... loading ...
میں اس وقت مزار قائد کے نزدیک تھا، جب میں نے ایک شدید دھماکہ کی آواز سنی، صدر کی جانب سے آنے والی اس مہیب اور ہولناک دھماکے کے ساتھ ہی فضا میں گرد و غبار دھواں اور آگ کے بلند شعلہ نظر آئے۔ اس وقت ہر طرح کا ٹریفک کا رخ صدر کی جانب تھا۔ میں بھی موٹر سائیکل پر اس طرف روانہ ہوگیا۔ میرے کیمرہ بھی تھا۔ یہ 14 جولائی 1987 کی سہ پہر کا وقت تھا۔ صدر کے بازارون میں افراتفری کا عالم تھا، کسی کو نہیں معلوم تھا کیا ہوا ہے۔ لیکن دھواں، آسمان کی طرف لپتے شعلے، شور، رونے اور چیخنے کی آوازیں ایسی تھی کہ دل دہل رہا تھا۔ میں نے موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کی اور کیمرہ سنبھال کر تصویر بنانا شروع کی تو چند ہی لمحوں میں گھبرا گیا، ایمولینس کا سائرن، پولیس کی موبائیلں، زخمیوں کی آہ بکا اور ا مدد کے لیے چیخ و پکار ایسی تھی کہ ہوش و حواس لمحوں میں ہی اڑ گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا بم دھماکہ تھا، جو صدر کے بوہری بازار میں ہوا تھا۔ جس کے نتیجے میں 87 افراد تو پہلے ہی دن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 100 سے زائد افراد اس دلخراش واقعے میں زخمی ہوئے، جن میں سے بہت سے اگلے دنوں میں ملک راہی عدم ہوگئے تھے۔
میں ان دنوں ہفت روزہ تکبیر کے لیے کراچی کی ڈائری خرم بدر کے نام سے لکھتا تھا۔ جس وقت دھماکہ ہوا تھاصدر بوہری بازار میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ شام کے وقت لوگ شاپنگ میں مصروف تھے، بہت سے خاندان بچوں سمیت وہاں موجود تھے کہ اچانک زوردار دھماکا ہوا،جس کیبعد ہرطرف لاشیں اور زخمی بکھرے پڑے تھے۔بہت سے خاندان پل بھر میں بکھر گئے تھے۔ کوئی اپنے بچوں کو اور کوئی اپنے ماں باپ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ کوئی باپ اپنے بچوں کے لیے کھلونے خرید رہا تھا تو کوئی ماں اپنے بچوں کے اسکول کے لیے کتابیں اور بستے خریدنے ا?ئی ہوئی تھی، سب لوگ اپنی اپنی پسند کی چیزیں خریدنے میں مصرو ف تھے، ہر طرف گہما گہمی تھی کسے پتا تھا کہ اب سے کچھ دیر بعد یہاں موت کا فرشتہ پر پھیلائے کھڑا ہوگا۔ بازار میں کھڑی گاڑیوں کے اندر سے شعلے بلند ہورہے تھے۔ اب لوگوں کے مرنے کی اطلاعات اور ان کی لاشیں ایمبولینس میں لیجائی جارہی تھی۔ اچانک درجنوں افراد کی موت اور سینکڑوں لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ میں وہاں سے جناح اسپتال کی جانب چلا گیا، یہاں ہر طرف زخمی ہی زخمی افراد تھے، کسی کا ہاتھ، تو کسی کا پیر غائب، بستر کہاں تھے، لوگ کوریڈور، اور مختلف جگہوں پر پڑے تھے، ڈرپ ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی تھی، ہر طرف خون بہہ رہا تھا، ہولناک مناظر تھے۔ میں نے بہت سی تصاویر بنائی، اور پھر اپنی رہائش ون بی لالہ زار کی جانب روانہ ہوگیا۔
یہ اسٹوری مجھے رات ہی مکمل کرنی تھی، اگلے دن پر چہ پریس میں جانا تھا۔ ایڈیٹر محمدصلاح الدین نے تاکید کی تھی کہ جلد سے جلد اسٹوری بھیج دیں۔ تکبیر کا دفتر ان دنوں نامکو سینٹر کیمبل اسٹریٹ پر تھا۔ رات کے آخری پہر میں نے یہ اسٹوری لکھی، اور صبح تصاویر کے ساتھ محمد صلاح الدین صاحب کے حوالے کردی۔ یہ تکبیر کی ٹائیٹل اسٹوری تھی۔ جسے پڑھ کر بہت سے لوگ رو دیئے تھے۔ لکھنے کو تو میں نے یہ اسٹوری لکھ دی، لیکن پھر تین دن تک میں سو نہ سکا، یہ ہولناک مناظر اور زخمیوں کی آہ بکا، اور لاشیں مجھے ہر وقت نظر آتی۔ میری عمر اس وقت 34 برس ہوگی، میں یہ صدمہ جھیل تو گیا، لیکن پھر میں نے آئندہ اس طرح کی رپورٹنگ کبھی نہ کی۔ 3 دن تک شہر میں سوگ کا سماں تھا۔ کراچی کے ہر علاقے سے جنازے اٹھ رہے تھے، ک ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھا ئے جا رہے تھے۔ پورا شہر سوگ میں ڈوبا ہوا تھا، ہر طرف سوگواری کی کیفیت طاری تھی۔ ہر ا?نکھ اس اشکبار تھی۔ جنازوں میں لوگ بہت جذبات میں نظر ا?رہے تھے۔ کراچی اس دل پہلی بار کرچی کرچی ہوا تھا، اس کے بعد تو کراچی کے جسم پر لگنے والے زخموں کا شمار ہی نہ رہا۔کچھ لوگ اسے شہر میں اقتدار کی جنگ، اور کچھ اسے افغانستان میں پاکستان کی جنگ والی پالیسی میں شرکت کا شاخسانہ بھی قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس واقعہ سے قبل کراچی اس بات پر آتش فشاں بنا ہوا تھا کہ میئر کراچی عبدالستار افغانی نے کراچی بلدیہ کی جانب سے موٹر وہیکل ٹیکس وصولی کا حق مانگا تھا۔ حکومت سندھ نے بلدیہ سے وہیکل ٹیکس لینے کا اعلان کیا تو 3 فروری 1987ء کو بلدیہ کراچی نے اسے مسترد کر دیا اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، جس کے بعد میئر کراچی عبدالستار افغانی کو میئر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ کونسل توڑ دی گئی۔ کراچی کے اس بم دھماکے میں یہ مطالبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔