... loading ...
دوستو، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ کورونا وائر س پوری دنیا کے لیے عفریت بنا ہوا ہے، دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اس بیماری کا شکار ہیں اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد دنیا فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔۔ماہرین ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈراتے ہیں کہ آنے والے دن مزید خوفناک ثابت ہوں گے۔۔ہمارے وزیراعظم نے تو مئی کا مہینہ انتہائی خطرناک قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ کورونا سے بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا امکان ہے۔یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن دوسری طرف کورونا انسانیت کا محسن بن کر سامنے آیا ہے۔۔ کورونا کی وجہ سے کرہ ارض کی آلودگی لیول پچاس فیصد نیچے آ گیا ہے اور اب اگر کوئی شخص چاند پر کھڑا ہو کر زمین کی طرف دیکھے تو وہ دوربین کے بغیر سات براعظموں کو الگ الگ دیکھ سکتا ہے‘ اور سوتے جاگتے شہروں کا اندازہ بھی کر سکتا ہے۔کورونا اور گلوبل لاک ڈاؤن زمین کو انیسویں صدی میں لے گیا ہے‘ فضا دھل گئی ہے اور ہواؤں میں سبزے کی مہک واپس آ چکی ہے۔صبح صبح پرندوں کی چہکار بھی سننے میں آرہی ہے جو عرصہ دراز سے ہم سننے سے محروم تھے۔۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے دنیا میں پچھلے ایک مہینے میں اموات کی شرح میں 70 فیصد کمی آ گئی ہے‘کیوں؟ کیوں کہ دنیا میں موت کی دس بڑی جوہات ہیں‘ دل کے امراض‘ کینسر‘ حادثات‘ سانس کی بیماریاں‘ دورے‘ الزائمر‘ شوگر‘ انفلوئنزا‘ گردوں کے امراض اور خودکشی‘ ہے۔۔کورونا کی وجہ سے ان تمام امراض سے مرنے والوں کی تعداد میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔۔
ایک طرف تمام اسپتالوں کی او پی ڈی بند ہیں، ایمرجنسی وارڈ میں بھی رش نہیں۔۔سوائے کورونا سے متاثر مریضون کے کوئی نیا مریض اسپتال نہیں جارہا۔۔سڑکوں پر گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے کوئی حادثہ نہیں ہو رہا ہے۔ دل کا دورہ، بلڈ پریشر، برین ہیمریج کی کمی کے واقعات اچانک کم ہوگئے ہیں۔ اتنا اچانک کیا ہوا ہے کہ بیماریوں کے کیس اتنے گر چکے ہیں؟ یہاں تک کہ قبرستان میں مرنے والوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ کیا کورونا نے دیگر تمام بیماریوں کو کنٹرول یا ختم کردیا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں؟کورونا کی وجہ سے اصل حقیقت سامنے آرہی ہے،یہ ایسی سنگین بیماریاں نہیں تھیں،ڈاکٹرز اور نجی اسپتال والے جان بوجھ کر اسے سنگین بنادیتے ہیں۔۔ جب سے کارپوریٹ اسپتالوں کی آمد، ٹیسٹنگ لیبز آئیں، یہ بحران مزید گہرا ہونے لگا تھا۔ لوگوں کو ہلکی سردی، نزلہ اور کھانسی میں بھی ہزاروں روپے میں ٹیسٹ کرنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔ تھوڑی بہت پریشانی میں بھی اندھا دھند آپریشن کیا جارہا تھا۔ مریضوں کو آئی سی یو میں رکھا جارہا تھا۔ علاج کے ذریعہ بیماری کا زیادہ خوف محسوس کیا گیا۔ اب کورونا آنے کے بعد، اچانک یہ سب کیسے رک گیا؟اس لیے کہ نجی اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے دھندے بند ہوگئے۔۔ کورونا کی وجہ سے ایک مثبت تبدیلی یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ ہوٹل میں کھانے پینے والے لوگوں پر پابندی عائد ہوگئی۔ لوگوں نے باہر کے کھابے چھوڑ کر گھر کے کھانے شروع کردیئے۔۔ کورونا کی وجہ سے غیرضروری اخراجات کم ہوگئے۔۔کورونا نے انسانوں کی سوچ کو بدل دیا ہے۔ ہر شخص خواب غفلت سے بیدار ہو گیا۔آج یا کل کورونا تو کنٹرول ہوجائے گا، لیکن اس کے ہی ہماری آج کی زندگی کو جو کنٹرول کیاگیا ہے،اگر ہم اسے اسی طرح کنٹرول میں رکھیں، ضروریات کم کرلیں تو بیماریوں کے ساتھ ساتھ زندگی خوب صورت اور خوشگوار ہوجائے گی۔
وقت وقت کی بات ہے،پہلے تاجر دکانیں بند کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے اور آج کل دکانیں کھولنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر دن نشرمکرر لگ رہا ہے،سونا، اٹھنا، کھانا،پینا، واش روم جانا، نمازیں پڑھنا، قرآن پاک کی تلاوت کرنا، ٹی وی دیکھنا،پھر سوجانا۔۔ باباجی نے نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ شادی کا اصل وقت یہی ہے۔۔جی ہاں، لاک ڈاؤن جب تک ہے جن نوجوانوں کی شادی نہیں ہوئی فوری کرلیں، کیوں کہ بیوٹی پارلرز بند پڑے ہیں، کوئی دھوکا نہیں ہوگا، جو چیز بھی ملے گی”اوریجنل“ ہوگی، فضول رسومات اور کھانے پینے،دکھاوے کے معاملات سے بھی جان چھوٹ جائے گی جس سے لمبے چوڑے خرچے الگ بچ جائیں گے۔۔موسم بھی گرم ہونا شروع ہوگیا، اگلے ہفتے رمضان المبارک ہے، یعنی روزے پھر گرمیوں میں آرہے ہیں۔۔ باباجی نے نوجوانوں کو ایک اور مفت مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ۔۔گرمیوں میں محبت ضرور کرلینا۔۔محبت کا ایک بہت ہی زبردست فائدہ یہ ہے کہ گرم ترین موسم بھی آپ کو موسم عاشقانہ نظر آتا ہے اور آپ شدید گرمی میں بھی گرمی لگنے سے بچے رہتے ہیں۔جو لوگ پھیکے اور میٹھے خربوزے۔۔لال تربوز۔۔اور چھوٹے گوشت اور بڑے گوشت میں فرق نہیں کرپاتے، وہ بھی کہہ رہے ہوتے ہیں ہم بندے کو پہلی نظر میں پہچان لیتے ہیں۔۔یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اتنے پراعتماد ہوتے ہیں کہ ہر کسی کو منہ پر کہہ دیتے ہیں۔۔جایاراپنا کام کر۔۔ مگر وقت وقت کی بات ہے، بعض اوقات اس انسان سے بھی کام پڑہی جاتا ہے جسے آپ نے کبھی کہاہوتاہے کہ جایاراپنا کام کر۔۔ ایسے ہی ایک صاحب ایک بڑے نجی اسپتال میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، گردن میں سریا تھا، ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، لیکن ایک پیر صاحب کے مرید تھے، پیر صاحب کے علاوہ پوری دنیا کو حقیر کیڑے سے بھی بدتر سمجھتے تھے، ایک روز ان صاحب نے دیکھا کہ پیر صاحب اسپتال میں جلوہ افروز ہیں۔۔دوڑ کر گئے، قدموں کو چھوا، ہاتھوں پر بوسہ لیا اور اسپتال آنے کی وجہ دریافت کی۔۔پیرصاحب بولے، گوڈے میں پیڑہے(گھٹنے میں درد ہے) یہاں سے گزررہا تھا سوچا چیک کراتا چلوں۔۔وہ صاحب پیر صاحب کو فوری اپنے ٹھنڈے ٹھار کمرے میں لے گئے،کہا،آپ یہاں تسلی سے بیٹھیں، میں کسی اچھے سے آرتھوپیڈک سرجن سے آپ کا نمبر لگواتا ہوں۔۔چند منٹوں میں سارا کام جھٹ پٹ ہوگیا، پیر صاحب کا نہ صرف چیک اپ ہوگیا، بلکہ سرجن نے جو ادویات لکھیں مرید نے وہ بھی اسپتال کی فارمیسی سے منگوادیں۔۔ جیسے ہی پیر صاحب رخصت ہونے لگے مرید نے ایک بار پھر قدم بوسی کی اور بولا۔۔حضرت ابا کے گردوں میں دردرہتا ہے، کل دم کرانے آپ کے آستانے پر حاضری لگاؤں گا۔۔
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن عوام کے ذہنوں پر کس طرح چھایاہواہ ہے، ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر اپنی آپ بیتی شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ۔۔ میں اور میری اہلیہ گروسری اسٹور پر کچھ شاپنگ کے لیے گئے۔ ہمارے پاس محفوظ رہنے کے لیے چہرے کے ماسک اور چشمے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں لوگوں کا بہت ہجوم تھا۔سوچا کہ کہیں کورونا نہ چمٹ جائے میں نے بیوی کا ہاتھ پکڑ کر اشارے سے گھر واپس جانے کا کہا لیکن اس نے مزاحمت کی اور اس کے رویہ سے لگا کہ وہ ابھی گھر جانا نہیں چاہتی۔ اس کی مزاحمت کے باوجود میں نے اس کا بازو پکڑا اور بنا بولے زبردستی کھینچتے ہوئے اسے کار میں بٹھایا۔راستے میں وہ مجھے نظر انداز کرتی رہی اور غصہ میں بات تک نہیں کی۔ جب ہم گھر پہنچے اور چہروں سے نقاب ہٹائے تو میں یہ دیکھ کے حیران رہ گیا کہ وہ میری بیوی ہی نہیں تھی۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ وقت وقت کی بات ہے، پہلے گاڑیوں کے پیچھے لکھاہوتا تھا، فاصلہ رکھیں۔۔اب یہ انسانوں کے پیچھے لکھنے کی نوبت آگئی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔