... loading ...
کورونا وائرس انفیکشن کی وبا کے نقصانات سے بچنے کے لیے لاک ڈاون کا سلسلہ دنیا بھر میں جاری وسار ی ہے جس کے بنا پر عالمی سطح پر جانے پہچانے بڑے مشہور شہرجن میں میں نیویار ک، لندن،پیرس،برلن،شنگھائی،میڈرڈ،ٹورنٹو،اسٹاک ھوم،سڈنی،بارسلونا،کراچی،دہلی اور زیورچ دیگرہ شامل ہیں اب ان کے مصرف ترین کاروباری علاقے، مارکیٹیں اور شاپنگ مالز، نائیٹ کلب،اسٹیڈیم، تفریحی مقامات، مصروف ترین سڑکیں اور گلیاں ویران نظر آتی ہیں،یہ منظر اس دور کے انسانوں کو پہلے کبھی دیکھنے کی نہیں ملا تھا۔سماجی فاصلوں کو کم کرنے پر زور دینے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عالمی آبادی کے ایک بہت بڑے حصہ کو کورونا وائرس سے منتقل ہونے والے بیماری کی شرح اموات کو کم سے کم کیا جاسکے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے روزگاری،معاشرتی تنہائی اور وسیع پیمانے پر ہونے والے مالی نقصانات کے مقابلہ میں ہم ان اقدامات سے ہونے والے فوائید کو کس طرح وزن کرینگے؟۔ اس وقت دنیا کی نصف سے زائید آبادی یعنی چار ارب سے زائید افراد کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی بنا پر اپنی حکوموتوں کی جانب سے اعلان کردہ لاک ڈاون کی پابندی پر مجبور ہیں۔یہ لاک ڈاون کب تک چلنا چاہیے؟جواب بالکل سیدھا سا ہے جب تک ہم اسے ختم نہیں سکتے،لیکن یہ کب ممکن ہوگا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ جب تک ہمارے پاس اس وائرس سے بچاو کی ویکسین نہیں ہوگی یا کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہوتا جس کے لیے کم از کم ایک سال کا عرصہ بھی درکار ہوسکتا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہو تاہے کہ کیا اتنے لمبے عرصہ تک دنیا کے تمام ممالک کو لاک ڈاون پر انحصار کرنا پڑے گا؟ جس نے معمولات زندگی کو یکسر تبدیل کردیا ہے اور اس کے نتیجہ میں پوری دنیا ایک ہولناک اقتصادی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے جسکا اندازہ چھ ٹریلن امریکی ڈالر یعنی چھ کھرب روپے لگایا جارہا ہے۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ” ہم اس بیماری کو بیماری سے زیادہ خراب نہیں ہونے دے سکتے ہیں ” لاک ڈاون کے نتیجہ میں ہم کورنا وائرس کی بیماری سے ہونے والی شرح اموات کو کم تو کرسکتے ہیں اور دیگر منتقل ہونے والی بیماریوں سے بھی، لیکن اس کے بھی حقیقی معاشی اثرات ہیں ہیں جن میں معاشرتی تنہائی،بے روزگاری اور اقتصادی دیوالیہ پن قابل ذکر ہیں جن کے ابھی تک پورے اثرات سامنے نہیں آسکے ہیں، مگر جلد سامنے بھی آسکتے ہیں۔کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اس وقت تجارت دنیا بھر میں عملی طور پر بند ہوچکی ہے کیونکہ زندگی اور معیشت کو بچانے کے لیے لاک ڈاون کا عمل بہتر ہے، اگر ہم کووڈ2019 کو ختم کرنے سے قبل لاک ڈاون ختم بھی کردیتے ہیں تو کچھ لوگ اس بنا پر مرجائیں گے جو دوسری صورت میں زندہ رہتے، اس لیے جان بچانے اور معیشت بچانے کے مابین کاروباری سرگرمیوں سے بچنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔یہ کہنا بظاہر محفوظ ہے کہ لاک ڈاون ختم کرنے کا وقت اس اگلے ماہ یا اس سال کے درمیان کسی بھی وقت ہے،لیکن یہ بھی زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوسکتا ہے،اگر ہم اس سے زیادہ مناسب جواب چاہتے ہیں تو ہمیں کاروباری سرگرمیوں کی بحالی کے لیے بہت سنجیدگی کے ساتھ غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ کیسے ممکن ہوگا؟۔سب سے پہلے ہمیں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ممکنہ اخراجات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے،ماہرین نفسیات نے ہماری ایک اخلاقی کمزوری کی نشاندہی کی ہے جس کے مطابق ہم کسی مخصوص فرد کی امداد کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں بجائے اس کے کہ ہم بلا کسی امتیاز کے زیادہ سے زیادہ مریضوں کی بے لوث مدد کریں، بحیثیت ایک انسان ہمیں جتنا ممکن ہوسکے زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرنا چاہیے اور یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کس کو زیادہ فائیدہ پہنچ رہا ہے؟
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تجارتی سرگرمیوں کو معطل کرنے کے لیے مختلف نتائج کو قدر کی ایک اکائی میں تبدیل کرنا ضروری ہے۔موجودہ سوچ بچار کے دوران ایک مسلہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کیا ہم کو انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے اپنی معیشت کا گلا گھونٹ دینا چاہیے یا یہ کہ ہم اپنی جی ڈی پی کا زندگی بچانے کے عمل کے ساتھ موازنہ کرسکتے ہیں،ہم کو انھیں کسی ایک مشترکہ یونٹ کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے،پیش رفت کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس بات پر غورکیا جائے کہ اگر لاک ڈاون کی مدت طویل ہوسکتی ہے تو کیا ملکی معیشت ڈاکٹروں،نرسوں اور ادویات و آلات خریدنے کے اخراجات کی متحمل ہو سکتی ہے۔اگر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لاک ڈاون کا معاشی نظام پرکتنا اثر پڑسکتا ہے اور اس بات کا جائیزہ لیں کہ بعد میں ملکی معیشت کے آئیندہ کتنے سال تک ان اخراجات کا بوجھ برداشت کرنے پر مجبور ہونگے یہ بات بڑی اہم ہے۔
کورونا وائرس انفیکشن کے سبب دنیا بھر میں جو ہولناک تباہی و بربادی سامنے آرہی ہیں ان میں صرف امریکا میں صرف دو ہفتوں کے دوران ایک کروڑ افراد بے روزگار کردئے گئے،بھارت میں لاک ڈاون کی بنا پر لاکھوں تارکین وطن مزدور تباہ و برباد ہوگئے ہیں جن کے پاس روزگار کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے، پاکستان میں لاکھوں مزدور بے یارو مددگار ہوچکے ہیں،بے روزگاری کی خبریں دنیا بھر میں ایک ڈراونا خواب بن گئی ہیں جو ہمیں ایک صحتمند زندگی کی کاسٹ پر برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔فلاح انسانیت کے لیے براہ راست سوچنے پر ہم اس امر کا موازنہ کرنے پر مجبور ہیں کہ بے روزگاری فلاح انسانی پر خطرناک اثرات مرتب کررہی ہے۔حاصل شدہ معلومات سے ہم لاک ڈاون کے انسانی نقصانات کا موازنہ زندگی کو بڑھا کر حاصل ہونے والی بھلائی سے کرسکتے ہیں۔ایک وسیع تر تجزیہ میں دوسرے اثرات بھی شامل ہیں جیسے معاشرتی تنہائی اور اضطراب،یہ بھی معلوم نہیں کہ لاک ڈاون کب ختم ہوسکے گا؟۔
کووڈ 2019ابھی کچھ عرصہ اور ہمارے ساتھ رہے گا،کیا حکومتوں کی جانب سے نافذ کردہ لاک ڈاون مزید کچھ اور مہینوں جاری رکھنے والے پالسی درست ہوگی یہ ہم نہیں جانتے ہیں، اخلاقی فلسفہ کی حیثیت سے ہم خود بھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے ہیں۔تحقیق کاروں کو اثر انداز کرنے کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ دولت اور صحت کا تقابل کیا جائے اور نہ ہی دولت اور صحت کے لحاظ سے۔
ہمیں انسانی جانیں زیادہ عزیز ہیں یا معیشت اس ضمن میں ہمیں ٹھوس فیصلے کرنے ہونگے۔معاشی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے لاک ڈاون ختم کرنے کا فیصلہ کربھی لیا جائے اور کورونا وائرس کے مریضوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو کیا یہ حکومتی فیصلہ قابل تعریف ثابت ہوسکے گا اس کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہیں۔حکومتوں کو اس حقیقت کی بھی سمجھنا چاہیے کہ جب کوئی بھی شہری اپنے تمام حقوق ریاست کے حوالہ کردیتا ہے تو ریاست کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو روزگار،تعلیم،سماجی انصاف اور علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم کرے اس لیے معاشی مفادات سے قطع نظر حکومت کے لیے صحت عامہ کا خیال رکھنا زیادہ ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔