وجود

... loading ...

وجود

جب کراچی پہلی بار کرچی کرچی ہوا

جمعرات 16 اپریل 2020 جب کراچی پہلی بار کرچی کرچی ہوا

میں اس وقت مزار قائد کے نزدیک تھا، جب میں نے ایک شدید دھماکہ کی آواز سنی، صدر کی جانب سے آنے والی اس مہیب اور ہولناک دھماکے کے ساتھ ہی فضا میں گرد و غبار دھواں اور آگ کے بلند شعلہ نظر آئے۔ اس وقت ہر طرح کا ٹریفک کا رخ صدر کی جانب تھا۔ میں بھی موٹر سائیکل پر اس طرف روانہ ہوگیا۔ میرے کیمرہ بھی تھا۔ یہ 14 جولائی 1987 کی سہ پہر کا وقت تھا۔ صدر کے بازارون میں افراتفری کا عالم تھا، کسی کو نہیں معلوم تھا کیا ہوا ہے۔ لیکن دھواں، آسمان کی طرف لپتے شعلے، شور، رونے اور چیخنے کی آوازیں ایسی تھی کہ دل دہل رہا تھا۔ میں نے موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کی اور کیمرہ سنبھال کر تصویر بنانا شروع کی تو چند ہی لمحوں میں گھبرا گیا، ایمولینس کا سائرن، پولیس کی موبائیلں، زخمیوں کی آہ بکا اور ا مدد کے لیے چیخ و پکار ایسی تھی کہ ہوش و حواس لمحوں میں ہی اڑ گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا بم دھماکہ تھا، جو صدر کے بوہری بازار میں ہوا تھا۔ جس کے نتیجے میں 87 افراد تو پہلے ہی دن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 100 سے زائد افراد اس دلخراش واقعے میں زخمی ہوئے، جن میں سے بہت سے اگلے دنوں میں ملک راہی عدم ہوگئے تھے۔
میں ان دنوں ہفت روزہ تکبیر کے لیے کراچی کی ڈائری خرم بدر کے نام سے لکھتا تھا۔ جس وقت دھماکہ ہوا تھاصدر بوہری بازار میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ شام کے وقت لوگ شاپنگ میں مصروف تھے، بہت سے خاندان بچوں سمیت وہاں موجود تھے کہ اچانک زوردار دھماکا ہوا،جس کیبعد ہرطرف لاشیں اور زخمی بکھرے پڑے تھے۔بہت سے خاندان پل بھر میں بکھر گئے تھے۔ کوئی اپنے بچوں کو اور کوئی اپنے ماں باپ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ کوئی باپ اپنے بچوں کے لیے کھلونے خرید رہا تھا تو کوئی ماں اپنے بچوں کے اسکول کے لیے کتابیں اور بستے خریدنے ا?ئی ہوئی تھی، سب لوگ اپنی اپنی پسند کی چیزیں خریدنے میں مصرو ف تھے، ہر طرف گہما گہمی تھی کسے پتا تھا کہ اب سے کچھ دیر بعد یہاں موت کا فرشتہ پر پھیلائے کھڑا ہوگا۔ بازار میں کھڑی گاڑیوں کے اندر سے شعلے بلند ہورہے تھے۔ اب لوگوں کے مرنے کی اطلاعات اور ان کی لاشیں ایمبولینس میں لیجائی جارہی تھی۔ اچانک درجنوں افراد کی موت اور سینکڑوں لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ میں وہاں سے جناح اسپتال کی جانب چلا گیا، یہاں ہر طرف زخمی ہی زخمی افراد تھے، کسی کا ہاتھ، تو کسی کا پیر غائب، بستر کہاں تھے، لوگ کوریڈور، اور مختلف جگہوں پر پڑے تھے، ڈرپ ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی تھی، ہر طرف خون بہہ رہا تھا، ہولناک مناظر تھے۔ میں نے بہت سی تصاویر بنائی، اور پھر اپنی رہائش ون بی لالہ زار کی جانب روانہ ہوگیا۔
یہ اسٹوری مجھے رات ہی مکمل کرنی تھی، اگلے دن پر چہ پریس میں جانا تھا۔ ایڈیٹر محمدصلاح الدین نے تاکید کی تھی کہ جلد سے جلد اسٹوری بھیج دیں۔ تکبیر کا دفتر ان دنوں نامکو سینٹر کیمبل اسٹریٹ پر تھا۔ رات کے آخری پہر میں نے یہ اسٹوری لکھی، اور صبح تصاویر کے ساتھ محمد صلاح الدین صاحب کے حوالے کردی۔ یہ تکبیر کی ٹائیٹل اسٹوری تھی۔ جسے پڑھ کر بہت سے لوگ رو دیئے تھے۔ لکھنے کو تو میں نے یہ اسٹوری لکھ دی، لیکن پھر تین دن تک میں سو نہ سکا، یہ ہولناک مناظر اور زخمیوں کی آہ بکا، اور لاشیں مجھے ہر وقت نظر آتی۔ میری عمر اس وقت 34 برس ہوگی، میں یہ صدمہ جھیل تو گیا، لیکن پھر میں نے آئندہ اس طرح کی رپورٹنگ کبھی نہ کی۔ 3 دن تک شہر میں سوگ کا سماں تھا۔ کراچی کے ہر علاقے سے جنازے اٹھ رہے تھے، ک ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھا ئے جا رہے تھے۔ پورا شہر سوگ میں ڈوبا ہوا تھا، ہر طرف سوگواری کی کیفیت طاری تھی۔ ہر ا?نکھ اس اشکبار تھی۔ جنازوں میں لوگ بہت جذبات میں نظر ا?رہے تھے۔ کراچی اس دل پہلی بار کرچی کرچی ہوا تھا، اس کے بعد تو کراچی کے جسم پر لگنے والے زخموں کا شمار ہی نہ رہا۔کچھ لوگ اسے شہر میں اقتدار کی جنگ، اور کچھ اسے افغانستان میں پاکستان کی جنگ والی پالیسی میں شرکت کا شاخسانہ بھی قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس واقعہ سے قبل کراچی اس بات پر آتش فشاں بنا ہوا تھا کہ میئر کراچی عبدالستار افغانی نے کراچی بلدیہ کی جانب سے موٹر وہیکل ٹیکس وصولی کا حق مانگا تھا۔ حکومت سندھ نے بلدیہ سے وہیکل ٹیکس لینے کا اعلان کیا تو 3 فروری 1987ء کو بلدیہ کراچی نے اسے مسترد کر دیا اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، جس کے بعد میئر کراچی عبدالستار افغانی کو میئر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ کونسل توڑ دی گئی۔ کراچی کے اس بم دھماکے میں یہ مطالبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر