... loading ...
دوستو،ٹرینیں بند، میڈیکل اسٹورز بند، بازار،شاپنگ مالز بند۔۔پبلک ٹرانسپورٹ ، انٹرسٹی بسیں بھی بند۔۔ لاک ڈاؤن میں بڑے شہروں سے چھوٹے قصبے تک میں سب کچھ بند پڑا ہے۔۔ سونا، اٹھنا، کھانا، پینا، پھر لیٹ جانا۔۔سونا ، اٹھنا، کھانا،پینا،پھر لیٹ جانا۔۔ سونا ،اٹھنا،کھانا،پینا،واش روم جانا، پھر لیٹ جانا۔۔ زندگی کے صرف یہی معمولات رہ گئے ہیں۔۔ اگر آپ لوگ اس کے علاوہ کچھ نیا کررہے ہوں تو ہمیں ضرور آگاہ کیجئے گا۔۔ تب تک ہماری اوٹ پٹانگ باتوں کو انجوائے کیجئے۔۔
ایک بڑی بی کو جدیدمیڈیکل سائنس پر رتی برابر یقین نہیں تھا، جب بیمار ہوتی تھیں، بجائے ڈاکٹرکے،وہ حکیم جی سے کنسلٹ کرتی تھیں۔۔ اس بار بیماری زیادہ طویل ہوگئی تو بڑی بی نے حکیم صاحب سے شکوہ کرڈالا۔۔ حکیم جی، ایک سال ہوگیا دوا کھاتے، بیماری جاتی نہیں۔۔حکیم صاحب فرمانے لگے۔۔ بڑی بی اس عمر میں بیماری جانے کے لیے نہیں لے جانے کے لیے آتی ہے۔۔ہمارے پیارے اور محترم باباجی کے اندر کسی فیصل آبادی کی روح سمائی ہوئی ہے، اسی لیے وہ جب بھی کوئی بات کرتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے’’ جگت‘‘ ماررہے ہیں۔۔ ایک بار ان کے ڈرائنگ روم میں محفل جمی ہوئی تھی۔۔ کسی نے اچانک باباجی سے کہا۔۔۔باباجی بہت بدقسمت انسان ہوں، میری بیوی بہترین کھانا پکانا جانتی ہے لیکن وہ نہیں پکاتی۔۔باباجی نے اس بدقسمت انسان کو گھور کر دیکھا اور کہنے لگے۔۔ اس حساب سے تو میں تم سے زیادہ بدقسمت ہوں،میری بیوی کھانا پکانا نہیں جانتی لیکن پھر بھی روز پکاتی ہے۔۔اسی محفل میں اچانک بحث چھڑی کہ مرد زیادہ شریف ہوتے ہیں یا خواتین۔۔ سب اپنے اپنے مزاج اوراپنے اپنے وژن کے مطابق دلائل دے رہے تھے لیکن اچانک باباجی نے ایک جملہ میں بحث سمیٹ دی۔۔کہنے لگے۔۔ مرد عورتوں سے زیادہ ’’شریف‘‘ واقع ہوئے ہیں، مردوں میں عمر شریف، نوازشریف،شہبازشریف،راحیل شریف وغیرہ جب کہ عورتوں میں اب تک صرف بابرہ شریف ہی ہے۔۔باباجی کا ہی یہ اقوال ذریں ہے کہ ۔۔پْتر صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے مگر اتنا صبر بھی نہ کرو کہ جب پھل کھانے کی نوبت آئے تو تمہارے منہ میں دانت ہی نہ ہوں۔۔
اسپتال میں جب مریض نے ڈاکٹر سے کہا، میری ہڈی تین جگہ سے ٹوٹی ہے۔۔ڈاکٹر بہت زیادہ عقل مندتھا برجستہ بولا۔۔ اب تم نے ان تینوں جگہ پر نہیں جانا۔۔ایک عورت نے نفسیاتی علاج کے ماہر ڈاکٹر سے کہا۔۔اللہ کے لیے میرے شوہر کو سدھارنے کے لیے کچھ کریں۔وہ سارا دن ایک بہت بڑا ڈھول بجاتے ہوئے گھومتے پھرتے ہیں۔۔ڈاکٹر نے انہیں حوصلہ دیا اور کہا۔۔ اسے خبط تو نہیں کہا جا سکتا ہے،اک نارمل عادت ہے یہ،میں خود بھی کبھی کبھی ایک بہت بڑا ڈھول بجاتا ہوں۔عورت نے ڈاکٹر کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور حیرت سے پوچھا۔۔ڈھول کے اندر بیٹھ کر۔۔کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ،ایک لاہور ی کے پاس موت کا فرشتہ آیا،کہنے لگا، میں تمہارے لیے آیا ہوں، تمہیں اپنے ساتھ لے جانا ہے۔۔لاہوری نے کہا، کیوں؟ میں ٹھیک توہوں، خوش ہوں، صحتمند ہوں۔۔فرشتے نے جواب دیا، تم اپنا موبائل بغیر لاک کئے گھر بھول آئے ہو اور وہ تمہاری بیوی کے ہاتھ لگ گیا ہے۔۔لاہوری لمبا ’’پے‘‘ گیا اور برجستہ بولا۔۔ چل فر چلئے۔۔بات ہورہی تھی ڈاکٹروں کی۔۔’’پنڈ‘‘ کے ڈاکٹر کے پاس ہر طرح کے مرض کا علاج دوتین قسم کی نیلی پیلی سفید گولیاں ہوتی ہیں، ساتھ ہی کالا اور لال شربت پینے کو بھی دے دیتا ہے، لیکن شہر میں تو ڈاکٹروں کا یہ حال ہے کہ اگر آپ کے سر میں بھی درد ہے تو وہ ایک درجن دوائیاں لکھ کر دے دیتا ہے ،شاید اس کا مقصد یہ ہو کہ ایک نہ ایک دوا تو جاکر ’’نشانیـ‘‘ پر لگ ہی جائے گی اور مریض ٹھیک ہوجائے گا۔۔اندرون پنجاب ہو یا اندرون سندھ کے چھوٹے سرکاری اسپتال، پنجاب میں ڈاکٹروں کی اکثریت صرف اس بات کی سیلری لیتی ہے کہ ۔۔اینوں لہور لے جاؤ۔۔ساتھ مینوں بھی۔۔ جب کہ اندرون سندھ کے ڈاکٹرز مریض کو فوری کراچی لے جانے کے مشورے کی بھاری تنخواہیں لیتے ہیں۔۔
اک لیڈی ڈاکٹر ایک پہاڑی راستے پر گاڑی چلا رہی تھیں۔ انہیں سڑک کنارے ایک بائک الٹی پڑی ہوئی نظر آئی ۔ انہوں نے سوچا شاید کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ انہوں نے اپنا فرض جانتے ہوئے گاڑی آہستہ کی تاکہ اگر کوئی زخمی ہو تو مدد کر سکیں۔ انہیں ایک آدمی گڑھے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آیا۔ انہوں نے گاڑی فورا روکی۔ جلدی سے ہاتھ بڑھا کر اس شخص کو باہر کھینچا،لیڈی ڈاکٹر نے اس شخص سے پوچھا، آپ ٹھیک ہیں؟ وہ بولا، جی لیکن لگتا ہے کچھ خراشیں آئی ہیں۔ بازو میں ٹیسیں سی اٹھ رہی ہیں۔لیڈی ڈاکٹر نے کہا، میں ڈاکٹر ہوں، فکر نہ کرو، میرا گھر قریب ہی ہے، میں آپ کی مرہم پٹی کر دیتی ہوں۔ ساتھ میں پین کلرز دے دوں گی تو آپ کو آرام آجائے گا۔وہ صاحب کہنے لگے، لیکن وہ میری بائیک؟؟ لیڈی ڈاکٹر نے کہا، بائیک آپ صبح آکر لے جائیے گا، اس وقت آپ کی حالت ایسی نہیں کہ بائیک اٹھا کر چل سکیں اور اس وقت کسی مکینک کا ملنا بھی دشوار ہے۔وہ صاحب کہنے لگے، لیکن میری بیوی کو اچھا نہیں لگے گا میرا آپ کے گھر جانا۔۔لیڈی ڈاکٹربولی، کم آن۔ وہ خوش ہونگی کہ بروقت آپ کی مرہم پٹی ہوگئی۔وہ صاحب راضی ہوگئے اور لیڈی ڈاکٹر کی گاڑی میں بیٹھ کر ان کے گھر چلے گئے۔ وہاں خاتون نے ان کی مرہم پٹی کی۔ اس کے بعد دودھ گرم کر کے اس میں اولٹین ملا کر دیا۔ ساتھ پین کلرز دیں۔ دونوں باتیں کرنے لگے۔ ایک دوسرے کو واٹس ایپ پہ ایڈ کیا۔ خاتون نے کچھ بسکٹس اور سینڈوچز سے ان کی تواضع کی۔ اچانک صاحب کی نظر گھڑی پر پڑی وہ بڑبڑانے لگے۔۔اُف ، آج میری خیر نہیں، میری بیوی سخت غصہ ہوگی۔۔لیڈی ڈاکٹر نے کہا۔۔ جی مجھے اندازہ ہے کہ وہ گھر پر آپ کا انتظار کر رہی ہونگی لیکن وہ یہ دیکھ کر خوش ہونگیں کہ آپ کو زیادہ چوٹ نہیں آئی اور بروقت مرہم پٹی ہوگئی۔وہ صاحب بڑی معصومیت سے کہنے لگے۔۔پتا نہیں وہ گھر پہنچی ہے کہ نہیں یا اب تک وہیں گڑھے ہی میں پڑی ہے۔اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بھاڑ میں جائیں لیکن بھیڑبھاڑ میں نہ جائیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔