... loading ...
کورونا وائرس نے بنیادی طور پر سائنس پر انسانی ایمان کا امتحان لیا ہے۔ اس ظنی و قیاسی علم کے حوالے سے معمل گاہوں کی تصدیق کے تمام علمی دعووں کے شکوہ کو بھی مرجھا کر رکھ دیا ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے جتنے بھی دعوے تھے سب خود سائنسدانوں کی آرا ء میں متضاد ثابت ہوتے رہے۔ ایک کی رائے دوسرے سے چیلنج ہوتی رہی۔ وہ علم جو تجربے کی تائید سے بروئے کار آتا ہوں، جس پر معمل گاہوں کی تصدیق کا دعویٰ سجا ہو، جس پر مشاہدے کی گوٹا کناری ہو، جو حواس خمسہ کے احاطے میں اپنا حُسن نکھارتا ہو، اس میں مختلف آراء کی تقسیم بھی کراہیت کے ساتھ گوارا کی جاسکتی ہے، مگر متضاد آرا ء کی گنجائش کیسے نکالی جاسکتی ہے؟کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ تجربہ بھی دھوکا دیتا ہے، معمل گاہیں بھی حتمی نہیں۔ مشاہدے فریب خوردہ ہوتے ہیں۔ حواسِ خمسہ چُوک کھاتے ہیں۔ پھر، پھر اس سائنس کا کیا کریں؟ عبدالحمید عدم کا پیرایہ اپنا رہا ہوگا، مگر یہاں اس کا لطف کیوں جانے دیں:
آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں
آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے
ہر جگہ ہر شہر ہر اقلیم میں
دھوم ہے اس کی جو ناموجود ہے
ابھی یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ بدلتے دعوؤں میں کھڑا کورونا وائرس کا اونٹ مستقبل میں کون سی کروٹ لیتا ہے۔مغرب ممالک کے سنجیدہ وفہمیدہ سائنسی محققین ہی اب یہ کہنے لگے ہیں کہ ممکن ہے پورا کورونا وائرس ایک”ہاؤس آف کارڈ“ ثابت ہو۔ذرا ایک نظر ڈال لیں، ہمارے ساتھ کیا ہوتا رہا؟
٭ کورونا وائرس کے حوالے سے جو اعداد وشمار پیش کیے گئے وہ سب غلط ثابت ہوتے رہے، ہلاکتوں کے تناسب اور اموات کی شمار بندی میں بے ضابطگیاں ثابت ہوتی رہیں۔
٭لاک ڈاؤن کا اقدام مشکوک طور پر منوایا جاتا رہا۔ اس کا وائرس سے رشتہ اور پھیلاؤ کی توجیہات خود سائنس مسترد کرتی رہی۔
٭سائنس نے کورونا وائرس کے حوالے سے جو مختلف احتیاطی نصاب پڑھائے، وہ بھی مختلف رہے، اور تبدیل ہوتے رہے۔ اسی نصاب میں سے ایک نکتہ سماجی فاصلے کا تھا، کبھی تین فٹ، کبھی چھ فٹ، کبھی نوفٹ اور کبھی بارہ فٹ کے فاصلے کو ضروری بتایا جاتا رہا۔جہاں اختلاط موجود تھا، وہاں بھی ٹرانسمیشن کی شرحیں الگ الگ تھیں، ان الگ الگ فاصلاتی موقف سے ہمارے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اتنے متاثر ہوئے کہ وہ انچی ٹیپ لے کر مساجد میں کھڑے ہوگئے اور فٹوں اور انچوں میں فاصلے ناپتے رہے۔ فراغت میں ایسی مصروفیت دنیا کے کسی ملک کے کسی صدر کے حصے میں نہ آئی ہوگی۔
٭یہ ماہرینِ وبائیات اور محققین ہی تھے جو کووڈ۔19 کے مہلک اور غیر مہلک ہونے پر بھی تقسیم رہے۔ کسی نے کہا کہ یہ انتہائی مہلک ہے، جبکہ ایسے بے شمار سائنس دان بھی تھے جو اِسے غیر مہلک مانتے تھے۔
آغاز سے ہی تشنہ جواب سوال تاحال تشنہ ہی ہیں۔ہمیں ابھی تک سائنس قطعی طور پر یہ بتانے میں ناکام ہے کہ کووڈ۔19 اور لاک ڈاؤن میں باہم رشتہ کیا ہے؟ (اس پر ایک تفصیلی موقف کچھ سائنسدانوں کا سامنے آیا ہے جو خطرناک طور پریہ ثابت کرتا ہے کہ لاک ڈاؤن الٹا وائرس کے لیے حیات بخش ہے، اسے آئندہ موضوع بنائیں گے)۔ کووڈ۔19 کے ٹیسٹ کتنے قابلِ اعتبار ہیں؟ پھر یہ ٹیسٹ اصل میں کیا تعین کرتے ہیں؟ ابھی سائنس دان حتمی طور پراس نتیجے پر بھی نہیں پہنچے کہ آیا یہ وائرس واقعی بیماری کا سبب بنتا ہے یا نہیں؟
آئیے اس نکتے کے کچھ نئے پہلوؤں کو ٹٹول لیتے ہیں۔دنیا بھر میں مرکزی ذرائع ابلاغ پر جس بیانئے کو مختلف حکومتوں کی سرپرستی میں نمایاں کیا گیا، وہ یہ ہے کہ سارس کوو۔2 کا کورونا وائرس دراصل ایک ایسی بیماری کا سبب بنتا ہے جسے کووڈ۔19 کہاجاتا ہے۔ سائنس دان ابھی تک اس موقف کی اصابت کے پوری طرح قائل نہیں ہوئے۔ وہ اس موقف کو تاحال قطعی نہیں سمجھتے۔ ایک ایسا موقف جسے سائنس نے ابھی تک ہمہ گیر تائید مہیا نہیں کی اس کی بنیاد پر کیا ہورہا ہے؟ جلدی سے دیکھ لیں۔ لاکھوں، کروڑوں افرادکی اموات کے الٹے سیدھے تخمینے لگائے گئے۔پوری دنیا کے اکثر ممالک کو لاک ڈاؤن کی جانب دھکیل دیا گیا جس کے تحت اس سیارے کی تقریبا ایک تہائی آبادی کو مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب ایک غیر معمولی معاشی قتل عام پر منتج ہوا، اس کے لیے معاشی ہولو کاسٹ کا لفظ پوری طرح کافی نہیں۔ شہری آزادیاں ردی کی ٹوکری میں ڈال دی گئی۔ عوام مبتلائے خوف کردیے گئے۔ ہمیں مختلف حیلوں بہانوں سے یہ بتایا اور سمجھایا جانے لگا کہ یہ دنیا کا ایک نیا معمول ہے، دنیا اب کبھی اپنے پرانے معمول کی طرف نہیں پلٹ سکے گی، وائرس سب کا پیچھا کرتا رہے گا اور ابھی کچھ بھی نہیں ہوا،بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ ذرا اس بیانئے پر غور کیجیے، سمجھ نہیں آرہا ہے کہ یہ ہمیں سمجھا رہے ہیں یا گلی کے لچوں لفنگوں اور غنڈوں کی طرح دھمکا رہے ہیں۔ اس دوران میں ہمیں اس مسئلے کے حل کی ہلکی ہلکی ڈھولکی سنائی جانے لگی۔ نجات، کسی نجات دہندہ کی آمد میں نہیں، بلکہ مکمل نگرانی کے ایک نظام کو قبول کرنے میں ہے۔ بائیو میٹرک پاسپورٹ کو ایک چِپ کی صورت میں قبول کیجیے۔ مشکوک ویکسین (جس پر بہت سے سوالات ہیں)جو ابھی تک سامنے نہیں لائی گئی، اس کی ایک یا دو خوراکیں ہی دنیا کی کل آبادی کو بلا چوں و چراں لینی پڑے گی۔ اُن ہزاروں کھربوں ڈالرز کے معاشی نقصان کی پیمائش ہندسوں میں ہو جائے گی مگر جو نقصان شرفِ انسانی کوکھونے کی صورت میں ہوگا، اس کی پیمائش اور تخمینہ دونوں ہی ناممکن ہے۔ کیا اس ہمہ گیر نقصان کی بدترین سطح پر رہتے ہوئے یہ سوال جائز نہیں کہ سب سے پہلے اس کا تعین تو کرلیجیے کہ کیا یہی وہ وائرس ہے جو حالیہ وبا (اگر اسے وبا کہنا درست بھی ہو)کا سبب ہے؟ اور خدا کے لیے ہمیں صحافتی پیرایے یا سیاسی بیانئے سے نہ بہلائیے، ٹھوس ٹھوس، ٹھیک ٹھیک سائنسی وجوہات دیجیے!چلیں جی مولوی کی نہیں سائنس کی مانتے ہیں۔
کورونا وائرس کے مکمل بحران اور مجموی بیانئے میں بڑھتی ہوئی آگہی نے بہت سے خلاء ثابت کردیے ہیں۔ سائنس کی ہی بہت سی آوازیں رائج مفروضوں پر سوالات اُٹھا رہی ہیں۔ جان ریپوپورٹ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کینیڈا کے ایک سائنسی محقق ڈیود کرو کے مختلف نتائج کے خلاصے کو شامل تحریر کرتے ہوئے یہ نشاندہی کی ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ سائنس نہیں ہے۔ ہمیں سیدھے ڈیوڈ کرو سے رجوع کرنا چاہئے، جنہوں نے اپنی تازہ تحقیق کو ”Flaws in Coronavirus Pandemic Theory“ کے عنوان سے قلمبند کیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی تحقیق میں بنیادی سوال ہی یہ اُٹھایا ہے کہ ”کیا محققین نے واقعتا اُس وائرس کو دریافت کرلیا ہے جس کی بنیاد پر وہ کووڈ۔19 کی بیماری کا دعویٰ کرتے ہیں“؟
سائنسی محقق ڈیوڈ کرو نے نئے ”کورونا وائرس“ کے وجود پر ہی سائنسی سوال اُٹھا دیے ہیں۔ وہ اس حوالے سے کچھ انتہائی اہم تفصیلات دیتے ہیں۔ جو اس پورے مجموعی بیانئے اور کورونا وبا کے مرکزی دعووں کو بھَک سے اڑا دیتی ہیں۔ان کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دھوکے کے جس ماحول کو سائنس کے جس غلاف میں دکھایا جارہا ہے، وہ کہیں پر موجود ہی نہیں۔ اس دلچسپ نکتے پر بحث آئندہ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔مگر یہ نکتہ بآلفاظِ دیگر ہمیں جون ایلیا سے لذت آشنا کرتا ہے، وہ بھی تو یہی کہہ گئے تھے:
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگ گئی آگ اس عمارت میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔