... loading ...
ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ بھارت کو جانے دیں، باضمیر دانشور نوم چومسکی کو یادکرتے ہیں، وہ لکھتا ہے:
’’انسانی تاریخ کے بدترین لوگ اس وقت دنیا پر حکومت کررہے ہیں‘‘۔
چومسکی نے اپنی کتاب ’’ Who Rules the World‘‘میں دنیا کی موجودہ سیاسی بناؤٹ میں ترقی اور انسانی تباہی کی عامیانہ مساوات کے درمیان موجودتباہی کا خطرناک کھیل بے نقاب کیا ہے۔ یہ دنیا کی گناہ آلود تاریخ کا سب سے بدترین دور ہے۔ جس میں آزادی و انسانی حقوق کا سب سے زیادہ چرچا اور اس کا استحصال یکساں اور متوازی طور پر جاری ہے۔ انسان کے لیے امکانات سے مالامال اس سیارے میںانسان کو سب سے زیادہ خطرہ خود انسان سے لاحق ہے جس پر ٹرمپ اور مودی جیسے لوگ حکمرانی کرتے ہیں۔ جو دنیا کو خطرات میں ڈال کر زندگی کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس تناظر کو چومسکی کی کتاب زیادہ روشن کرتی ہے۔ جس میں ایٹمی خطرات کے درمیان تنازعات کے کھیل میں تباہی کی نفسیات رکھنے والے حکمرانوں کا طرزِ عمل بے نقاب کیا گیا ہے۔ یہ سامراجی قوتوں یا سامراج بننے کی طرف مائل قوتوں کا جبر ہے جو جمہوریت کی چھتری بھی رکھتا ہے۔ گویا تباہی ، ایٹمی خطرات ، تنازعات ، استحصال، آپادھاپی، ماراماری، چھینا جھپٹی کے طرزِ عمل میں ترقی، انسانی اقدار، نظام انصاف، برابری، انسانی حقوق کا طرزِ کلام بھی جاری ہے۔یہ انسانی جسم میں موجود اعضاء کے وظائف کی تقسیم ہے جس میں ہاتھ اپنا کام کرتا ہے اور منہ اپنا۔ امریکا کا سامراجیت پر مبنی یہ کردار جس میں وہ انسانی حقوق کے اپنے ہی شور شرابے اور بیانئے سے منہ موڑتے ہوئے حسب ضرور ت مخالف اقدامات کرتا ہے، چومسکی کا موضوع رہا ہے۔ چومسکی جو کچھ لکھتاہے، وہی کچھ گزشتہ دنوںبھارتی سرزمین کے پردے پر ایک فلم کی طرح چلتا رہا۔ ٹرمپ نے مودی کی پیٹھ تھپکی، لگے رہو منا بھائی!!!
یہ اُسی امریکا کا صدر ٹرمپ تھا، جس کی سرزمین پر گجرات فسادات کے بعد مودی کی آمد پر پابندی لگائی گئی تھی۔ یہ وہی بھارت ہے جہاں یشودھا کی ہم جنس اور رادھا کی بیٹی غیر محفوظ ہے، جہاں انسانی حقوق تو دور کی بات ہے ، انسان کو انسان تسلیم کرنے کی راہ میں بھی ہندو عقائد رکاوٹ ہیں۔ جہاں شاہین باغ پر احتجاج جاری ہے، جہاں دہلی فسادات میںمسلمانوں کے کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں۔
اس تضاد کو ایسا ہی ذہن قبول کرسکتا ہے جسے انسانی خون کے بہنے کا منظر لطف دیتا ہو، جسے وحشت سے پیار اور دہشت میں موسیقی سنائی دیتی ہو۔ اس دوئی پر ایک امریکی اینکر بھی چیخ اُٹھا۔ اُس نے کہا کہ گجرات میں مسلمانوں پر تشدد کے باعث تب کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کا امریکا میں برسوں تک داخلہ بند رہا، لیکن دورہ بھارت کے دوران امریکی صدر اُسی مودی کی تعریفیں کرتے دکھائی دیے ۔امریکی اینکر نے کہا کہ مودی کی سرپرستی میں دلی جل رہا تھا، مسلمانوں کی املاک نذرِ آتش ہورہی تھیں تو ٹرمپ مودی کے بھارت میں مذہبی آزادیوں کے دیوانے ہوئے جارہے تھے۔یوں لگ رہا تھا کہ ٹرمپ اور مودی کو روزِ پیدائش ایک ہی طرح کی گھٹی دی گئی ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں ذرائع ابلاغ سے خائف رہتے ہیں۔ دوسری طرف مودی نے سرمائے کے منتر سے بھارتی ذرائع ابلاغ کو رام کیے رکھا ہے۔ مودی کے فروری 2020 کے دورۂ امریکا میں امریکی صدر نے اُن سے ازراہِ مذاق پوچھ ہی لیا تھا کہ آپ اپنے میڈیا کو کیسے کنٹرول کرلیتے ہیں، یہ مجھ سے تو نہیںہوتا۔مگر اب اُسی میڈیا سے نریندر مودی کے بھارت میں مذہبی آزادی کا گلا گھوٹنے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ایک بھارتی صحافی نے کہا کہ صرف ایک دن میں ہندوستان پوری طرح تبدیل ہوگیا ہے۔ اُنہیں دلی کے فسادات دکھانے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ہندو صحافی نے حیرت کااظہار کیا کہ اُن سے دلی کی اصل تصویر پیش کرنے پر مذہبی شناخت مانگی جارہی ہے۔
یہ اصل بھارت ہے، بخدا یہی اصلی بھارت ہے۔ اسی نے پاکستان بنایا۔ یہ ہجوم کی نفسیات سے جنم لینے والے واقعات نہیں، بلکہ ایک منظم منصوبے کے تحت کارگزار ہندو عقائد کے تحت بھارت کی صورت گری ہے۔جس نے دراصل ہندو بھارت کا باطن عیاں کردیا ہے۔یہاں کچھ واقعات اس بھارت کو سمجھنے میں مدد دیں گے۔ ڈزنی کی زیر ملکیت سرویس ہاٹ اسٹار نے کامیڈین جان اولیورکا ہر منگل کی شام دکھایا جانے والا شو روک دیا۔ کیونکہ اس شو میں امریکی صدر کے دورۂ بھارت اور مودی کا مذاق اڑایا گیا تھا۔اس دوران میں ایک دوسرے واقعے نے ہندوستان بھر کے حلقوں کو چونکا دیا۔ مودی حکومت نے دہلی ہائیکورٹ کے ایک جج جسٹس ڈاکٹر ایس مرلیدھر کا تبادلہ پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ کردیا کیونکہ اُنہوں نے دہلی فسادات کانوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ اور دہلی کے پولیس کمشنر کی بازپرس کی تھی۔ جسٹس مرلیدھر دہلی ہائیکورٹ کے تین سینئر ججزمیں سے ایک ہیں۔ دہلی ہائیکورٹ نے بی جے پی سیاست دانوںکپل مشرا، پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر کے اشتعال انگیز بیانات اور تقاریر کا جائزہ لیتے ہوئے اُن کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ مودی حکومت نے اس حکم کے فوراً بعد جسٹس مرلیدھر کا تبادلہ کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے حوالے سے دہلی پولیس کمشنر نے عدالت میں تو لاعلمی کا اظہار کیا، مگر اس واقعے کی باقاعدہ شکایت درج کرنے والے سول سرونٹ اشیش جوشی کو معطل کردیا گیا۔اشیش جوشی ڈیپارٹمنٹ آف ٹیلی کمیونی کیشن کے ایک عہدیدارہیں۔ کپل مشر ا کی ویڈیو میںدیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والے دشمنوں کو یہاں سے نکال پھینکاجائے گا۔افسر نے 25؍ فروری کو ایک تحریری شکایت کرتے ہوئے کپل مشر ا کی جانب سے ہجوم کو اکسانے کی شکایت کی تھی اور اسے تعزیرات ہند کی دفعہ اور آئی ڈی ایکٹ کے برخلاف اقدام قرار دیا تھا۔ اگلے ہی روز 26؍ فروری کو اُنہیں معطلی کا پروانہ تھما دیا گیا۔ مودی کا مذاق اڑانے والے شو کی بندش ،دلی فسادات پر باز پرس کرنے والے ایک جج کا تبادلہ اورمسلمانوں پر تشدد کے لیے اکسانے والے لیڈر کی شکایت کرنے والے ایک افسر کی معطلی کی خبریںیہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ آج کا بھارت کیسا ہے؟ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکی صدر اسی بھارت میں مذہبی آزادی کی تعریف کررہے تھے۔
درحقیقت یہی وہ حالات ہیں جس نے دنیا کو سب سے خطرناک بنا دیا ہے۔ اسی دنیا کے حکمرانوں کو نوم چومسکی تاریخ کے سب سے بدترین حکمران کہتا ہے۔ جن کے ہاتھ الگ کام کرتے ہیں اور جن کے منہ سے باتیں الگ نکلتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں باگ ِ اقتدار رہنااُن ملکوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔