... loading ...
کرونا وائرس ، ہائے کرونا وائرس!!!
سوا ہزار برس ہوتے ہیں۔ اسی دنیا کو بائبل کی ایک پیش گوئی ستا رہی تھی۔ عیسائی رہنماؤں نے مقدس مگر محرّف کتاب کے مطالعے کے بعد یہ اعلان کردیاتھا کہ دنیا کا خاتمہ اٹل ہے۔ دنیا اس اندیشے سے دوچار ہوگئی کہ ٹھیک ایک ہزار عیسوی میں آسمانی طاقت دنیا کو تہ وبالا کردے گی۔ سواہزار برس ہوتے ہیں، دنیا اب اس خطرے سے دوچار ہے کہ اسے خود انسان کہیں اپنے ہاتھوں تباہ نہ کردیں۔ یہ خطرہ زمانۂ مستقبل کے کسی امکان میں نہیں درحقیقت زمانہ ٔ حال میں ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ یہ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ کیونکہ انسان کرونا وائرس سے نمٹتے ہوئے اب بھی ٹھیک اسی ڈھنگ پر زندگی کرتا ہے جس ڈھنگ نے اُسے کرونا وائرس سے دوچار کیا۔
الامان والحفیظ!انسان ،انسان کے ہاتھوں تباہ ہو چکا۔ یوں لگتا ہے کہ صدائے کن ، اپنی فیکون حالت میں بھی تاحال اسباب وعلل کے رشتے کے ساتھ مسلسل انکشاف سے گزر رہی ہے۔انسانی اعمال بناؤ بگاڑ کی دنیا اپنے لیے خود تخلیق کررہے ہیں۔ اسباب وعلل کے عمل کا اس سے ایک نامیاتی رشتہ ہے۔
کرونا وائرس ہائے کرونا وائرس!!!
ترقی کی معراج پر جب انسان خدا کو خدا حافظ کہہ چکا ، انسان، انسان کے ہاتھوں تباہی کے خدشے سے دوچار ہے۔ جدید دور کے انسان کا اصل کرونا وائرس اس کے سوچنے کا ڈھنگ ہے۔ انسان کا اپنے ماحول اور کرۂ ارض پر مکمل گرفت کا دعویٰ سب سے زیادہ کھوکھلا ہے۔ حوادث گاہے اسے لگام دیتے ہیں۔ مگر انسان کا عقل پر ناز اُسے پھر ایک دائرے میں گھما کر عاجز حالت میں چھوڑدیتا ہے۔ امریکی سائنس دان ایڈسکڈ مور کی چیخ اُس کے ساتھی سائنس دانوں نے بھی نہیں سنی:انسان خود کو درپیش معاملے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر معاملہ فطرت کے ہاتھ میں ہوتا ہے‘‘۔سائنسدان کی بات پھر بھی ادھوری رہتی ہے، اُس فلسفی پال ہنری تھائرے ، ڈی ہولباخ سے رجوع کرنا پڑے گا،جس کی کتاب ’’دی سسٹم آف نیچر‘‘کا مطالعہ کائنات کے اسرار ورموز پر غور کرتے ہوئے فلسفے کے کسی بھی طالب علم کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے:
’’انسان کے غموں کا سرچشمہ فطرت سے اس کی لاعلمی ہے‘‘۔
حادثات گاہے تاریخ کی چٹکی ہوتے ہیں۔بیماریاں انسانوں کو فطرت کی تنبیہ ہے۔ کا ش ہم غور کرتے!اے کاش ہم غور کرسکتے!! افسوس انسانی دانش کا تعصب اس موقع پر بھی اُبکائیاں لے رہا ہے، خلطِ مبحث کے ساتھ بندے کو خدا سے بغاوت پر اُکسایا جارہا ہے۔ عجز کے اس لمحہ پر کچھ متکبر ذہن سوال اُٹھا رہے ہیں کہ’’ کورونا وائرس‘‘ نے محرف مذاہب اور محفوظ عقیدے کے درمیان خطِ امتیاز کو روند دیا، جیسے یہ کوئی امتیاز ہی نہ ہو۔ مندروں کے خاموش ناقوس ، عبادت گزاروں سے خالی کلیسائیں ، راشٹریہ کے بھونکتے سیوکوں کی لگام پاتی زبانیں اور مسجدوں میں رسم اذاں کے بعد خالی صفیں اُنہیں ایک جیسے واقعات لگتے ہیں۔ اُن کی زہر افشاں زبانوں سے باربار ، بتکرار، بصداِصرار یہ کہا جارہا ہے کہ ایک وائرس نے رنگ، نسل کا امتیازاور مذاہب کی کشمکش کو تاراج کرکے اُنہیں ایک صف میں کھڑا کردیا۔یہ خدائی اسکیم سے نکلنے کا موقف ہے،یہ بے خدا سماج کی تخلیق کے لیے آوارہ زبانوں کا آوازہ ہے۔ سوچنے کا یہی ڈھنگ تو انسان پر حملہ آور اصل کورونا وائرس ہے۔
سوال یہ ہے کہ آج کی دنیا کس نے متشکل کی، اس کے اصلِ علم، مزاجِ علم اور محیط ِ علم کا کون ذمہ دار ہے،دنیا کو سمیٹ کر ایک عالمی گاؤں میں بدلنے کا دعویٰ کس کا ہے، چاند پر قدم رکھ کر اِ تراتا کون ہے، خلائے بسیط پر قدرت کا اعلان کس نے کیا، ہزاروں فٹ کی بلندی سے زمین پر رینگتے کیڑے کو اپنی ڈیجیٹل آنکھوں سے دیکھنے کا مدعی کون ہے، دنیا کے اربوں انسانوں کی حرکات کو اپنے کمپیوٹر کی اسکرین پر ٹٹولنے کی صلاحیت کس نے پانے کا اعلان کیا، اربوں سال کی زندگی کا سراغ پاکر ابتدائے آفرینش کے قرآنی مقدمے کو جھٹلانے پر مُصر کون رہتا ہے، اصلِ انواع کی کھوج میںنظریۂ ارتقا کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے اپنی ٹیڑھی زبانوں سے انسان کی بزرگی کا شرف کون چھینتا ہے،
کیا یہ تم نہیں ہو؟اگر یہ تم ہو، تو پھر یہ تم ہی بتاؤ کورونا وائرس کیا ہے؟
اگر سائنس تمہارا مذہب، ایجادات تمہارا عقیدہ ، انسان، تمہاری تجربہ گاہ، زمانہ تمہاری گزرگاہ اور عقل تمہاری سجدہ گاہ ہے تو کورونا وائرس تمہارے خلاف فطرت کا مقدمہ ہے۔ اپنی سائنس سے پو چھ کر بتاؤ فطرت کے یہ واقعات تمہاری سجائی دنیا کو ویران کیوں کردیتے ہیں؟ہر صدی دو صدی بعد کوئی آفت تمہاری ترقی پر حملہ آور کیوں ہوتی ہے؟ایک بیماری پر تمہاری فتح دوسری بیماری کو تخلیق کیوں کردیتی ہے؟
ذرا بتاؤ،چودہویں صدی میں کالی موت نے ساڑھے سات کروڑ انسانوں کو کیوں نگل لیا ؟ چلو، تب تم زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھے، اب تو ہو، انیسویں صدی میں تم برطانیا میں اعلان کررہے تھے کہ انسان نے ترقی کی معراج پالی،ہر ایجاد ہونے والی چیز ایجاد ہوگئی، اس قدرتِ کاملہ کے اعلان کے بعد انیسویں صدی میں پھر انفلوئنزا کی عالمگیر وبا نے چار کروڑ انسان کیسے اُچک لیے؟اچھا تمہیں ایڈز کے مرض پر اہلِ تقویٰ کی دُکان نظر آتی ہے، ادویہ ساز اداروں کی حرص میںزمین تک لٹکتی زبانیں اورلالچ سے ٹپکتی رالیں دکھائی نہیں پڑتیں، تو پھر یہ تو بتاؤ کہ اس مرض سے مرنے والے تین کروڑ سے زائد لوگوں کی موت کا سائنس نے اپنی عاجزی کے ساتھ تماشا کیوں دیکھا؟
ترقی اگر انسانی عقیدہ بنے گا تو وبا اس پر فطرت کی تنبیہہ ہوگی۔زلزلے، قحط ایسی زندگیوں کو چاٹتے رہیںگے۔ اللہ کی بنائی ہوئی دنیا اُس کی ہی اسکیم پر چلے گی، اُس نے انسان کو مادی ہی نہیں اخلاقی وجود بھی بخشا ،چنانچہ ترقی کو الہامی تعلیمات کی چھتری میں رکھا تاکہ دونوں میں توازن اُسے خوبصورت اور محفوظ بنائے رکھے۔ اسے ایک دوسرے کی بغاوت پر اُکسانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اصل مقدمہ عبادت گاہوں کی خاموشی نہیں بلکہ آج کی جدید دنیا کی ویرانی ہے۔ خدائی اسکیم سے نکل کر سائنس کی اسکیم کے آگے خود کو سرینڈر کرنے والے بتائیں کہ اُن کے ہاں کون سی رونقیں قائم ہیں۔کیا وہاں کورونا شادیانے بجا رہا ہے، کیا وہ سائنسدانوں سے دلہنیں لینے کے لیے ’’ڈولی سجا کر رکھنا‘‘ کی ڈفلی بجارہا ہے۔کیا عالمی معاشی نظام کا وہ گلیارہ ،وال اسٹریٹ ویران نہیں۔کیا ترقی کو سجانے والی عالمی بازار گونگے نہیں ہوگئے۔ دنیا بھر کے اسٹاک ایکسچینج دھچکے میں نہیں۔ دنیا کا سب سے طاقت ور انسان وہائٹ ہاؤس میں بے چین کیوں ہے؟ پیوٹن اپنے شہریوں کو اپنی طاقت کے بجائے شیروں سے کیوں ڈرا رہا ہے۔ سائنس کی معمل گاہیں اونگھ کیوں رہی ہیں۔بھائیو! سمجھو یہ لاک ڈاؤن انسانی بستیوںپر نہیں اُترا، یہ ترقی کے خلاف لاگو ہوا ہے۔ اس نے ایجادات پر ناز کرتی عقلوں کو شکار کیا ہے۔ دیکھیے حضرت علامہ اقبالؒ بھی یادداشت میں کب اُجاگر ہوتے ہیں
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم وپیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع وضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
انسان کااصل دشمن کرونا وائرس نہیں اس کے سوچنے کا ڈھنگ ہے۔ سوا ہزار برس ہوتے ہیں دنیا کو بائبل کی ایک پیش گوئی ستار ہی تھی کہ آسمانی قوت اس رجے پجے جہان کو کہیں ختم نہ کردے۔ سواہزا برس ہوتے ہیں ، دنیا اب اس خطرے سے دوچار ہے کہ اسے خود انسان کہیں اپنے ہاتھوں تباہ نہ کردیں۔ کرونا وائرس انسان کے ذہن میں لگ چکا ہے اوراس پر صدیاں بیت چکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔