... loading ...
بنیادی مسئلہ سائنس کا ہے۔انسان کا مذہبی محور تبدیل کرکے سائنس اس کی رہنمائی میں مکمل ناکام رہی۔ ہمیں سائنس دانوں، محققین اور معالجین کی بھانت بھانت کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ ہر آواز دوسرے کی مخالف، ہر دلیل دوسرے کو رد کرتی ہے۔
کینیڈا کے آزاد محقق ڈیوڈ کرو نے بساط ہی اُلٹ دی۔ ڈیوڈ کرو کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی طور پر ہی وائرس کے متعلق مفروضوں سے کام لیا گیا۔ وہ لکھتا ہے:سائنس دان مختلف مریضو ں میں نمونیا جیسی حالت میں ”ناول آراین اے“ کا پتہ لگا رہے ہیں۔اور یہ فرض کررہے ہیں کہ آر این اے (اغلباً پروٹین میں لپٹا ہوا آراین اے شکل کا وائرس) دراصل ایک الگ وائرس ہونے کے برابر ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے“۔ سائنس دانوں کی ایک عظیم اکثریت دیانت داری سے یہ اعتراف کرتی ہے کہ اُنہوں نے اس وبائی وائرس کی خون میں تلاش کے لیے کوئی ٹیسٹ نہیں کیے“۔ڈیوڈکرو نے اس حوالے سے کافی حوالے دیے ہیں۔ وہ نشاندہی کرتا ہے کہ مختلف پیپرز سے پتہ چلتا ہے کہ خون میں کسی وبائی وائرس کے تصدیقی ٹیسٹ نہ کرنے کا اعتراف کرنے کے باوجود اُسی کاغذ پر ایسے 59 میں سے 41کیس شامل کیے گئے ہیں جو آر این اے کے لیے مثبت تھے، مگر کسی جانچ کے بغیر اُسے کورونا کا الگ وائرس سمجھ لیا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ پوری بحث ثقیل طبی اصطلاحات سے بھری ہوئی ہے۔ جس میں طبی طور پر کسی وائرس کے انسانی جسم میں دخول سے اس کے ممکنہ اثرات تک رائج طبی طریقوں کو ایک نمونے کے طور پرمدنظر رکھا گیا ہے۔ ایک عام قاری کے لیے یہ ایک بوجھل کردینے والا مطالعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لہذا مختصراً عرض ہے کہ ڈیوڈ کرو کی تحقیق یہ انکشاف کرتی ہے کہ ”یہ بتانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ نئے کورونا وائرس پی سی آر ٹیسٹ میں جو آر این اے استعمال کیا جارہا ہے وہ ان ذرات میں پایا جاتا ہے جو الیکٹران مائیکروگراف کے تحت نظر آتے ہیں۔ ٹیسٹ اور ذرات کے مابین کوئی ربط نہیں اور اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ذرات وائرل ہیں“۔ڈیوڈ کرو نے اس حوالے سے ایچ آئی وی کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے۔ جس میں محققین کو اسی صورت حال کا مارچ 1997 میں سامنا کرنا پڑا تھا۔ جرنل وائرلوجی میں شائع ہونے والے دو مقالوں میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ جسے ابتدا میں خالص ”ایچ آئی وی“ کہا جارہا تھا وہ دراصل نجاست تھی۔ مگر اس مرکب میں مائیکرو ویسیکلز بھی شامل تھے جو الیکٹران مائیکرو اسکوپ کے تحت باکل ایچ آئی وی کی طرح کے ہی تھے۔ یہ ہے بیچاری سائنس! جسے کچھ بے شرم معلوم سمجھتے ہیں اور کائنات کے رب کو نامعلوم کہتے ہیں، پھر یہی بے شرم اس ظنی، قیاسی علم کے رعب میں انسانوں کو خدا تک کی اطاعت سے روکنے کے دلائل دیتے ہیں۔ اس سے قبل نوبل انعام یافتہ سائنسدان اور مشہور فرانسیسی وائرلوجسٹ پروفیسر لوک مونٹگینیئر (Luc Antoine Montagnier) کے حوالے سے یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ وہ اسے ایک انجینئرڈ وائرس قرار دیتے ہیں۔
اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ ووہان کی مرطوب منڈی سے وائرس نکلنے کا پروپیگنڈا کیوں کیا گیا؟ اس پر مختلف آزمائشی مشقیں مارکیٹ میں کیوں انڈیلی گئیں؟ اس پروپیگنڈے کا موثر جواب چین کیوں نہیں دے رہا؟چین کی پراسرار خاموشی کی وجوہات کیا ہے؟
پھر اس وائرس کے حوالے سے”خبر“ دینے والوں کو کہاں رکھا جائے؟ کیا اُن کے خلاف شکوک جائز نہیں؟ بل گیٹس نے کورونا وائرس کی آمد سے قبل کیسے اور کیوں اس پورے پسِ منظر کو ایک سرکاری اور عالمی بیانئے میں تبدیل کروادیا؟ ڈبلیو ایچ او کیوں حاشیہ برداری کرتا رہا؟ ظاہر ہے یہ سب سوالات ایک خطرناک سازش کا پتہ دیتے ہیں۔ اس سازش سے جڑی ایک نئی دنیا کی تشکیل کوئی بعید از قیاس خیال نہیں۔ اس کی آہٹیں اب کانوں کو سنائی دے رہی ہیں۔ یہی وقت ہے کہ اس نئی دنیا کے خدوخال کو سمجھا جائے تاکہ اس سے ایک خود مختار ریاست کے طور پر آنکھیں چار کی جاسکے۔ یہ وقت ہے کہ ہم یہاں سے نئی دنیا کی تشکیل کی سازشوں کے سرے پکڑنے شروع کریں۔ اس کے تمام سیاسی پہلوؤں کو دھیان میں رکھیں۔ ابتدا ہلکی موسیقی سے کرتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ووہان کی جس لیبارٹری پر یہ الزام ہے کہ وہاں سے کورونا وائرس باہر آیا، اس کی مالی اعانت امریکا کرتا رہا ہے۔ سائنس دانوں کا ایک گروہ یہ تاحال یقین رکھتا ہے کہ ووہان میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی جو جانوروں پر تجربات کے حوالے سے دنیا بھر میں معروف ہے، دراصل نئے کورونا وائرس کا اصل مرکز تھا۔ اسی مرکز کو امریکا کے نیشنل انسٹی آف ہیلتھ کی جانب سے 3.7ملین ڈالرز کی امداد دی گئی تھی۔ جو ووہان کی جنگلی حیات کی مارکیٹ سے صرف بیس میل دور واقع ہے۔ اسی معمل گاہ میں کورونا وائرس کا پتہ چلنے سے قبل چمگاڈروں پر تجربات بھی جاری تھے۔ یہ اس کھیل کا سب سے پراسرار پہلو ہے۔ چینی لیبارٹری میں امریکی دخل کسی بڑے منصوبے کے تحت ہی ہو سکتا تھا۔ آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کے خلاف تحقیقات کروا رہے ہیں تو دوسری طرف بل گیٹس چین کی حمایت کررہے ہیں۔ کیا امریکا کے اندر ایک ریاست کے اندر موجود ریاست جسے ”بگ برادرز“ بھی کہا جاتا ہے، جس میں دنیا کی امیرترین اشرافیہ کا پس پردہ عمل دخل سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ وہ اس پورے کھیل کی نگرانی کررہی تھی؟ اس نے چین کی لیبارٹری کو وائرس کے پھیلاؤ کے لیے چنا؟
ابھی ایک اور خبر سے دل بہلاتے ہیں۔ چین کے سرکاری ٹی وی چینل کی معروف اینکر”مس وی“ نے گزشتہ دنوں ایک عرب ٹی وی چینل پر یہ انکشاف کیا کہ کورونا وائرس امریکا کی کسی لیب سے چین لایا گیا ہے۔ عربی زبان میں بات کرنے والی چینی اینکر نے مختلف تحقیقی رپورٹوں کا حوالہ بھی دیا۔
مس وی نے دعویٰ کیا کہ چین میں کورونا وائرس ووہان ملٹری ورلڈ گیمز کے فوراً بعد پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔کھیلوں کے اس سالانہ پروگرام میں ایک سو سے زیادہ ممالک نے شرکت کی تھی۔مس وی چائنا ویو نامی ایک شو کی میزبانی کرتی ہیں۔ اُنہوں نے گزشتہ دنوں ایک ویڈیو بھی یوٹیوب پر اپ لوڈ کی تھی جس میں وائرس کی ابتدا کے حوالے سے کچھ تحقیقات کے حوالے بھی دیے گئے تھے۔ مس وی کے مطابق ملٹری ورلڈ گیمز کے دوران میں ووہان کے طبی عملے نے ایک ایسی لاش ہٹائی ہے جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ اُسے کورونا وائرس لاحق ہوگیا تھا۔
امریکا کی جانب سے مسلسل چینی حکومت کو کورونا وائرس کے حوالے سے موردِ الزام ٹہرایا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی صدر نے ایک سے زائد مرتبہ کورونا وائرس کو ”چینی وائرس“ قرار دیا۔ اس کے ردِ عمل میں چینی حکومت کے ترجمان نے بھی چینی فوج کو وائرس ووہان لانے کا ذمہ دار ٹہرایا۔ اس پر پینٹا گون کا ردِ عمل بھی آچکا ہے۔
ظاہر ہے کہ چین جیسے کنٹرولڈ ملک میں سرکاری ٹی وی کی اینکر خوامخواہ گفتگو نہیں کرسکتی۔ چنانچہ مغربی ذرائع ابلاغ میں مس وی کے موقف کو چین کا ”بالواسطہ سرکاری موقف“ قرار دیا جارہا ہے۔ اب اس موقف کا دوسرا پہلو زیادہ شاندار ہے۔ مس وی کے مطابق امریکا میں کورونا وائرس کے مریض پہلے سے موجود تھے۔ وہ انکشاف کرتی ہے کہ امریکا کے سرکاری ادارے سی ڈی سی(Centers for Disease Control and Prevention) نے گزشتہ سال ستمبر میں ”فورٹ ڈیٹرک بائیولوجیکل ہتھیاروں کی لیبارٹری“ پیتھوجینز نقصان پر قابو نہ پانے کے باعث اچانک بند کردی۔ اسی طرح بیماریوں کی روک تھام سے متعلق میری لینڈ لیب کو جولائی میں جزوی طور پر بند کردیا گیا۔ مس وی کے مطابق امریکا میں نیا کورونا وائرس پھیلنا پہلے ہی شروع ہوگیا تھا، مگر اس کی علامات کو دوسری بیماریوں کی علامتوں کی طرح ہونے کے باعث چھپانا آسان رہا۔ یہ ہے سائنس، یہ ہے ترقی، یہ ہے عروج کے بظاہر انسانی دعوے۔ آپ اس کی تہہ داریوں میں اُترتے جائیں، انسانی خباثتوں، رکاکتوں اور ذلالتوں کے ورق درورق کھلتے جائیں گے۔ ایک رائے دوسرے رائے سے متضاد ملے گی، ایک تحقیق دوسری تحقیق کو مسترد کرے گی، ایک دعویٰ دوسرے دعوے کے خلاف سینہ تان کر کھڑا ملے گا۔ ایک نتیجہ دوسرے نتیجے کا منہ چڑائے گا۔ اس ظنی علم کو تجرباتی قرار دیا جاتا ہے جس کا کوئی نتیجہ چند سال متفقہ کھڑا نہیں رہ پاتا۔اور ا س کی برتری کے نام پر مذہب کو طعنے دیے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔