... loading ...
کورونا وائرس کی وبائی بیماری کے مسلسل پھیلائوکے سبب دنیا کے 208سے زائید ممالک عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کی جنگ لڑے رہے ہیں ۔گزشتہ روز تک اس کے مریضوں کی تعداد 25 لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور ہلاکتوں کی تعداد پونے دو لاکھ سے زائید ہوچکی ہے۔ اس ہولناک صورتحال نے اب دنیا کے تمام ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا دہے کہ اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم سب کو مل جل کر کیا اقدا مات اٹھانے کی ضرورت ہے ور اس عفریت سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کی کس طرح مدد کریں؟ عالمی سظح پر یکجہتی کا یہ مظاہر پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔اس وبائی بیماری سے نمٹنے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک ویکسین کی تیاری کے لیے ایک دوسرے سے اپنے تجربات شئیر کررہے ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیںجس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کسی مصیبت سے نمٹنے کے لیے ہم سب کو ایک دوسرے کا ساتھ جڑنا ہوگا۔اس امر کا ایک پہلو یہ بھی کہ دنیا کے جتنے بھی ممالک میں کورونا وائرس کے خاتمہ کے لیے ویکسین کی تیاری کو اہمیت دی جارہی ہے وہاں اس حقیقت کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ انسانی زندگی سب سے زیادہ قیمتی ہے اور اس کا تحفظ ہر ملک اور قوم کے لیے بہت ضروری ہے۔ تمام اہل نظر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری زندگی بہت مختصر ہوتی ہے اس لیے ہماری پہلی ترجیح فلاح انسانیت ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں ہم کو جتنی بھی سہولتیں اور آسائیشات میسر ہیں وہ سائینس کے علم کی ترقی کی مرحون منت ہے جس نے ہماری زندگی کو پرسکون اور بنادیا ہے۔سائینسدانوں نے اب تک جتنی بھی اشیاء متعارف کرائیں وہ بلاکسی تفریق کے ہر انسان کو فائیدہ پہنچانے کے جذبہ کے تحت مارکیٹ میں لائی گئیں ہیں تاکہ سب لوگ انھیں استعمال کرسکیں۔
فیس بک کے بانی بل گیٹس کا کہنا ہے کہ جو کوئی بھی شخص روحانی راستہ پر چلتا ہے اسے یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ کیا چیز بہت اچھی ہے،تما م نکات اہم ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور ہم سب کو ایک دوسرے سے نزدیک بھی کرتے ہیں ۔ وہ لوگ جو جانوروں کا گوشت نہیں کھاتے ہیںان کا کہنا ہے کہ مردہ جانوروں کا گوشت کھانے سے انسانی جسم میں بیماریاں پھیلتی ہیں اور اسپتال ان کے مریضوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ان کا کنا ہے کہ ہرسال 70 بلین سے زائید جانوروں کو محض گوشت کھانے کے کے لیے کاٹ دیا جاتا جو انسانوں کی ایک ناقص حکمت عملی ہے۔یہاں اس نقطہ پر غور کرنا چاہیے کہ صحت انسانی ہمیشہ سے ہم سب کے لیے سب سے اہم چیز ہے،جب تک حکومتیں صحت عامہ کے مسائل پر اچھی طرح توجہ نہیں دیتی ہیں کورونا جیسے وائرس ہمیشہ ہمارے لیے خطرے کا باعث بنتے رہیں گے۔
اب ہم سب کو اپنے مسقبل کی بارے میں سوچنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ موجودہ بحران سے ہم کس طرح بہتر طور پر باہر نکل سکیں گے اور یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود اپنی صحت کا خیال کریں اور ادویات کے زیادہ استعمال سے گریز کریں۔ ہم سب کے لیے یہ بہت ضروی ہوگیا ہے کہ ہم یہ باتیں ذہن نشین کرلیں کہ ہم سب برابر ہیں،ہم سب ایکدوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،ہماری صحت بہت قیمتی ہے ،زندگی بہت مختصر ہوتی ہے ،ہمارا اصل کام ہمارا کام نہیں ہے او ر ہم کو اپنی انا پر نظر رکھنی ہوگی۔ہم سب کے لیے یہ بھی ضروری ہیں کہ ہم ایکدوسرے کی مدد کریں اور فائیدہ پہنچائیں،اب ہم کو ایک دوسرے کی خدمت کے لیے جینا ہوگاجس میں اور لوگوں کے علاوہ معاشرہ کے غریب اور کمزور لوگوں کی فلاح کے لیے زیادہ کام کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔
کورونا کے بعد سامنے آنے والی نئی دنیا میں ہمیں اپنی دیکھ بھال پر خود توجہ دینی ہوگی ،ہمیں اس کرہ زمین پر رہنے والے ہر انسان کا خیال کرنا ہوگا،اب ہمیں عالمی انداز فکر کو اپنانا اور اپنی سوچ کا دائیرہ وسیع کرنا ہوگا، ہم سب کو اپنی قومیت،اپنی ثقافت یا کسی اور حوالہ سے اپنی شناخت کے خول سے باہر نکلنا ہوگا کیو نکہ ہوگا کیونکہ کورونا وائرس بلاکسی تفریق کے ہم سب پر حملہ آور ہورہاہے۔ہم سب انسان بنی نوع عالم انسانیت کی خدمت کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دولت،طاقت،خاندانی جاہ و جلال اور وقار یہ سب عارضی چیزیں ہیںکیونکہ زندگی کے اس سفر میں ہم سب مسافر ہیں،قدرت کی نظر میں بھی ہم سب برابر ہیں اس لیے ہمیں اپنی پوری توجہ فلاح انسانیت اور سچ کا ساتھ دینے پر مرکوز کرنی ہوگی۔ہم کو اپنی انا پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے،آپ امیر ہوں یا غریب،جاگیر دار ہوں یا سیاسی رہنما،بڑے تاجر ہوں یا سڑک پر ٹھیلا لگانے والا کورونا وائرس نے سب پر اٹیک کیا ہے،آج کی نسل کے لیے دنیا کو پوری تاریخ میں اس سے بڑی مشال نہیں ہے۔ہم سب کو اس موجودہ صورتحال میں ہمدردی ،رواداری اور سمجھداری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔کورونا وائرس کے بارے میں ہمارے ذاتی خیالات کچھ بھی ہوں اس قطع نظر حکومتوں کو پوری دنیا میں زندگی کو معمول پر واپس لانے کے لیے مل جل کر کام کرنا ہوگا تاکہ شہریوں کو اچھی صحت اور ان کی خوشیاں لوٹائی جاسکیں۔
ہمیں یہ سمجھ لینا ہوگا کہ ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ہم سب جاندار ہیں،ہم سب ایک خدا کی مخلوق ہیں،آپکا جو بھی ایمان ہو یا کسی مذہب سے تعلق ہو یا کوئی اور چیزجو اس بنیادی سچائی کو تبدیل نہیں کرتی ہو،ہماری تخلیق انسانی محبت کی پیداوار ہے اور یہ ہم پر منحصر ہے کہ اس محبت کے ساتھ ہم کس طرح زندہ رہنا سیکھ سکتے ہیں۔کورونا وائرس کے بنا پر لاک ڈاون کی وجہ سے ہمیں اپنی گھریلو زندگی کو خوشیوں انجوائے کرنے کا بڑا نادر موقع ملاہے، اب ہم اپنے والدین کے ساتھ بیٹھ کر وقت گذار سکتے ہیں، انکو بھی اپنی اولاد کے قریب آکر ان کو ضروریات اور مسائل کو سمجھنے کا موقع ملاہے۔ چھوٹے بچے جو اپنے والدین کی آمد کا انتظار کرتے تھے اب انکے ساتھ کھیلنے اور انکی تعلیمی مصروفیات سے آگہی ہورہی ہے،گھر میں بیوی جو شوہر سے وقت نہ دینے کا شکوہ کرتی نظر آتی تھیں اب مسرور ہے ،اس طرح فیملی لائیف کے بارے میں جو ہماری کوتاہیاں تھیں ان کو بھی دور کرنے میں بڑی مدد مل رہی ہے۔کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم صاف ستھرے رہیں،سماجی فاصلہ رکھیں اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ جائیں۔طبی ماہرین کے بقول احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔