... loading ...
کتنے افسوس کی بات ہے کہ سپرپاور امریکا کورونا وائرس کی لپیٹ میں آنے کے بعد بھی ”تکبر“ کی اُسی بلند مقام پر فائز ہے، جہاں آج سے ایک ماہ پہلے براجمان تھا۔ حالانکہ سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکا پر یہ وقت بہت بھار ی ہے اور امریکی شہر ی تاریخ کے کٹھن ترین حالات سے گزر رہے ہیں۔ مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بحران کی اِس مشکل گھڑی میں اپنے پرانے دشمنوں کو دوست بنانے کے کی کوشش کرنے کے بجائے اُلٹااپنے ماضی کے بہترین دوستوں کو بھی،دشمن بنانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ شاید ڈونلڈ ٹرمپ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال پر اپنی انتظامی کوتاہیوں کو تسلیم کرنے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ ا مریکہ میں کورونا وائرس کا ذمہ دار کبھی چین کو قرار دیتے ہیں اور کبھی اِس کا الزام عالمی ادارہ صحت کے سرتھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر سوچنے کی با ت یہ ہے کہ کورونا وائرس کے امریکا میں پھیلاؤ کا سارا الزام چین یا پھر عالمی ادارہ صحت کے کھاتے میں ڈالنے سے کیا امریکا میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ اچانک سے رُک جائے گا؟ یا امریکی شہری کورونا وائرس سے صحت یاب ہونا شروع جائیں گے؟۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے نے امریکا کی مشکلات کو اور بھی زیادہ بڑھا دیا ہے اور کتنی بدقسمتی کی با ت ہے کہ دنیا بھر کی اہم سیاسی شخصیات ڈونلڈ ٹرمپ سے ہزاروں امریکیوں کی ہلاکت پر تعزیت کرنے کے بجائے اُن کے عالمی ادارہ صحت سے متعلق جاری ہونے والے بیانات کی مذمت کررہی ہیں۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ابھی بھی بار بار کورونا وائرس کو ”چائنیز وائرس“ قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ جارحانہ مزاج کے مالک امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اسے’’ووہان وائرس“ کہہ کر پکار رہے ہیں،جس پر چین میں شدید غم و غصہ پایا جاتاہے۔ یوں اَب جواب میں چین میں بھی سوشل میڈیا پر امریکا سے متعلق ایسی خبریں پھیلائی جارہی کہ جیسے کورونا وائرس کی عالمی وبا امریکی فوج نے باقاعدہ اپنے جنگی پروگرام کے تحت پھیلائی ہے۔ چین اور امریکی کی بیان بازی کی وجہ سے دنیا بھر میں افواہوں کا بازار گرم ہے اور آئے روز عالمی ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا پر کورونا وائرس سے متعلق عجیب و غریب سازشی تھیوریاں سامنے آرہی ہیں۔ حالانکہ سائنس دانوں کی ایک بڑی اکثریت یہ ثابت کرچکی ہے کہ کورونا وائرس کی ساخت قطعی طور پر قدرتی ہے اور اِسے کسی لیبارٹری میں بنائے جانے کا اندیشہ بالکل خارج از امکان ہے۔ سائنس دانوں کا یہ بھی اصرار ہے کہ فی الحال اگر سب لوگ کوروناوائرس کے بارے میں طرح طرح کی سازشی تھیوریاں پیش کرنے کے بجائے اگر اِس مرض کا علاج تلاش کرنے کی پیش قدمی کریں تو یہ بنی نوع انسان کے لیے زیادہ مفید بات ہوگی۔ لیکن یہ وہ چھوٹی سی بات ہے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عقل میں نہیں آرہی ہے اور وہ کورونا وائرس کا رشتہ چین کے ساتھ ثابت کرنے میں بضد دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ اِس جرم میں چین کا سہولت کار عالمی ادارہ صحت کو قرار دے رہے ہیں۔ جس کی پاداش میں وہ عالمی ادارہ صحت کی مالی امداد بند کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عالمی ادارہ صحت ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا ہدف ضرور ہے مگر آخری ہرگز نہیں اور ہوسکتاہے کہ وہ بہت جلد اقوام ِ متحدہ پر بھی چین کی اعانت سے کورونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد کردیں۔کیونکہ کورونا وائرس نے عالمی سپر پاور امریکا کی طاقت اور صلاحیت کو بری طرح سے دنیا بھر کے سامنے آشکار کرکے رکھ دیاہے۔ یعنی وہ عالمی طاقت امریکا جس کے بارے میں خیال کیا جاتاتھا کہ اگر دنیا میں کہیں بھی کوئی بڑی آفت یا مصیبت آئی تو امریکا تن تنہا ہی اُس کا مقابلہ کر کے پوری دنیا کو بچالے گا۔ یہ وہ تصور اور خواب تھا جو برسوں سے ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں میں بڑے تسلسل کے ساتھ دکھایا جاتا رہاہے۔ لیکن انسانی آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے ایک چھوٹے سے جرثومے ”کورونا وائرس“ نے اِس خواب کو صرف ایک ماہ کی قلیل مدت میں ہی چکنا چور کر کے رکھ دیا ہے اور عالمی سپر پاور امریکا کو ایک پل میں ہی ہیرو سے زیرو بنا دیا ہے۔ جبکہ امریکا کے مقابلے میں چین جس طرح سے کورونا وائرس کی وبا سے سرخرو ہو کر نکلا ہے،اُس واقعہ نے بھی امریکا کی ساکھ کو بہت سخت نقصان پہنچایا ہے اور اَب ساری دنیا کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے چین کے تجربے، مشاورت، معاونت،امداد اور طبی آلات سے مستفید ہورہی ہے۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ اِس وقت کورونا وائرس کا شکار ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے، جہاں چینی ڈاکٹرز کورونا وائرس کے خلاف اپنی رضاکارانہ خدمات فراہم نہ کررہے ہوں۔یوں سمجھ لیجئے کہ کورونا وائرس کی عالمگیر وبا نے بین الاقوامی سیاسیات کی ساری بساط ہی اُلٹ کر رکھ دی ہے۔
یقینا کورونا وائرس کا یہ دور دنیا کے تمام ملکوں کے انتظامی اور سیاسی ڈھانچوں کے لیے ایک ایسی کڑی آزمائش ہے،جس کا سامنا اِن ملکوں نے کبھی بھی نہیں کیا۔ بلاشبہ اگلی عالمی سپر پاور کی قیادت کو کوروناوائرس کی کسوٹی پر ہی پرکھا جائے گا اور مستقبل میں جائزہ لیا جائے گا کہ کس نے اِس نازک وقت میں کیا فیصلہ کیا،کون سی قیادت نے کتنی فصاحت اور بلاغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ملکی وسائل کتنے مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے کورونا وائرس کی وبا سے مقابلہ کیا۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کورونا وائرس پر جب قابو پا لیا جائے گا تو چین کی معیشت کا دوبارہ اٹھنا دنیا کی تباہ حال معیشت کو بحال کرنے میں اہم عنصر ثابت ہو گا۔ کیونکہ چین حالیہ عالمی حالات سے بھرپور انداز میں فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جبکہ صدر ٹرمپ کے ناقدین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے خود ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ دیے ہیں۔کیونکہ کورونا وائرس کی عالمی وبابہتر طرز حکمرانی،انسانیت کی فلاح و بہبود اور عالمی برتری کے تین عناصر کا ایک مشترکہ امتحان تھا اور اَب تک امریکا اِس امتحان میں برے طریقے سے ناکام ہوتاہوا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب چین بڑی سرگرمی اور انتہائی مہارت کے ساتھ اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو کورونا وائرس کے وبائی بحران میں اپنے آپ کو عالمی لیڈر ثابت کرنے میں امریکی کی ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔