وجود

... loading ...

وجود

کورونا وائرس اور عالمی نظام کی تشکیل نو!

اتوار 19 اپریل 2020 کورونا وائرس اور عالمی نظام کی تشکیل نو!

عالمی وباء کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں جاری”گریٹ لاک ڈاؤن“کی وجہ سے ترقی پزیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں جبکہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے اس ضمن میں اگلے دو برسوں کے دوران عالمی سطح پر”مجموعی پیداوار“ میں 9کھرب ڈالر تک کمی ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔بلاشبہ کورونا وائرس سے جہاں عالمی معیشت خطرے میں پڑگئی ہے وہاں عالمی نظام (ورلڈ آرڈر)کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے اس طرح دنیا کو ایک بار پھر خود کوکسی نئے عالمی نظام کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار کرنا ہوگا لیکن اس بار نیا عالمی نظام مذہبی اعتبار سے ہوگا یا پھر اس بار بھی معاشی بنیادوں پر ہی اس کے خدو خال تراشے جائینگے بہر حال اس کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہوجائے گا۔ چین سے پھیلنے والے”کورونا وائرس“ سے اب تک دنیا بھر میں 21لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 40ہزار سے زائد افراد موت کی آغوش میں جاچکے ہیں۔کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک میں چین، ایران،امریکا،برطانیا، اسپین،اٹلی اور جرمنی جیسے ممالک سر فہرست ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے 180ممالک میں کورونا وائرس نے رسائی حاصل کرلی ہے۔جیسا کہ اوپری سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن کا نفاذ ہے جس کی وجہ سے ان ممالک میں ہر قسم کی کاروباری سرگرمیاں معطل ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے ترقی پزیر ممالک کی معیشتوں پرسنگیں خطرات منڈلانے لگ گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کو وقتی ریلیف دینے کے لیے دنیا کے معاشی اعتبار سے مضبوط 20ممالک کے گروپ (جی۔20)نے پاکستان سمیت دیگر 76 ترقی پزیر ممالک کے 40ارب ڈالر کے قرضے ایک سال کے لیے منجمد کردیے ہیں جن میں پاکستان کے ذمہ آئی ایم ایف،عالمی بینک،ایشیائی ترقیاتی بینک،اسلامی ترقیاتی بینک اور پیرس کلب کے 12ارب ڈالر کی واجب الادا قرضے شامل ہیں۔جی 20ممالک کی جانب سے منجمد کیے جانے والے قرضوں میں سعودی عرب کا حصہ 20ارب ڈالر کا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی اداروں کی جانب سے ملنے والے اس غیر معمولی ریلیف سے پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک کے عوام براہ راست مستفید ہوتے ہیں یا نہیں کیونکہ عالمی اداروں کا یہ قدم خالصتاً انسانی ہمددری کی بنیادوں پر اٹھایا گیا ہے۔بہر کیف آئی ایم ایف کی جانب سے گریٹ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں امریکا اور چین سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مضبوط معیشتوں کی ممکنہ تنزلی کا خدشہ ظاہر کردیا گیاہے اس ضمن میں آئی ایم ایف کی چیف اکناماسٹ گیتا گوپی ناتھ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جاری اس بحران کے نتیجے میں جہاں رواں برس عالمی معیشت 3فیصد تک سکڑ سکتی ہے وہاں اس بحران کے نتیجے میں اگلے دو بروسوں میں عالمی پیداوار میں 9کھرب ڈالر تک کی کمی بھی ہوسکتی ہے یہی نہیں بلکہ 2021میں اگر کورونا وائرس کی نئی لہر آئی تو اس کے نتیجے میں عالمی جی ڈی پی مذید 8فیصد پوائنٹس کے ساتھ نیچے آسکتی ہے جو اس امر کی غمازی ہوگا کہ سرمایہ کار بعض ممالک کو قرض دینے کے لیے تیار نہیں ہونگے جس کی وجہ سے شرح سود میں بھی اضافہ ہوگا۔
آئی ایم ایف کے مطابق 1930کے”گریٹ ڈپریشن“ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ حالیہ بحران کی وجہ سے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر دونوں قسم کی ہی معیشتوں کو ”کساد بازاری“کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس ضمن میں رواں برس امریکا کی معاشی ترقی میں 5.9فیصد کمی آسکتی ہے جو کہ 1941کے بعد امریکا کی معاشی ترقی میں سب سے بڑی سالانہ تنزلی ہوگی جبکہ اس کے نتیجے میں امریکا میں بے روزگاری کی شرح 10.4فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔دوسری جانب چین ہے جہاں حالیہ بحران کے نتیجے میں 1976کے بعد پہلی مرتبہ معاشی ترقی کی رفتار میں واضح کمی دیکھی جائے گی۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گریٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں امریکا اور چین جیسی مضبوط معیشتیں ہلنے جارہی ہیں وہاں پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک کی کمزور معیشتوں کا کیا حال ہوگا جبکہ لاک ڈاؤن کا یہ عمل ابھی تک جاری ہے اور ناجانے کب تک جاری رہے گا۔اس وقت پاکستان اور برطانیہ میں میں لاک ڈاؤن کو بالترتیب دو ہفتوں اور تین ہفتوں تک کے لیے بڑھا دیا گیاہے جبکہ نیویارک میں لاک ڈاؤن میں 15مئی تک کے لیے توسیع کردی گئی ہے۔جہاں تک کورونا وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے لیے ویکسین کی تیاری کا معاملہ ہے تو یہ عمل ابھی تحقیقی مرحلے میں ہے جبکہ ویکسین کی تیاری کا عمل شروع ہونے کے بعد اس کے حتمی ہونے تک تقریباً ڈیڑھ برس سے زائد کا عرصہ درکار ہوگا توپھر ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کا علاج دریافت ہونے تک کیا جائے۔اس سوال کے جواب میں ”سیاسی تقاضا“ تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے جس کے لیے احتیاطی تدابیر کے طور پر لاک ڈاؤن کی ترکیب لڑائی گئی ہے جس میں انسانیت بالخصوص دنیا بھر کے غریبوں کوبھوک کے باعث ”مرنے“جیسے سنگین خدشات کا سامنا ہے جیسا کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے نے ممکنہ کساد بازاری کاخدشہ ظاہر کیا ہے۔مذکورہ سوال کا ”روحانی تقاضا“ یہ ہے کہ ایسے میں رب العالمین سے رجوع کیا جائے،اپنی کوتائیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کی جائے اور آئندہ ایسے کسی عمل سے پناہ مانگی جائے جو اللہ اور اس کے بندوں کے لیے غیر مناسب ہو یعنی حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو ملحوظ خیال رکھا جائے جو سماجی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی انسانیت کے لیے فائدے مند ہوں۔ یعنی دنیا میں ایسا سیاسی نظام ہونا چاہئے جس میں انسانیت کی تکریم کے ساتھ ساتھ مساوی طور پر معاشی حقوق کی ضمانت پائی جاتی ہو جبکہ نئے عالمی نظام کی بنیادی شرائط میں ”سود ی معاشی نظام“ سے اظہار بیزاری بنیادی شرط ہونی چاہئے کیونکہ موجودہ عالمی نظام میں سودی معیشت کو نمایاں حیثیت حاصل ہے اور یہی سودی معاشی نظام دنیا میں معاشی طاقت کے توازن میں بگاڑ کا سبب ہے۔
اس ضمن میں ایک مغربی مصنف ڈاکٹر جان کولیمن کی کتاب ”کونسپیریٹر ہیرار“کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جس میں ایک ایسی عالمی حکومت یا عالمی نظام کا خاکہ پیش کیا گیا تھا جو 1922میں یہودی بینکاروں کی جانب سے غیر محسوس انداز میں متعارف کیے گئے ”نظام“سے مماثلت رکھتا ہے جبکہ اس نظام میں انسانی ذہن پر قابو پانے، جنگوں، ادویات اور قحط کے ذریعے آبادی کنٹرول کرنے اورجنسی آزادی سے لیکر خواتین کی پُرفریب تذلیل تک کے کار ہائے نمایاں ہیں،الغرض اس نظام یا سیاسی مذہب کے ذریعے پوری دنیا کی حکومتیں چند غیر منتخب موروثی افراد کے ہاتھوں دینے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور 1999میں اس حوالے سے دنیا میں بڑی تیزی تبدیلی دیکھنے میں آئی جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے دنیا کے وسائل اور دولت پر اجارہ داری قائم کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ بہر کیف دنیا کو مذید تباہی سے بچانے اور اسے معاشی و اخلاقی طور پر خوشحال اور امن کا گہوارہ بنانے کے لیے شدت کے ساتھ ایک ایسے عالمی نظام کی تشکیل کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے جو انسانیت کو گمراہی سے نجات دلاسکے اور اسے پائیدار ترقی کی جانب گامزن کرسکے۔ ایسے مثالی عالمی نظام کی تشکیل کے لیے ضروری نہیں کہ پوری انسانیت کسی ایک مذہب کی ماننے والی ہوجائے،دنیا بھر کی قومیں اپنے اپنے مذہب میں رہتے ہوئے ایک ایسا مثالی عالمی نظام تشکیل دے سکتی ہے جس میں مذہبی رواداری، ہم آہنگی اور باہمی ترقی کے عوامل لازمی جُز کے طور پر اپنائے جاسکتے ہیں۔بہر حال اس حالیہ عظیم بحران نے ہر ایک قوم کو ”خالق کائنات“ کی ذات اقدس کوشدت کے ساتھ یاد دلایاہے جبکہ کارپوریٹ عالمی نظام کا نتیجہ بھی دنیا کے سامنے ہے جو عظیم قدرت کے سامنے رسوا ہی نہیں بلکہ بے بس بھی دکھائی دے رہا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا خالق کائنات کے آخری آسمانی پیغام یعنی”القران الحکیم“کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرے۔ جیسا کہ آخری نبی الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺنے اپنے زمانے میں تبلیغ اسلام کے سلسلے میں عیسائیت سمیت دیگر مذاہب کے ماننے والے حکمرانوں کے لیے جوخطوط لکھوائے تھے ان میں انھیں انکے اپنے دین کی تردید کی بجائے اس آیت کا حوالہ دیکر اپنا پیغام پہنچایا کہ ”ترجمہ:اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں برابر(یکساں) ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں،نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں“((القران الحکیم،سورہ ال عمران،63/3))۔ جبکہ قران حکیم کی ان دو آیات کو عالمی دستور کے طورپر بھی لیاجاسکتا ہے،پہلی آیت ”ترجمہ: دین کے بارے میں کوئی زبر دستی نہیں ((القران الحکیم،سورہ البقرہ 256/2))۔دوسری آیت”ترجمہ:تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے“((القران الحکیم، سورہ الکافرون،6/109))۔اس حوالے سے شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودیؒ،مولانا ابوالکلام آزادؒاور ڈاکٹر حمید اللہؒجیسے ا عظیم اسکالرز کے ماضی میں لکھے گئے مضامین سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔عالمی وباء کورونا وائرس سے نجات اور انسانیت کی بقاء کے لیے جب عالمی سطح پر ایک ہی طرز کی احتیاطی تدبیر اپنائی جاسکتی ہے تو دنیا کو پُر امن اور خوشحال بنانے کے لیے مثالی عالمی نظام بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر