وجود

... loading ...

وجود

کورونا سے ڈرنا منع ہے!

جمعرات 05 مارچ 2020 کورونا سے ڈرنا منع ہے!

تاریخ کے اوراق میں درج ہے کہ ایک بار امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحرائے عرب کے کسی دورافتادہ علاقہ سے گزر رہے تھے کہ آپ کی نظر صحرا میں سفر کرتے ہوئے ایک عجیب و غریب مسافر پر پڑی ،جس کی نہ شکل و شباہت عربوں جیسی تھی اور نہ چال ڈھال قرب و جوار کے علاقوں میں آباد افراد جیسی ۔ آپ ؓ نے اُس اجنبی شخص کا راستہ روک کر پوچھا ’’اے مسافر! تم کون ہو اور کہاں جارہے ہو؟‘‘اجنبی مسافر نے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دست بوسی کرتے ہوئے انتہائی احترام سے عرض کیا کہ ’’اے امیرالمومنین ! میں معروف آسمانی وبا ہیضہ ہوں ،اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے یمین کی بستی جانب عازمِ سفر ہوں ، جہاں مجھے تقدیری الہیٰ کے عین مطابق70 لوگوں کو ہیضہ کی بیماری میں مبتلاء کرنا ہے ،جن میں سے 30 افراد ہیضہ کے وبائی مرض سے لقمہ اجل بن جائیں گے اور باقی افراد صحت یات ہوجائیں گے‘‘۔آپ ؓ نے وبائی مرض ہیضہ کی گفتگو سُن کر اُسے یمین کی سمت جانے اجازت مرحمت فرمادی ۔

ابھی بمشکل ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ کو یمین سے خبر موصول ہوئی کہ یمین میں 100 سے زائد افراد وبائی مرض ہیضہ کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے ہیں ۔ آپ ؓ کوخبر سن کر افسوس بھی ہوا اور ہیضہ کی غلط بیانی پر شدید حیرت بھی ۔ آپ ؓ نے ہیضہ سے اُس کی دروغ گوئی پر جواب طلبی کرنے کے لیے اُسی راستہ پر اُس کا انتظار کرنا شروع کردیا ،جس راستہ پر آپ ؓ کی ہیضہ نامی مرض سے مجسم صورت میں ملاقات ہوئی تھی ۔ ابھی آپ ؓ کو انتظار فرماتے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ سامنے سے وہی عجیب و غریب شخص جس نے اپنا تعارف وبائی مرض ہیضہ بتایا تھا ،خراماں خراماں ،آتا دکھائی دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اُس سے اپنے پاس بلایا اور سوال کیا کہ ’’ تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا ،اور یمین میں 30 افراد کے بجائے 100 سے زائد افراد کی ہیضہ کے مرض سے جان کیوں لے لی ‘‘۔ اُس شخص نے جواب دیا کہ ’’اے امیر المومنین ! میں نے آپؓ سے جوکہا تھا بالکل سچ کہا تھا ، اور میں نے یمین کی بسی میں فقط 30 افراد کی ہی ہیضہ سے جان لی تھی ،باقی لوگ تو ہیضہ کی بیماری سے نہیں بلکہ اِس مرض کے خوف سے ہی مرگئے‘‘۔

آج کل ہمارے ہاں بھی ایک مہلک وبا کورونا وائرس کی شکل میں آئی ہوئی ہے لیکن کورونا وائرس سے زیادہ ،اِس مرض کاخوف اور ڈر لوگوں میں ہیجان پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد مرنے کی شرح 2 فیصد ہے۔ مرنے والے یہ 2 فیصد افراد بھی وہ ہیں جو یا تو عمر رسیدہ تھے یا پھر انہیں سانس کی پہلے سے کوئی بیماری لاحق تھی۔اس کے باوجود کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ انتہائی انسانیت سوز اور قابلِ مذمت ہے ۔ یوکرائن میں چینی شہر ووہان سے آنے والے یوکرائنی باشندوں کی بس پر اس لیے پتھراؤ کیا گیا کہ لوگوں کو شبہ تھا کہ ان کے آنے سے یوکرین میں بھی کورونا وائرس پھیل جائے گا۔ حالانکہ مذکورہ بس میں سوار افراد کو مکمل طبی معائنہ کے بعد سفر کی اجازت دی گئی تھی۔جبکہ مختلف امریکی ریاستوں میں بھی کورونا وائرس سے متعلق کافی خوف پایا جاتا ہے اور بازار سے ماسک، دستانے اور مختلف قسم کے سینٹائزرس غائب ہوگئے ہیں۔دنیا بھر میں صرف عام لوگ ہی کورونا وائرس کے خوف کا شکار نہیں ہیں بلکہ اہم ترین عہدوں پر فائز افراد بھی اپنی میڈیا کوریج کے لیے بلاوجہ ہی کورونا وائرس سے اپنے خوف کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔بین الاقوامی میڈیا پر جاری ہونے والے ایک خبر کے مطابق کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے اپنے وزیر داخلہ ہورسٹ سی ہوفر سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وزیر نے ہاتھ نے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔

یہ سچ ہے کہ کورونا وائرس ایک خطرناک وائرس ہے لیکن اس کے مقابلے میں دنیا میںدرجنوں ایسی متعدی بیماریاں پہلے ہی سے موجود ہیں جو ہر برس خاموشی کے ساتھ لاکھوں افراد کی جانیں نگل لیتی ہیں۔ موسمی فلو کا وائرس بھی کورونا کی طرح ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نصف کروڑ افراد اس بیماری کا ہر برس نشانہ بنتے ہیں اورفلو سے دنیا بھر میں سالانہ مرنے والے مریضوں کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ ہے۔ٹی بی سے ہر برس ایک کروڑ افراد بیمار ہوتے ہیں جن میں سے 15 لاکھ افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ڈائریا کے سبب ہر برس ایک ارب 70 کروڑ افراد بیمار ہوتے ہیں جس میں سے ساڑھے پانچ لاکھ مرجاتے ہیں۔نمونیا سے ہر برس دس لاکھ سے زائد اموات ہوتی ہیں جس میں اکثریت بچوں کی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں 15 فیصد اموات کی وجہ نمونیہ کی بیماری ہے۔ملیریا سے ہر برس 23 کروڑ افراد بیمار ہوتے ہیں جس میں سے پانچ لاکھ کے قریب افراد موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خسرہ سے سالانہ مرنے والوں کی تعداد تقریبا ڈیڑھ لاکھ ہے۔ ہیضے سے ہر برس چالیس لاکھ متاثر ہوتے ہیں جن میں سے ڈیڑھ لاکھ افرادلقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ایڈز سے اب تک چار کروڑ افراد متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے ساڑھے تین کروڑ افراد مرچکے ہیں۔

یہ اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں کورونا وائرس سے متعلق بہت زیادہ منفی پروپیگنڈا کیا جارہاہے ۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کے علاج اور احتیاط کے نام پر ہی خوف و ہراس کا ماحول بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ۔خوف و ہراس پھیلانے کی اِس ڈور میں سوشل میڈیا سب پر سبقت لے گیا ہے ۔ خود ہمارے ملک پاکستان میں سوشل میڈیا پر کورونا وائرس سے متعلق ایسی ایسی لغو اور بے بنیاد پوسٹیں پھیلائی جاری ہیں کہ رہے نام اللہ کا ۔ حالانکہ پاکستان میں اَب تک وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتیں اپنی اپنی جگہ بحسن و خوبی کورونا وائرس سے نمٹنے اور روک تھام کے لیے موثر حکمت عملی بنانے میں پوری طرح سے کامیاب دکھائی دیتی ہیں ۔ لیکن سوشل میڈیا پر ہونے والا منفی پروپیگنڈا ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت کاکام مشکل سے مشکل تر بناتاجا رہا ہے ۔ گزشتہ دنوں سندھ حکومت کے نام سے یکم اپریل تک صوبہ کے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا جھوٹا نوٹیفیکیشن سوشل میڈیا گردش کرتا دکھائی دیا جس نے عام لوگوں میں بہت زیادہ خوف اور ڈر پیدا کیا ۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ حکومت سندھ کی طرف سے اِس منفی خبر کی بروقت تردید کردی گئی لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا اِس طرح کی جھوٹی خبروں کے پھیلانے سے کورونا وائرس کا خاتمہ ہوجائے گا یا یہ جھوٹی خبریں کورونا وائرس کے مزید فروغ باعث بنیں گی؟۔ یاد رہے کہ کورونا وائرس ایک عالمی آفت ہے اور اِس کے خاتمہ کے لیے معاشرے میں ڈر کے بجائے اُمید ،احتیاط اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا ہوگا۔ کیونکہ کورونا وائرس سے تو ہم پھر بھی بچ سکتے ہیں لیکن خوف سے بچنا کسی صورت ممکن نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر