چڑیا کا نام ہے؟

.

انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور آزادیئ صحافت کے رنگ برنگی گروہ 3/ مئی کو”عالمی یومِ آزادی“ کے طور پر مناتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے1993 ء میں ونڈووک اعلامیہ (Windhoek Declaration) پر دستخط کی دوسری سالگرہ کے موقع پر یہ تاریخ متعین کی تھی۔ اس دن کا روایتی فہم 1948 ء کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل 19 کے تحت درج اظہارِ رائے کے حقِ آزادی سے وابستہ ہے، اور حکومتوں کو اس کی پاسداری کا احساس دلاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک عملی تصور ہے جو منافقت کی تھاپ پر الفا ظ کے رقص کا منظر پیش کرتا ہے۔ جس میں اربوں کھربوں کے کاروبار ِصحافت اور انسانی حقوق کی منافع بخش تجارت کی گھمن گھیریوں میں امریکا کے سامراجی چہرے کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ابھی پاکستان کے مغاں و مغبچوں کو اُن کے خم و قرابے اور مینا و ساغر کے ساتھ اِٹھلانے لہرانے دیں۔ ان کی سرمستیاں و دیوانگیاں تین میں آتی ہیں نہ تیرہ میں۔
مغربی دنیا گزشتہ تین صدیوں سے انسانی آزادی کے جو راگ الاپ رہی ہے، وہ انسان کی سب سے بڑی قدر کے طور پر تسلیم شدہ حالت میں سب سے بڑا دھوکاثابت ہوئی ہے۔ آزادی کوئی ایسا تصور نہیں جسے تسلیم کرانے کی کوئی جدوجہد درکار ہو۔ یہ تسلیم شدہ، جانا جنوایا اور مانا منوایا تصور ہے۔ اس کے باوجود یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دھوکا اورسب سے گمراہ کن تصور ثابت ہوا۔ گزشتہ تین صدیوں میں انسان کی تمام کارگزاری اس کے بھرم میں تکریم انسانیت کا بھرکس نکالنے سے عبارت ہے۔ علم وادب پر سامراجیت کے اثرات کا مطالعہ کرنے والے دنیا کے عظیم دانشور ایڈورد سعید نے اپنی کتاب ”کلچر اینڈ امپیریل ازم“ میں اس پورے تناظر کے کھوکھلے پن کو عریاں کردیا ہے۔ انیسویں صدی میں نوآبادیات کے ظہور وعروج سے بیسویں صدی میں امریکا کا کردار اُبھرنے تک ذرائع ابلاغ کا بہاؤ اسی سمت رہا ہے، جس میں نوآبادیوں کو ملنے والی آزادی میں قوم پرستی پھلی پھولی، قومی استبدادی حکومتیں قائم ہوئیں اور نو آبادیاتی رویوں کے نئے اظہاریے تقویت پاتے رہے۔ ذرائع ابلاغ آزادی کے بھرم میں ان سارے عوامل کے لیے ایک سازگار فضا بنانے میں مجرمانہ شراکت دار رہے، پوری دیانت اور اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اب بھی ہیں۔
ایک صدی پہلے کی دنیا میں چلے جائیں!یورپی ثقافت وہیں تھی،جہاں گورا خود بھی موجود تھا۔ واپس اپنی صدی میں آئیں۔ اب اس یورپی ثقافت کے لیے کسی گورے کی موجودگی ضروری نہیں۔ یہ کام ذرائع ابلاغ بخوبی کررہے ہیں۔ ایک صدی پہلے اور بعد کا عرصہ امریکا کی مٹھی میں رہا، جس میں اطلاعات کے بے پناہ پھیلاؤ کے ساتھ کنٹرول کے نئے نئے طریقوں کو ترقی کے نام پر رواج ملا۔ اس کے لیے مقامیت ختم کی گئی اور عالمگیریت کو اعلیٰ ذہانت کا ایک وصف باور کرادیا گیا۔ اس پوری سماجی بناوٹ (سوشل انجینئرنگ) میں ذرائع ابلاغ کا کردار مثالی رہا۔ پریس کلبوں کے باہرآزادیٔ رائے کو بھونکنے دیں اورکچھ بھی نہ کریں، بس یونیسکو کی ایماء پر ”انٹرنیشنل کمیشن فار دی اسٹڈی آف کمیونکیشنز پرابلمز“ کی رپورٹ ”Many Voices, One World“پڑھ لیں۔ ”نیو ورلڈ انفارمیشن آرڈر“ پوری طرح سمجھ میں آجائے گا۔یہاں ایڈورڈ سعید کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور افغانستان کی حالیہ جنگ میں ذرائع ابلاغ کے مکروہ کردار کا چہرہ دیکھ لیں۔ یہ تو ہمارے گھر آنگن کا واقعہ ہے۔مغربی ذرائع ابلاغ کی بدکاریوں کو چھوڑیئے!جس کا مشاہدہ ہم اپنی آنکھوں سے کرتے رہے۔ پاکستان کے مرکزی ذرائع ابلاغ (ایم ایس ایم)نے بھی اس جنگ میں مختلف نظریات کے بہانے پوری طرح امریکا کا ساتھ دیا۔ پاکستانی صحافی امریکیوں سے ایسے ملتے رہے جیسے دو بھائی ملتے ہوں۔ پاکستان کے خلقی استعمار دشمن معاشرے میں ایسے ایسے تصورات انڈیلے گئے جس نے ہماری مذہبی، سماجی، اخلاقی اور سیاسی اقدار کو اندر سے ہلا ڈالا۔ کسی گورے کی یہاں ضرورت نہیں پڑی۔ بے شرم ذرائع ابلاغ اس منافع بخش کاروبار میں ڈبکیاں لگاتے رہے۔
حریتِ فکر انسان کے ساتھ وابستہ تصور ہے جسے ذرائع ابلاغ نے اپنی آزادی کی مٹھی میں لے لیا ہے۔ انسان کی آزادی اور کارپوریٹ میڈیا کی آزادی کوئی ہم معنی الفاظ نہیں۔ مگر اقوامِ متحدہ کے زیرسرپرست اداروں نے انسانی حقوق کی تاجر عالمی تنظیموں اور آزادیٔ صحافت کے رنگ برنگی کاروباری گروہوں کے ساتھ مل کر آزادی کو ایک عالمگیر انسانی قدر کے طور پر ذرائع ابلاغ سے جوڑ دیا ہے۔ 3/ مئی کی تاریخ اپنے پورے کھوکھلے پن کے ساتھ اس منافع بخش کاروبار کے منافقانہ رقص کی تاریخ ہے۔ ذرائع ابلاغ کسی درست وغلط کی بصیرت سے بروئے کار نہیں آتے۔ ان کی پوری بنت نفع ونقصان کے گورکھ دھندے اور آمدن واخراجات کی میزانئے پر ہوتی ہے۔ آپ ایک ہی ساتھ منڈی اور معاشرتی اصولوں پر اجارہ کیسے قائم کرسکتے ہیں۔ جبکہ اکثر معاشرہ اور منڈی الگ الگ اُصولوں، اہداف اور مقاصد کے ساتھ حرکت پزیر ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں حالیہ صحافتی بحران اسی کشمکش سے پھوٹا ہے۔
ئ آزادیٔ اظہار کے لیے ایک مستقل اُصول درکارہے، جسے کاروباری مفادات سے کوئی نسبت نہ ہو۔ جو سیاسی وسماجی فضامیں سانس لیتا ہو۔ اور جو پاگل کے ہاتھ میں بندوق کی طرح استعمال نہ ہوتا ہو۔ ظاہر ہے! یہ ایک مستقل سماجی ذمہ داری کا نام ہے۔ منڈی کی نفسیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ سماجی ذمہ داری سے مراد کیا ہے؟ ہماری سماجی زندگی مختلف دائروں میں بہتی ہے۔ اس کے اکثر عوامل متضاد نوعیت بھی رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہاں آزادی کا مطلب ان متضاد منطقوں کے کامل شعور کے ساتھ بروئے کار آئے گا۔ آزادیٔ اظہار ایک سماجی ذمہ داری کے طور پر کسی ”مقصد“ کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جو آزادیٔ اظہار کی بات کرتے ہیں، اُن سے پوچھا جائے کہ وہ کیا ”اظہار“ کرنا چاہتے ہیں، جن کی اُنہیں ”آزادی“میسر نہیں تو اُن کی باتیں دانتوں میں بن جانے والے سوراخوں سے نکلنے والی سیٹیوں جیسی رہ جاتی ہیں۔ وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔یہ انتہائی ضروری ہے کہ سماج کے اندر متضاد بہتے دھاروں کو الگ الگ آزادیٔ اظہار کا موقع یکساں طور پر میسر رہے، تاکہ ایک متوازن معاشرے کو پیدا کرنے کے لیے ہمہ گیر فضا پیدا ہو سکے۔ جس میں سیاسی، سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی اقدار کی ایک ایسی تہذیب جنم لے سکے جو قومی تعمیر کے مشترک جذبے میں پیوست ہوتی ہوں۔ مگر کیا آزادیٔ اظہار کے موجودہ جعلسازاور خانہ ساز تصور کا کوئی بھی اُصولی تناظر یہاں موجود ہے؟سب کا سب کاروبار ہے۔ کچھ وابستگیاں ہیں، اور منفعت بخش تعلقات ہیں۔ اس کے لیے سیاسی مثالیں ایک طرف رکھیں۔ ایک کاروباری آدمی کی مثال لیتے ہیں۔جس کو ایک ایسا ہنر آتا ہے جس کا درست ترین اظہار روزمرہ بول چال کی زبان سے ہوتا ہے۔ یعنی جیسا منہ ویسی تھپڑ!! یہ آدمی کوئی اور نہیں سب کے محبوب ملک ریاض ہیں۔ ملک ریاض کے تعلقات کی آکاس بیل کے ساتھ محترم المقام آصف علی زرداری بھی بندھے ہیں اور عزتِ ماب نوازشریف بھی جڑے ہیں۔ وہ پاکستان کی ہر حکومت کا نفسِ ناطقہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان کے مرکزی ذرائع ابلاغ میں ان کا کوئی منفی ذکر نہیں آسکتا۔ یہاں تک کہ عدلیہ اور فوج تک کے خلاف آزادیٔ صحافت کے نام پر زبانیں دراز رکھنے والے بھی اس کردار سے آنکھیں چراتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مولانا طارق جمیل کے متعلق ایک بیانیہ تشکیل دینے والوں نے یہ پہلو دو دھاری تلوار کی طرح اُن کے خلاف استعمال کیا کہ وہ نوازشریف کے ساتھ بھی اسی طرح وابستہ رہے جیسے وہ ان دنوں عمران خان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یہ مسئلہ تو زیادہ بھیانک طور پر ملک ریاض کے ساتھ بھی وابستہ ہے۔ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی اور یوں بھی، کی اگر کوئی شاندار و شاہکار مثال ہے تو وہ ملک ریاض ہیں۔پھر یہ اعتراض اُن پرکیوں نہیں داغا جاتا جبکہ وہ بھی موجودہ حکمرانوں تک رسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ دنیا بھر کے مرکزی ذرائع ابلاغ(ایم ایس ایم) میں حالیہ کورونا وبا کے بحران میں بل گیٹس کا ذکر ٹھیک اسی طرح نہیں کیا جاسکتا جیسے یہاں ملک ریاض کا نہیں کیا جاسکتا۔کیا آپ کو گانے کے وہ بول یاد آرہے ہیں، پیسہ بولتا ہے!!!
آزادیٔ اظہار کا مطلب من مانیاں نہیں ہوتیں۔ یہ ایک موقف ہے، جس کے کچھ موضوعات ہونے چاہئے۔ یہاں آزادیٔ اظہار محض ایک نعرہ ہے جس کے الفاظ بھی سالہاسال سے تبدیل نہیں ہوئے۔کسی بھی بڑے خیال کو الفاظ کے ساتھ زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ اگر خیال بڑا نہ ہوگا تو اس کے لیے الفاظ بھی کم پڑتے جائیں گے۔ الفاظ کے ایسے قحط کے ساتھ صرف شور کیا جاسکتا ہے۔ کوئی معنی خیز ماحول نہیں بنایا جاسکتا۔ چنانچہ آزادیٔ اظہار کی تمام سرگرمیاں یہاں صرف شور پیدا کرتی ہیں۔ یہاں تک کے اس کے مخالف بھی یہی کہتے ہیں: ”آزادیٔ اظہار کو بھونکنے دو“۔ اس فضا میں جو ذہنیت پیدا ہورہی ہے، وہ ایک دوسرے کو سمجھنے یا برداشت کرنے کی نہیں بلکہ ایک دوسرے کوپھینکنے، پھوڑنے اور پٹخنے کی ہے۔ ایسا ماحول بآلاخر متشدد ذہنیت کو باجواز بنادیتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ ہتھیار استعمال ہوں۔ اخبارات پڑھیں بارود کی بُو آئے گی۔ ٹی وی دیکھیں۔ آوازیں توپوں کی گھن گرج لگنے لگیں گی۔ ایسے لوگوں کے منہ میں آزادیٔ اظہار کا نعرہ ایک دیوانے کے ہاتھ میں کھلی بندوق کی طرح لگتا ہے۔ پھر بھی ہمیں کبھی نہ کبھی آزادیٔ صحافت کی اس چڑیا کا سراغ لگانا تو پڑے گا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر