... loading ...
یہ لیجیے! مسئلہ صاف ہوا۔ دور کہیں سے ایک آواز اور سنائی دی ہے،عورت مارچ جمہوریت کی لڑائی ہے۔ بخدا یہی موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عورت مارچ ، عورتوں کی تو لڑائی ہی نہیں۔ جمہوریت اگر کوئی مقدس شے ہے تو بھی عورت مارچ سے جو کچھ برآمد ہوتا ہے وہ بھاڑے کا منچ اور کرائے کا کردار ہے۔ مارچ اور اس پر اس موقف سے تو عورت پہلے سے زیادہ’’ بیچاری‘‘ ہوجاتی ہے۔
مسئلہ ہی یہ ہے کہ عورت کو سرمائے کی جنگ نے ایک کھلونا بنا دیا۔ سرمایہ دارانہ کشاکش نے سب سے پہلے عورت سے اپنے وجود کی حقیقت کا ادراک چھین لیا۔ صنفی مساوات کا نعرہ درحقیقت فطرت سے پہلوتہی کرکے اپنے وجود سے عدم واقفیت ہے۔ یہ صنفی مساوات کا مسئلہ نہیں صنفی شعور کا مسئلہ ہے۔ کارپوریٹو کریسی نے سب سے پہلے اس پر ڈاکا ڈالا۔ عورت نے بعد ازاں اپنے ہی استحصال کو ایک حق کے طور پر مانگنا شروع کردیا ۔ پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان صنفی مساوات کا کوئی مقدمہ قائم ہی نہیں ہوتا۔
کیونکہ یہ دو مختلف وجود ہیں۔ جب آپ دو اصناف کے درمیان مساوات کا مقدمہ چھیڑتے ہیں تو خود اعتراف کرتے ہیں کہ یہ دو الگ الگ صنفیں ہیں۔ یہ مقدمہ ایک دوسرے کے مرتبہ اور مقام کا نہیں بلکہ ایک دوسرے کے درمیان پائے جانے والے فرق کا ہے۔ انسانی جسم میں پائی جانے والی آنکھیں کان اور ناک الگ الگ اعضا ء ہیں ۔ ان کے درمیان یہ جنگ نہیں ہو سکتی کہ سب اعضاء درحقیقت مساوی مرتبہ رکھتے ہیں۔ آنکھ ،کان اور ناک یکساں ہیں۔ ہر گزنہیں ، یہ مقدمہ ہی نہیں بنتا۔ آنکھ، کان اور ناک الگ الگ اعضاء ہیں ۔
چنانچہ ان کے درمیان فرق ان کے دائرہ کار اور وظائف کو الگ الگ کردیتا ہے۔ ان کے درمیان مساوات کی بحث کا مطلب یہ ہے کہ کان سونگھ بھی سکتا ہے، ناک سن بھی سکتی ہے اور آنکھ سونگھ اور سن بھی سکتی ہے۔یہ بات ہی مضحکہ خیز لگتی ہے۔ افسوس ناک طور پر عورت اور مرد کے درمیان جب یہ بحث ہوتی ہے تو اتنی ہی مضحکہ خیز لگتی ہے۔ فطری دائرے میںعورت اور مرد کے درمیان پایا جانے والا تخلیقی اور حیاتیاتی فرق ایک کو دوسرے سے بہتر یا کمتر نہیں بناتا۔ ان کے درمیان مرتبے کی کوئی جنگ نہیں چھیڑتا ۔ ان کے درمیان مساوات کی کوئی بحث کا عنوان پیدا نہیںکرتا۔ ذرا ایک اور طرح سے اس نکتے کو سمجھتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی یہ مشاہدہ کیا کہ گائیں اس پر احتجاج کررہی ہوں کہ وہ بیل کے مساوی ہیں۔ یا گھوڑے اس لیے لڑ رہے ہیں کہ وہ گائے کی طرح دودھ کے سوتے کیوں نہیں رکھتا۔ بیل اس پر بضد ہوکہ اُس سے گھڑ سواری کا کام کیوں نہیں لیا جاتا۔ گائے ، بیل اور گھوڑے اپنے اپنے دائرے میں اپنے اپنے وظائف سرانجام دیتے ہیں۔ یہ فطرت کی کاریگری ہے۔ اس لیے ان میں کوئی فطری لڑائی نہیں۔ مساوات کی بحث بھی نہیں۔
صنفی مساوات کے نام پر آزادیٔ نسواں کا نعرہ سرمائے کی ثقافت کی ضرورت تھاجس میںعورت کو ایک’’ مارکیٹ کموڈیٹی‘‘ میں بدلا جاسکے۔ عورت کی تمام سرگرمیوں کو سرمائے کے لیے پرکشش بنایا جاسکے۔اس میں مغرب پوری طرح کامیاب ہوا۔ یہاں تک کہ عورت نے اپنے آپ کو منڈی کی جنس بنائے جانے پر اس طرح خود کو راضی کرلیا کہ وہ اپنے انسانی شرف سے نیچے گرجانے کا احساس تک نہیں کرسکی۔ یاد رکھیںصنعتی انقلاب نے انسانی نظریات کو سرمائے کی قید میں رکھ کرتشکیل دینا شروع کیا تھا۔ آزادی کا بے قید تصور، سرمایہ پرست جمہوریت اور عورت کی نئی شناخت اسی تال میل میں پیدا ہوئے جسے ریشمی جملوں اور گلابی فقروںمیں پرویا گیا۔
فطرت کی نئی نئی توجیہات کی گئیں۔ انسان کو خدا کے اختیارات دیے گئے۔ ایسی فضا میں عورت مارچ کی للکار ، جمہوریت کی ہاہا کاراور آزادی کی توتکار میں ایک نامیاتی رشتہ ہمیشہ موجود رہے گا۔تاریخ کے حوالے، ادب کے استعارے، نفسیات کے سہارے اس میں گوٹا کناری کے لیے ضرور استعمال کیے جاتے ہیں۔مگر حقیقت نام کی شے اس میں کوئی نہیں۔سرمایہ دارانہ نظام سے متشکل اس سفاکانہ ، جابرانہ اور عامیانہ ماحول کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عورت کو ایک’’ ورکنگ لیڈی‘‘ ہونا چاہئے، عورت کو ایک پیداواری مخلوق ہونا چاہیے۔ اس مصنوعی ماحول میں موجود جبر کا یہ شاخسانہ ہے کہ عورت اپنے فطری کردار سے دستبردار ہوکر سرمائے کے مصنوعی پیداواری چکر میں گھومنے لگی۔ اس پورے عمل کو اعدادوشمار سے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ عورت اب گھر میں بیٹھ کر پیداواری عمل سے بے نیاز رہ کر دنیا کے تقاضوں سے بے بہرہ نہیں رہی۔
وہ ایک کارآمد وجود ہے۔گویا عورت کا سرمائے کے سرگرمی میں حریص اور سفاک مردوں کی مرضی سے کولہوں کے بیل کی طرح جُت جانے سے وہ کارآمد بن جاتی ہے۔ مگر گھر میں فطری تقاضوں سے آراستہ ایک پرلطف اور بے بوجھ زندگی بیکار اور بیگار ہے۔ عورت کا یہ تصور ہزاروں سال پر محیط انسانی تاریخ میں کبھی نہیں رہا۔ یہ تصور صنعتی انقلاب نے سرمائے کو مذہب بناکر حرص وہوس کے منتر سے تخلیق کیا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ تصور بھی عورتوں نے نہیں بلکہ سفاک سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کو جنس کی منڈی بنانے والے مردوں نے تشکیل دیاجسے عورت نے اپنی آزادی کے نام پر اوڑھ لیا۔پر لطف بات یہ ہے کہ مغربی عورت اب اس غیر فطری زندگی سے بیزار ہو چکی ہے۔ مشرق کی مادر پدر آزاد چند سو عورتوں کو ابھی اس کا پتہ ہی نہیں چلا۔
یہ اٹھارویں صدی کا قصہ ہے جب عورتوں کے لیے برابری کے حقوق کا مطالبہ کیا گیا۔ اس ضمن میں دھڑادھر کتابیں لکھی جانے لگیں۔ ایک انگریز عورت میری وُل اسٹون کرافٹ ( Mary Wollstonecraft ) نے ایک کتاب میں اس مطالبے کو تقویت دی۔ یہ خاتون اواخر اٹھارویں صدی میں جب یہ مطالبہ کررہی تھی تو اس کی شہرت اپنی تحریروں سے کہیں زیادہ مردوں سے اپنے غیر رسمی تعلقات کے حوالے سے تھی۔ اگر کسی کو شک ہو تو وہ تاریخ کو ٹٹولے، دنیا بھر میں آزادی نسواں اور صنفی مساوات کی تحریک وہیں سے شروع ہوتی رہی، جہاں پہلے صنعتی انقلاب آتا رہا۔ امریکا میں صنعتی انقلاب دیر سے آیا تو وہاں یہ تحریک بھی دیر سے شروع ہوئی۔ یہ سرمایہ دارانہ سرگرمیوں کی ضرورت تھی کہ عورت سرمائے کی بڑھوتری کے عمل میں شریک ہو۔ جی یہ بالکل درست بات ہے کہ عورت مارچ جمہوریت کی لڑائی ہے ، کیونکہ جمہوریت ، سرمایہ دارانہ نظام اور عورت کی فطرت سے دستبرداری میں ایک نامیاتی رشتہ موجود ہے۔ مگر اس تال میل نے عورت کو کیا بنا دیا ہے۔ اسے مغرب کے باطن میں اُتر کر آئندہ دیکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔