... loading ...
برادر ِ محترم ڈاکٹر لال محمد کاکڑ صاحب آرتھوپیڈک سرجن ہیں۔ اپنے شعبے میں کیا صوبہ اور ملک بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔ کل وقتی پیشہ طب سے جڑے رہے ہیں۔ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں 08اگست 2016کو وکلاء پرہونے والے خود کش حملے کے بعد ڈاکٹر لال محمد کاکڑ سماجی و علمی سرگرمیوں میں فعال ہوئے۔ اس سانحے میں ساٹھ وکیل شہید ہوئے اور ایک بڑی تعداد وکیلوں کی زخموں سے چُورہو گئی ۔ بڑے نامور، ماہر و زیرک اور نوجوان وکیل پیوند خاک ہو گئے۔ معروف قانون دان و متحرک وکیل رہنما باز محمد کاکڑ ایڈوکیٹ بھی شہداء میں شامل ہیں۔ باز محمد کاکڑ شہید ڈاکٹر لال محمد کاکڑ کے چھوٹے بھائی تھے۔ چناں چہ اس روح فرسا اور ناقابل فراموش سا نحہ کے بعد ڈاکٹر لال محمد کاکڑ نے باز محمد کاکڑ ایڈوکیٹ کے نام سے فاؤنڈیشن قائم کر لی۔اسطرح علمی،رفاعی اور سماجی طور پر بھی بیدار ہوئے۔ مختلف موضوعات و عنوانات کے تحت جا معات اور دیگر تعلیمی اداروں میں سیمینار منعقد کروائے، کتب میلے سجائے۔ یوں وکیل شہدا کی یاد میں ”شہداء آٹھ اگست پبلک لائبریری“ قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ یہ لائبریری شہید باز محمد ایڈوکیٹ فاؤنڈیشن کے تحت قائم ہے۔گزشتہ دنوں ڈاکٹر لال محمد صاحب نے آن لائن مذاکرے میں شرکت اور بولنے کی دعوت دی۔ جس کا اہتمام شہداء آٹھ اگست لائبریری میں کیا گیا تھا۔ موضوع کلام”آن لائن تعلیم اور لائبریری“تھی۔ مکرمی عبدالصبور کاکڑصاحب (سیکرٹری ماحولیات بلوچستان) بھی مدعو تھے۔ڈاکٹر لال محمد کاکڑ خود بھی شریک گفتگو تھے۔ طالبات وطلباء موجود تھے۔طویل گفتگو ہوئی،آن لائن سوالات بھی پوچھے گئے۔
یہاں مجھے خوشگوار حیرت یہ بھی ہوئی کہ امروزڈاکٹر لال محمد نے ڈیجیٹل لا ئبریری کا آغاز بھی کر دیا۔ فی الوقت ڈیجیٹل لائبریری میں دس کمپیوٹرز کی سہولت میسر ہے۔لائبریری حسب استطاعت معیار پر قائم ہے۔ طالبات کے لیے الگ کمرہ مختص ہے۔ جہاں ایک وقت میں بیس طالبات کے بیٹھنے، کتب بینی،امتحانات کی تیاری اور ریسرچ ورک کی سہولت موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمت ہے کہ وہ تنہا اس قدر بھاری ذمے مہ داری نبھارہے ہیں۔ اگرچہ چند قطب لائبریری کو ہد یہ بھی ہوئی ہیں۔مگر ضرورت مزید کتابوں کی ہے، اخراجات بھی زیادہ ہیں یعنی عمارت کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز اور دوسرے لوازمات کی مد میں کوئی تین لاکھ روپے ماہانہ اخراجات ہیں۔ یقینا فی الوقت یہ سارا بوجھ ڈاکٹر لال محمد کے شانوں پر ہی ہے۔ مجھے مسرت ہوئی کہ وبا کے ان کٹھن ایام میں طلباء و طالبات کا لائبریری آنا جانا رہا۔ میرے ذہن میں میکانگی روڈ کی صادق شہید پبلک لائبریری و کلب، کاسی روڈ کی پبلک لائبریری و کلب کی یاد تازہ ہوگئی۔ جہاں محدود پیمانے پر ورزش اور کھیل کا سامان بھی ہوا کرتا تھا۔ علاقے کے نوجوان باقاعدگی سے جاتے۔ جنہیں مثبت سرگرمیوں کا کسی حد تک ماحول میسر تھا۔یہ لائبریریاں و کلب اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ چناں چہ افلاس و ندارد کے اس دور میں اگر ڈاکٹر لال محمد کاکڑ جیسے تعلیم و کتاب دوست اور نوجوان نسل کے خیر خواہ شہری معاشرے کے بناؤ و سنوارنے میں مال و وقت کے ساتھ جہد و مسا عی میں لگے ہیں، تو کیا معاشرے کے اُن صاحب حیثیت افراد اور بڑے بڑے تاجر حضرات کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ا سطرح کے علمی و تعلیمی گہوارے کو اپنے تعاون سے مہمیز دیں۔ وکلاء اور ان کی تنظیموں کی جانب سے اس میموریل لائیبریری کو بڑی حد تک سہارا مل سکتا ہے۔ سرِدست سرکار کی توجہ و عنایت کی ضرورت ہے۔ تاکہ شہداء آٹھ اگست لائبریری جو کہ اب ڈیجیٹلائز ہو چکی ہے خود کار ہو سکے۔بلا شبہ اس کے اثرات بڑے دورس ثابت ہوں گے۔
گورنر بلوچستان اما ن اللہ خان یاسین زئی وکیلوں کے خاندان سے ہیں۔وہ اگر چاہیں تو اس لائبر یری کے لیے قطعہ ارضی مختص کر سکتے ہیں، بلکہ عمارت کی تعمیر کے لیے فنڈ کا اجرا بھی کارِ گراں نہیں ہے۔ ڈاکٹر لال محمد کاکڑ کی یہ پیشرفت تحسین و ستائش کے لائق ہے۔ یقینا اِن کا یہ قدم قابل تقلید ہے۔ یہاں ذکر نوابزدہ حاجی لشکری رئیسانی کا بھی کرتے ہیں۔جن کی قبائلی و سیاسی معمولات ودلچسپیاں اپنی جگہ، ساتھ ہمہ وقت کسی نہ کسی سماجی و معاشرتی و علمی سرگرمی میں بھی مشغول و مصروف رہتے ہیں۔ نوابزدہ حاجی لشکری رئیسانی،صاحب مطالعہ،کتاب بین و کتاب دوست انسان ہیں۔ذاتی ذخیرہِ کتب جامعات، درس گاہوں اور لائبریریوں کو ہدیہ کر چکے ہیں۔ اب ان کامعمول کتابوں کا مطالعہ بعد ازاں لا ئبریوں کو ہدیہ کر نا ہے۔ ان کٹھن ایام میں نوابزادہ کو تھیلیسیما کے مریض بچوں کی فکر دامن گیر ہے۔ ان مریض بچوں کو خون خود بھی عطیہ کر چکے ہیں۔بلوچستان پیس فورم کے تحت ان کے صاحبزادے،، بھتیجوں اور دوسرے احباب و خیر خواہوں نے بھی خون عطیہ کیا ہے۔ یہ کارِ خیر تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ گویا عوام کو اس اہم پہلو پر متوجہ کرنے اور آگے بڑھنے کی شہ و ترغیب د ینے کی سعی میں لگے ہیں۔ یعنی یہ کہ عوام مشکل کی اس گھڑی میں تھیلیسیمیا کے عارضہ میں مبتلا بچوں کو فراموش نہ کریں۔ کہ انہیں ہر ممکن راہ سے خون کے عطیات پہنچا تے رہیں۔ رب کریم ڈاکٹر لال محمد کاکڑ اور نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کو جزائے خیر دے۔ یقینا مجھ سمیت شہر کے ہر با سی کو خیر اور رفاہ عامہ کے کاموں میں حصہ لینا چاہیے کہ اس لمحہ اس کی ضرورت بڑھ کرہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔