... loading ...
دوستو،کسی بزرگ نے ایک بار ہمیں کہاتھا۔۔پتر ناکامیوں کو سنبھال کر رکھا کر یہ مثالی کامیابی کی کنجی ہوتی ہیں۔۔ ہمیں یہ بات تب سمجھ میں نہیں آئی تھی مگر اب احساس ہوتا ہے ناکامی ایندھن کا کام بھی تو کرتی ہے بڑی منزل تک پہنچنے کے لیے زیادہ ایندھن درکار ہوتا ہے شاید اس سے یہ مراد ہو۔۔ کبھی خیال آتا ہے شاید چونکہ ہر ناکامی ایک نیا سبق دیتی ہے جو علم میں اضافہ کا سبب بنتا ہے اور مثالی کامیابی علم کے بغیر ممکن نہیں شاید ان کی یہ مراد ہو قیاس ہی کر سکتا ہوں مطلب سمجھنے میں مگر جس پہلو سے بھی دیکھو بات سچی ہی معلوم ہوتی ہے۔۔ اردو کے معروف شاعر ساقی فاروقی کالم نگاری کو ادب سے گھٹیا درجے کی شے قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ کالم نگاری جلدی میں لکھا ہوا ادب ہے۔ لیکن ساقی فاروقی اخباری کالموں کو ادب سے نچلا درجہ دینے کی دیگر وجوہ بیان کرتے ہیں۔ ساقی فاروقی کے مطابق اخباری کالم تین چھلنیوں سے چھن کر اپنے قارئین تک پہنچتا ہے۔ پہلی چھلنی ایڈیٹر کی خوشنودی ہے۔ دوسری مالک اخبار کی مرضی اور تیسری اخبار کی پالیسی ہوتی ہے۔ پھر سب سے اہم اخبار کی بقا کا مسئلہ ہے کہ اس کی اشاعت مسلسل ممکن رہے۔ یہ تسلسل اشتہاری پارٹیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ بادل نخواستہ ان کی ضروریات اور مفادات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ایک کالم نگار ان تینوں چھلنیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی بات کہنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی وہ کامیاب رہتا ہے اور کبھی ناکام۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نے ایک موٹیویشنل بات سے آغاز کیا، پھر گھٹیا کالم نگاری والی مایوس کن باتیں شروع کردیں۔۔آج چونکہ اتوار کا دن ہے اس لیے آپ لوگوں کو قطعی بور نہیں کریں گے، اپنی اوٹ پٹانگ باتیں شروع کرنے سے پہلے آپ کو بتاتے چلیں کہ۔۔ان دنوں ہر طرف ٹائیگر فورس کا چرچا ہے۔۔ معروف صحافی اور اینکرپرسن ارشد شریف نے وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں کیے گئے ایک انٹرویو کا چھوٹا سا کلپ ٹویٹرپر شیئر کیا ہے جس کے ساتھ انہوں نے عنوان بھی درج کیا ہے تاہم اس کے بعد سے ٹویٹر پر طوفان سا برپا ہے اور پی ٹی آئی کارکنان غصے میں آ گئے ہیں۔وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ’’ میرے پاس موتی اور اس کے ساتھ چار اور کتے بھی ہیں ، وہ گارڈز ڈاگ میرے گھر کے باہر ہوتے ہیں ، یہاں پر صحافی ارشد شریف ان سے کتوں کے نام بتانے کا کہتے ہیں ، عمران خان نے نام بتاتے ہوئے کہا کہ میرے پاس ’’ بھالو، ٹائیگر ، شیرو اور شیبا ہیں۔ـ‘‘ ۔۔ آپ لوگوں نے بچپن سے اب تک ٹائیگر کسی اور جانور کو پڑھا ہوگا، لیکن ہمارے کپتان ٹائیگر اپنے ’’ کتے‘‘ کو کہتے تھے ، یہ کتا شاید بعد میں مربھی گیا تھا۔۔ لیکن ہماری ان باتوں سے آپ لوگ قطعی کوئی غلط مطلب نہ نکالیے گا۔۔ وہ تو ایسے ہی بات سے بات نکلی تو سوچا آپ کو بتاتا چلوں کیوں کہ میں قرنطینہ کی وجہ سے گھر میں پڑے پڑے بور ہورہا تھا۔۔
چلیں اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔۔صحت کے سمینار میں کسی نے پوچھا، وہ کون سی غذا ہے جوکھانے کے برسوں بعد بھی بہت تکلیف دیتی ہے۔۔ کچھ دیربعد ایک بڑے میاں کہنے لگے۔۔ نکاح کے چھوارے۔۔کبھی کبھی سچ اپنا راستہ خود بنالیتا ہے، جیسے بڑے میاں کی زبان پر سچ آگیا، بعد میں بڑی بی نے ان کا کیا حال کیاہوگا، اس پر مورخ ستو پی کر سورہا ہے۔۔ شوہر اور بیوی ہاتھ میں ہاتھ ملاکر بازار میں پھر رہے تھے۔۔ یہ دیکھ کر دوست نے کہا۔۔اتنے سال بعد بھی میاں بیوی میں کتنی محبت ہے۔۔۔ شوہر نے کہا۔۔ ارے محبت وغیرہ کچھ نہیں، ہاتھ چھوڑتے ہی وہ دوکان میں گھس جاتی ہیں۔اچھا ، یہاں ایک بات کی وضاحت کرتے چلیں، آپ ہماری اوٹ پٹانگ باتوں کو سنجیدگی سے اپنے اوپر طاری مت کیا کریں، نہ اسے روایتی کالم سمجھا کریں۔۔ہمارے دماغ میں جو کچھ آتا ہے،ہم لکھتے چلے جاتے ہیں، پھر جب ٹائپ کرتے کرتے ہم بور ہونے لگتے ہیں، خود ہی سمجھ جاتے ہیں کہ کالم پورا ہوگیا اور باتوں کا کوٹہ بھی۔۔ اب آپ اسے کالم نگاری کا نام دیں، گھٹیا کالم نگاری بولیں۔۔یا پھر ۔۔کالم گلوچ۔۔ جو بھی نام دیں، گلاب کو کسی بھی نام سے پکاریں گے وہ گلاب ہی رہے گا۔۔( ہائے اللہ،پہلی بار موقع پر ٹھیک کہاوت یاد آگئی)۔۔
لڑ کے کی اماں نے لڑکی کو دیکھتے ہی فوراً اِس کی اماں سے پْوچھا۔۔اری بہن بچی کیا کیا بنا لیتی ہے۔۔ماں جی نے اپنی بچی کی بلائیں لیتے ہوئے جواب دیا ۔۔ہائے بہن میری بچی تو سیلفی لیتے ہْوئے اتنے پیارے پیارے اسٹائل سے مْنہ بنا لیتی ہے۔۔لڑکے کی ماں نے پھر پوچھا۔۔ اری بہن آپ میرا مطلب نہیں سمجھیں. میں پْوچھ رہی ہوں کہ بچی نے کیا کْچھ سیکھ رکھا ہے۔۔لڑکی کی ماں اپنی بچی کے سر پر شفقت بھرے انداز میں ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔۔ماشااللہ سے، فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ،بینگو، ایموجی، وائبر ، اسکائپ۔۔سب کچھ ہی تو سیکھ رکھا ہے میری بچی نے۔۔لڑکے کی ماں پھر بولیں ۔ ۔ اری بہن بچی کی کوئی خاص اچیومِنٹ بھی ہے یا نہیں؟؟لڑکی کی ماں نے جواب دیا ۔۔اری بہن میری بچی کی اتنی اچیومِنٹس ہیں کہ یہ فیس بک پر ایک پوسٹ کرتی ہے تو ایک گھنٹے میں ہزاروں کمنٹس اور لائیکس آجاتے ہیں۔۔بہن اب تْم بتاؤ تْمھارا بیٹا کیا کرتا ہے۔۔۔لڑکے کی ماں نے فخریہ انداز میں کہا۔۔میرا بیٹا صحافی ہے صحافی۔۔لڑکی کی ماں نے جب یہ سنا تو ایسا منہ بنایا جیسے کڑوا بادام چبالیا ہو۔۔کہنے لگی۔۔ ہاہائے،یہ بات آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی، معذرت چاہتی ہوں بہن۔۔ میں اپنی اِتنی قابل بچی صحافی کو دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔ویسے یہ بات بھی شایدکچھ عرصے بعد آپ لوگوں کے عام مشاہدے میں آجائے کہ ۔۔مستقبل میں نکاح کے لیے لڑکوں سے کچھ اس طرح سے پوچھا جائے گا۔۔کیا آپ کو Hina Doll عرف حمیداں کالی تین گروپ کی ایڈمن مع اپنے سات فیس بکی بھائیوں کے قبول ہے؟۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔کچھ لڑکیوں کی سیلفیوں سے خود موبائلوں کو اتنا نشہ ہو جاتا ہے کہ ہر پانچ منٹ بعد موبائل خود کہتا ہے۔۔کْڑیئے چل منہ بنا تیری فوٹو لواں۔۔
ٹائیگر والی بات جو ہم اوپر کرگئے اس پر یوتھیئے ہمیں گالیاں دیں گے۔۔ آپ لوگوں نے بعض لوگوں سے ’’گندی گندی گالیوں‘‘ والی بات بھی سنی ہوگی۔۔ہمارے نزدیک گالی،گالی ہوتی ہے، اس میں گندی اور صاف ستھری والی کوئی کٹیگری نہیں ہوتی۔۔ استاد نے جب اردو کی کلاس میں پوچھا کہ گالی کسے کہتے ہیں توہماری طرح کے ایک نالائق شاگرد نے کھڑے ہوکر گالی کی اس طرح سے تشریح کی۔۔اِنتہائی غْصَّے کی حالت میں جِسمانی طور پر تَشَدّْد کرنے کے بجائے زْبانی طور سے کی جانے والی پْرتَشَدّْد لفظی کارروائی کے لیے مْنتَخِب الفاظِ غَلِیظَہ، اندازِ بَسِیطَہ، لِہجئِہ کَرِیہہ اور اَثرَاتِ سَفِیہہ کے مَجمْوعے کا اِستعمال جِس کی اَدَائیگی کے بعد اِطمینان وسْکْون کی نَاقَابِلِ بَیَان کَیفِیَّت سے قَلب بِہرَہ وَر ہو جاتا ہے اور اِس طَرح مْقَابِل جِسمَانی تَشَدّْد کی بہ نِسبَت زِیَادَہ مَجرْوح اور شِکَستَہ ہو جاتا ہے اْسے گالی کہتے ہیں۔۔استاد نے تشریح سنی تو غش کھاکر بے ہوش ہوگئے۔۔
چلتے چلتے آخری بات۔۔۔استاد کو بے ہوش ہی رہنے دیجئے، خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔