... loading ...
شہروں کی زندگی نے انسان کو مشین بنادیا ہے۔ نہ بچوں کا ہوش نہ بیوی کے لیے وقت صبح سے شام اور شام سے رات صرف کام کام اور کام۔ ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے کام کرنا ان کی مجبوری ہے ان میں سے اکثر شاید اپنے مزاج کے خلاف مشین بننے پر مجبور ہیں مگر دیہی زندگی آج بھی اسی روائتی انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ دیہات میں آج بھی ماں۔ بہن۔ بیٹی اور ان جیسے سبھی رشتے سانجھے اور مقدس ہیں۔ گاؤں کا چاچا۔ ماما۔ پھوپھا۔ تایا بھی مشترکہ ہی ہوتا ہے۔ بات صرف رشتوں تک محدود نہیں بلکہ گاؤں میں کام کرنے والے موچی۔ تیلی۔ لوہار۔ کمھار۔ نائی اور ان جیسے دیگر (کمی) پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی سانجھے ہوتے ہیں۔ یہاں مسجد کے امام سے درزی تک اپنے نام سے پکارے جانے کی بجائے استاد قرار پاتے ہیں۔ میں ان دنوں اپنے گاؤں میں ہوں تقریباً 22 سال بعد اتنا طویل وقت گاؤں میں بیتانا دلچسپ تجربہ ہے۔ کل ہی اپنے گاؤں کے درزی “استاد ” نذیر سے ملا وہ پوچھنے لگے کہ آپ لاہور جیسے بڑے شہر میں رہتے ہیں صحافت سے تعلق بھی ہے اس حوالے سے ہم دیہاتیوں سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ آپ بتائیں یہ حکومت کب جارہی ہے میں نے جواباً کہا استاد جی یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ میں صحافی ہوں تو میرے پاس کوئی ایسا علم ہے جس سے میں اس حکومت کے خاتمے کی خبر دے سکوں۔ استاد نذیر شاید کسی خبر کے منتظر تھے میری اس بات سے خاصے مایوس ہوئے کہنے لگے آپ تو شاید کسی وجہ سے بتانا نہیں چاہتے۔ میں نے ان کی تسلی کرانے کی پوری کوشش کی کہ میں اس حکومت کے جانے کی پیشنگوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں مگر وہ نہ مانے تنگ آکر کہنے لگے یہ عمران خان مدت پوری نہیں کرے گا۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ تو انہوں نے ایک واقعہ سنانا شروع کیا۔ میرے پاس ایک پٹھان درزی کا کام سیکھتا تھا مجھے عمران خان کو ووٹ دینے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتا میں اس سے پوچھتا یہ کون ہے۔ وہ بتاتا کہ کرکٹ کا کھلاڑی ہے۔ میری کرکٹ سے ذرا برابر دلچسپی نہ تھی اس لیے میں اسے صاف جواب دے دیتا۔ وہ بھی مایوس نہ ہوتا اور مجھے قائل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ایک دن میں نے اس کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا اور سوال کیا کہ آپ کسی دور دراز مسجد میں ہیں جہاں قریب کوئی آبادی نہیں۔ افطاری کا سامان مولوی صاحب نے مسجد کے روشن دان میں رکھا اتفاق سے کسی حادثے کی وجہ سے امام مسجد کو جانا پڑگیا۔ افطار کا وقت ہوگیا اب مسجد میں نہ تو سیڑھی ہے اور نہ ہی کوئی اور چیز جس پر چڑھ کے افطاری کا سامان اتارا جائے۔ آپ مسجد میں بالکل تنہا ہیں کیا کریں گے۔س نوجوان نے جو جواب دیا اس نے میرے رونگٹے کھڑے کردئیے۔ وہ کہنے لگا مسجد میں کچھ بھی نہ ہو تو قرآن پاک ضرور ہوتے ہیں۔ ان کی ڈھیری لگاکر روشن دان سے افطاری کا سامان اتاروں گا۔ میں نے اس کا جواب سنا اور اسے اپنی دکان سے نکل جانے کا حکم دیا۔
استاد نذیر تھوڑی دیر کے لیے رکے میری جانب غور سے دیکھا لمبا سانس لیا اور گویا ہوئے جس شخص کو اپنا سب کچھ ماننے والوں کے شعور کا یہ لیول ہوگا وہ شخص کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ استاد نذیر نے اپنی بات جاری رکھی کہنے لگے کہ ایک وقت تھا پاکستان میں بجلی گھنٹوں غائب رہتی تھی۔ میں دکان میں ایک لمحے کے لیے نہیں بیٹھ سکتا تھا انہوں نے دکان کے سامنے لگے کیکر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا میں صبح سے شام تک اسی کیکر کی چھاؤں تلے گزار دیتا تھا۔ نوازشریف حکومت میں آیا تو آہستہ آہستہ بجلی کے اندھیرے ختم ہونا شروع ہوئے۔ اس کی حکومت ختم ہونے تک بجلی 24 گھنٹے موجود رہنے لگی۔ میرا خیال تھا کہ ن لیگ ایک بار پھر الیکشن جیت جائے گی لیکن جب رزلٹ آیا تو مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ آج جب ملک اس سے پیچھے چلا گیا جہاں سے نوازشریف نے سنبھالا تھا تو مجھے یقین آگیا میرے اس شاگرد اور عمران خان کو لانے والوں کے شعور میں رتی برابر فرق نہیں۔ وہ بھی اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں چاہے عوام کی تمناؤں کے “ڈھیر” پہ پاؤں رکھنا پڑے۔ استاد نذیر (درزی) نے تو اپنی بات ختم اور سلائی مشین چلانے لگے۔ میں وہی بیٹھا ماضی میں کھوگیا میرے استاد حافظ محمد اکرم جن سے میں نے قرآن کریم پڑھا تھا ان سے بہتر مقرر اور اللہ کی دی خوبصورت آواز آج تک میں نے نہیں سنی۔ وہ نعت پڑھتے تو لگتا کانوں میں رس گھول رہے ہوں۔ وہ خطبہ دیتے تو سننے والے وقت کی رفتار بھول جاتے۔ وہ حافظ قرآن تو تھے ہی۔ پرجوش مقرر۔ خطیب اور ثناء خواں بھی تھے۔ حافظ صاحب دم درود کے علاوہ جن بھوت نکالنے اور حساب کتاب کے بھی “ماہر” تھے۔ ان کے شاگردوں میں سب سے کم سن ہونے کی وجہ سے اس کام میں ان کا “معاون ” تھا۔ انہوں نے جب بھی کوئی حساب کتاب لگانا ہوتا وہ میرے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر سیاہی لگادیتے اور میں رٹا رٹایا سکرپٹ پڑھ دیتا۔ بچہ ہونے کے باوجود میں سوچتا کہ استاد لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہا میں نے ناظرہ قرآن مجید ختم کرکے حفظ شروع کیا کچھ سپارے حفظ بھی کرلیے ایک دن استاد جی مجھے کہنے لگے کہ پتر میری بات غور سے سنو۔
میں ہمہ تن گوش ہوگیا وہ بولے تم جانتے ہو میں تمھارے انگوٹھے پر جو عمل کرتاہوں وہ سب “بکواس” ہے۔ میں زبان سے تو نہ بولا البتہ سر ہلاکے استاد کی بات کی تائید کی۔ وہ کہنے لگے یہاں کے لوگوں کی نفسیات کے مطابق کام کرتاہوں اگر میں ان کو سچ بتادوں کہ میں “عامل” نہیں تو یہ شہر میں کسی عامل بابے کے ہاتھ چڑھ جائیں گے۔ وہ ان سے پیسے بھی بٹورے گا اور ان سے خلاف اسلام۔ خلاف شریعت کام بھی کروائے گا۔ ان بابوں کی اکثریت تو جاہل ہے کچھ جادوگر ہیں اور تم جانتے ہو جادو کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ استاد اکرم بتانے لگے کہ بیٹا اب آپ بڑے ہورہے ہو جوانی کی دہلیز پر پہنچ چکے ہو میں نہیں چاہتا کہ میرے شاگرد کے ذہن میں میرے حوالے سے کوئی سوال کھڑا ہو۔ میں اپنے شاگرد کی نظروں سے نہیں گرنا چاہتا۔ حافظ اکرم صاحب چند سال قبل اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے مگر میرے جیسے شاگرد کی نظروں میں استاد کا مقام بہت بلند کرگئے۔ وہ جب تک ہمارے علاقے میں رہے نہ کسی گھر میں چوری ہوئی نہ ہی کسی کا گھر اجڑا۔ چور بھی ان سے خائف تھے کہ حافظ صاحب “حساب” کرکے انہیں پکڑ لیں گے وہ اپنے علاقے کی بجائے دور دراز واردات ڈالتے تھے۔ کوئی عورت لاکھ اختلاف کے باوجود روٹھ کر میکے نہیں بیٹھتی تھی کہ کہیں حافظ صاحب کے ” مؤکل ” اس کا “بھانڈا ” نہ پھوڑ دیں۔ آج جب استاد نذیر نے اپنا واقعہ سنایا تو میں سوچنے لگا کہ استاد اکرم تو بہت بڑے دانشور تھے جو اپنے “فن” کی بدولت علاقے میں امن و امان قائم رکھنے اور لوگوں کے گھر اجڑنے سے بچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ وہ دنیاوی علوم کے قریب سے بھی نہیں گزرے تھے اس کے باوجود اپنے شاگرد کی نظروں میں استاد کا مقام برقرار رکھنے کے لیے سچ بول دیتے تھے۔ “استاد” نذیر اپنے شاگرد کی ایک بات کو اپنے دل پر لے گئے اور اسے اپنی دکان سے نکال دیا کہ جس کی سوچ صرف روٹی تک محدود ہو اور “روٹی” کے چکر میں مقدس کلام کو پاؤں تلے روندے کو گناہ نہ سمجھے ایسا بندہ اس کا شاگرد کہلانے کے قابل نہیں۔ نذیر درزی کا یہ جملہ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہا ہے ایک لقمہ پوری دیگ کا “ذائقہ ” بتانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ میں سوچنے لگا کہ دیہی علاقے کے وہ لوگ جو دنیاوی علم پہ دسترس نہیں رکھتے اپنی دانشمندی سے اپنے علاقے کی بھلائی کرتے ہیں تو ہمارے ادارے جو وسائل سے بھی مالامال ہیں۔ دنیاوی علوم پر مہارت رکھتے ہیں۔ کیا وہ بھی اپنے عوام کی نظروں میں اپنا “وقار” بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لیے ایک “لقمہ” کافی ہے یا پوری دیگ “چاٹیں ” گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔