... loading ...
کورونا وائرس انفیکشن کے سبب دنیا کے دو سو سے زائد ممالک مریضوں کی تعداد میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی ا موات پر قابو پانے کی جدوجہدپر مجبور ہیں اور اندازہ لگایا جارہا ہے کہ دنیا کے بیشترممالک کو اس سال جون کے مہینے تک انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے لاک ڈاون لازمی طور پر کرنا پڑے گا۔ترقی پذیر ممالک جن کی معیشت کا انحصار بیرونی قرضوں اور امداد پر ہوتا ہے ان ممالک میں صنعتی ترقی کا پہیہ رک جانے، کاروباری سرگرمیاں معطل ہوجانے،اسٹاک مارکیٹ کی مندی، ٹریولینگ اور ٹورازم مانند پڑجانے،ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام ہوجانے،شاپنگ سینٹرز، شادی ہال،سینیمااور ریسٹورینٹس کے بند کردینے کی بنا پر ٹیکسز کی وصولیابی نہ ہونے کی بنا پر ان کی معاشی ترقی بری طرح تباہی کی جانب گامزن ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر ان ممالک نے اس عفریت کا مقابلہ کرنے کے لیے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پلاننگ نہ کی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بیشتر ممالک اقتصادی طور پر دیوالیہ قرار دئے جاسکتے ہیں۔ اس وقت یہ کہنا مشکل ہوگا کہ ایشیائی،یورپی،افریقی اور امریکی ممالک کورونا وائرس کی بنا پر پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے مستقبل میں کیا اقدامات اٹھاسکتی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ترقی پذیر ممالک میں صارفین کی جانب سے روز مرہ کی اشیاء کی خریداری کی طلب میں خاصی کمی واقع ہو سکتی ہے کیونکہ وہ صارفین جن کو مالی مسائل کا سامنا نہیں ہیں انہوں نے لاک ڈاون شروع ہوتے ہی تین سے چار ماہ تک کی اشیاء ضرورت کی خریداری کرلی ہے۔
اس امر کا بھی امکان ہے کہ فوڈز،طبی سامان اور دیگر ضروری اشیاء کی طلب میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ موجودہ حا لات میں خوراک،طبی سہولیات اور دیگر ضروری اشیاء کی طلب میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن یہ غیر ضروری اشیاء جن میں ملبو سات،کاسمیٹکس، زیورات اور دیگر شامل ہیں کی طلب میں کمی کی بنا پر ممکن ہوا ہے۔کچھ دیگر فیکٹرز کی بنا پر طلب میں کمی واقع ہوئی ہے جن میں غیر ملکی خریداروں کی جانب سے تاخیر یا انکے آرڈز واپس لے لینے، ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں کمی، اور اسٹاک مارکیٹوں میں مسلسل مندی کا رحجان شامل ہیں لوگوں کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے اور ان میں خریداری کے رحجان سے دلچسپی میں کمی ہوئی ہے۔وہ ممالک جن کے بیرون ملک کام کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد ہے جن میں پاکستان،بھارت،سی لنکا،فلپائین،اور تھائی لینڈ قابل ذکر ہیں میں کورونا وائرس کی بنا پر ملازمتوں سے فارغ کردینے کی وجہ سے ترسیل زر میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ڈومیسٹک صارفین کی جانب سے اشیاء کی خریدار میں کمی کی بنا پر صنعتی پیدار میں کمی اوربے روزگاری میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ صارفین کی طلب میں کمی کا مینوفیکچرنگ سیکٹر پر کم اثر پڑے گا،جہاں کمپنیوں کو کریڈٹ کی سہولت ہو تو وہ تیار شدہ اشیاء کا بڑا ذخیرہ کرکے پیداوار میں کمی یا لیبر کا نکالنے سے بچ سکتے ہیں،تاہم چھوٹے پیمانے کے سروس سیکڑ پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔سپلائی سائیڈ پر ترقی پذیر ممالک میں خام مال کی برآمد اور اسپئیر پارٹس کی کمی کی بنا پر ان کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔بہرحال ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں اس کا اثر بہت کم ہوگا کیونکہ وہاں طویل سپلائی چین توقعات سے معمول کے مطابق ہے۔علاوہ ازیں فیول کی قیمتوں میں کمی کا فائیدہ ترقی پذیر ملکوں کو پہنچے گا جو بڑی مقدار میں اس کی درآمد کرتے ہیں۔قلیل مدتی طلب اور رسد کے اثرات کی شدت اور مدت کا انحصار کورونا وائرس کے پھیلاو پر قابو پانے کے لیے مختلف حکومتوں کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر ہے۔
اگر کورونا وائرس تیزی کے ساتھ پھیلنے کے آثار دکھائی دینگے جیساکہ اس وقت یورپی اور امریکی ممالک میں ہورہا ہے تو حکومتیں غیر ضروری سامان فروخت کرنے والی فیکٹریاں اور دکانیں بند کرنا شروع کرسکتی ہیں۔اس وقت پاکستان اور بھارت میں لاک ڈاون کا عمل جاری ہے جس کی بنا پر جی ڈی پی او ر محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی بری طرح متاثر ہوسکتی ہے اور یہ تین سے پانچ فیصد تک ہوسکتی ہے جیساکہ اٹلی میں اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر آبادی کا غریب طبقہ ہوگا جن میں دیہی اور شہری علاقوں میں ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے افراد شامل ہیں۔بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں حکومتی سطح پر عوام کو سماجی تحفظ فراہم کرنے کے لیے کام کرنے والے ادارے موجود نہیں ہیں اس لیے برا وقت کا سامنا کرنے پر انھیں اپنے دوستوں،پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے مدد طلب کرنی پڑتی ہے۔اس صورتحال نجی شعبہ میں کام کرنے والے فلاحی ادارے آگے آتے ہیں جیسا کہ اس وقت دیکھا جارہا ہے،یہ فلاحی ادارے غریبوں کی مالی امداد،خوراک کی فراہمی،کام پر نہ جاسکنے والے افراد کو تنخواہ پہنچانا اور طبی امداد کی فراہمی کے لیے آگے آتے ہیں۔بہر حال ان فلاحی کاموں کے سلسلے میں سول سوسائیٹی کی تنظیموں،این جی اوز،مذہبی گروپوں کو بڑے بڑے عطیات بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔بے شمار ملکوں میں یہ تنظیمیں غریب لوگوں کی امداد کے لیے کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور بڑے بڑے شہروں بشمول کراچی میں خوراک کی فراہمی اور دیگر امدادی کام میں مصروف نظر آتی ہیں۔حالانکہ کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ وبائی بیماری کب تک پھیلتی رہے گی لیکن یہ امر بالکل واضح ہے کہ صرف پرائیٹ سیکٹر کے میکانزم سے اس وباء پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے، دوسری جانب یہ میکانزم دیہی علاقوں میں کافی کمزور نظر آتا ہے کیونکہ دور دور تک پھیلی ہوئی بستیوں میں متاثرہ افراد تک پہنچنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔
پرائیوٹ سیکٹر کی جانب سے قابل تعریف فلاحی سرگرمیوں کے باوجود حکومت کو بھی دیہی علاقوں میں پہلے سے موجود اپنی سرکاری مشینری کو فعال کرنے کی ضرورت ہے جن میں پولیس اسٹیشن،ہیلتھ کلینکس اور زرعی و لائیو اسٹاک کے دفاترز شامل ہیں تاکہ متاثرہ لوگوں کو خوراک کی فراہمی،میڈیکل اور مالی معاونت فراہم کی جاسکے۔ان سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے حکومت اپنے دیگر جاری منصوبوں کے فنڈز غریب طبقہ کی امداد کے لیے منتقل کرسکتی ہے۔دیہی علاقوں کے یہ غریب افراد جنکی آمدنی بہت محدود ہوتی ہے حکومت کی کوشش سے ان کے علاج معالجے کے اخرجات برداشت کیے جاسکتے ہیں اور اس ضمن میں عالمی فلاحی اداروں کو بھی متحرک کیا جاسکتا ہے۔ٰیہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے پھیلاو پر قابو پانے کے لیے ورلڈ بنک نے 12بلین،ایشیائی ترقیاتی بنک نے 6 اعشاریہ 5 بلین اور آئی ایم ایف نے 50 بلین امریکی ڈالرز کی رقوم مختص کی ہیں جبکہ انٹرنیشنل این جی اوز کی جانب سے مختص کی جانے والی رقوم اس کے علاوہ ہیں۔اس کے علاوہ عالمی فوڈ پروگرام بھی ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے جس کو اس قسم کی مشکل صورتحال میں متاثرہ علاقوں میں سامان کی ترسیل اور وسائل میں اضافہ پر خصوصی مہارت اور تجربہ ہے۔اس موقع پر حکومت جو دو اہم امدادی پیکیچز کی پالیسی پر وضع کرسکتی ہے جن میں شرح سود اور ایکسچینج ریٹ میں کمی کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔اسٹیٹ بنک کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شرح سود میں کمی کا اعلان کرے اور کمرشل بنکوں کو ہدایت کرے کہ وہ صارفین اور بزنس مینوں کو پہلے سے دئے گئے قرضوں پر بھی اس کا اطلاق کرے۔
حکومت کو عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا بھی فائیدہ اٹھانا چاہیے اور اس کا فائیدہ صارفین کو بھی منتقل کرنا چاہیے خاص طور پر انڈسٹریل اور کمرشل صارفین کو جنکو تیل اور بجلی کے نرخوں میں کمی کرکے اس کے ساتھ ڈیزل کی قیمتیں بھی کم کرنا ہونگی جوکہ زیادہ تر زراعت،صنعت اور ٹرانسپورٹ سیکٹرز میں استعمال کی جاتی ہے۔کیا یہ اقدامات کافی ہونگے،بالکل نہیں اس کے لیے ترقی یافتہ ممالک کو بھی جتنی ممکن ہو سکے مدد کریں،ہمارا عظیم دوست چین اس مشکل وقت میں ایشیاء اور افریقہ کے بہت سے ممالک کو ضروری میڈیکل آلات اور فنی معاونت فراہم کررہا ہے۔امریکا اور یورپی ممالک کو اپنی حدود سے نکل کر ترقی پذیر ممالک کی معاونت کا دائیرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ایک اور مطالبہ جو ان ممالک سے کیا جارہا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک جوکہ کورونا وائرس کی وباء سے شدید متاثر ہوئے ہیں ان کو دئیے جانے والے قرضے یا تو معاف کردیں اور یا انکی ادائیگی ریشیڈول کردیں تاکہ یہ ممالک اس رقم کو اپنے عوام کے لیے جاری فلاحی سرگرمیوں کو مزید بہتر طور پر انجام دے سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔