وجود

... loading ...

وجود

انسانی تاریخ کے بدترین حکمران

پیر 02 مارچ 2020 انسانی تاریخ کے بدترین حکمران

ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ بھارت کو جانے دیں، باضمیر دانشور نوم چومسکی کو یادکرتے ہیں، وہ لکھتا ہے:
’’انسانی تاریخ کے بدترین لوگ اس وقت دنیا پر حکومت کررہے ہیں‘‘۔
چومسکی نے اپنی کتاب ’’ Who Rules the World‘‘میں دنیا کی موجودہ سیاسی بناؤٹ میں ترقی اور انسانی تباہی کی عامیانہ مساوات کے درمیان موجودتباہی کا خطرناک کھیل بے نقاب کیا ہے۔ یہ دنیا کی گناہ آلود تاریخ کا سب سے بدترین دور ہے۔ جس میں آزادی و انسانی حقوق کا سب سے زیادہ چرچا اور اس کا استحصال یکساں اور متوازی طور پر جاری ہے۔ انسان کے لیے امکانات سے مالامال اس سیارے میںانسان کو سب سے زیادہ خطرہ خود انسان سے لاحق ہے جس پر ٹرمپ اور مودی جیسے لوگ حکمرانی کرتے ہیں۔ جو دنیا کو خطرات میں ڈال کر زندگی کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس تناظر کو چومسکی کی کتاب زیادہ روشن کرتی ہے۔ جس میں ایٹمی خطرات کے درمیان تنازعات کے کھیل میں تباہی کی نفسیات رکھنے والے حکمرانوں کا طرزِ عمل بے نقاب کیا گیا ہے۔ یہ سامراجی قوتوں یا سامراج بننے کی طرف مائل قوتوں کا جبر ہے جو جمہوریت کی چھتری بھی رکھتا ہے۔ گویا تباہی ، ایٹمی خطرات ، تنازعات ، استحصال، آپادھاپی، ماراماری، چھینا جھپٹی کے طرزِ عمل میں ترقی، انسانی اقدار، نظام انصاف، برابری، انسانی حقوق کا طرزِ کلام بھی جاری ہے۔یہ انسانی جسم میں موجود اعضاء کے وظائف کی تقسیم ہے جس میں ہاتھ اپنا کام کرتا ہے اور منہ اپنا۔ امریکا کا سامراجیت پر مبنی یہ کردار جس میں وہ انسانی حقوق کے اپنے ہی شور شرابے اور بیانئے سے منہ موڑتے ہوئے حسب ضرور ت مخالف اقدامات کرتا ہے، چومسکی کا موضوع رہا ہے۔ چومسکی جو کچھ لکھتاہے، وہی کچھ گزشتہ دنوںبھارتی سرزمین کے پردے پر ایک فلم کی طرح چلتا رہا۔ ٹرمپ نے مودی کی پیٹھ تھپکی، لگے رہو منا بھائی!!!
یہ اُسی امریکا کا صدر ٹرمپ تھا، جس کی سرزمین پر گجرات فسادات کے بعد مودی کی آمد پر پابندی لگائی گئی تھی۔ یہ وہی بھارت ہے جہاں یشودھا کی ہم جنس اور رادھا کی بیٹی غیر محفوظ ہے، جہاں انسانی حقوق تو دور کی بات ہے ، انسان کو انسان تسلیم کرنے کی راہ میں بھی ہندو عقائد رکاوٹ ہیں۔ جہاں شاہین باغ پر احتجاج جاری ہے، جہاں دہلی فسادات میںمسلمانوں کے کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں۔

اس تضاد کو ایسا ہی ذہن قبول کرسکتا ہے جسے انسانی خون کے بہنے کا منظر لطف دیتا ہو، جسے وحشت سے پیار اور دہشت میں موسیقی سنائی دیتی ہو۔ اس دوئی پر ایک امریکی اینکر بھی چیخ اُٹھا۔ اُس نے کہا کہ گجرات میں مسلمانوں پر تشدد کے باعث تب کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کا امریکا میں برسوں تک داخلہ بند رہا، لیکن دورہ بھارت کے دوران امریکی صدر اُسی مودی کی تعریفیں کرتے دکھائی دیے ۔امریکی اینکر نے کہا کہ مودی کی سرپرستی میں دلی جل رہا تھا، مسلمانوں کی املاک نذرِ آتش ہورہی تھیں تو ٹرمپ مودی کے بھارت میں مذہبی آزادیوں کے دیوانے ہوئے جارہے تھے۔یوں لگ رہا تھا کہ ٹرمپ اور مودی کو روزِ پیدائش ایک ہی طرح کی گھٹی دی گئی ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں ذرائع ابلاغ سے خائف رہتے ہیں۔ دوسری طرف مودی نے سرمائے کے منتر سے بھارتی ذرائع ابلاغ کو رام کیے رکھا ہے۔ مودی کے فروری 2020 کے دورۂ امریکا میں امریکی صدر نے اُن سے ازراہِ مذاق پوچھ ہی لیا تھا کہ آپ اپنے میڈیا کو کیسے کنٹرول کرلیتے ہیں، یہ مجھ سے تو نہیںہوتا۔مگر اب اُسی میڈیا سے نریندر مودی کے بھارت میں مذہبی آزادی کا گلا گھوٹنے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ایک بھارتی صحافی نے کہا کہ صرف ایک دن میں ہندوستان پوری طرح تبدیل ہوگیا ہے۔ اُنہیں دلی کے فسادات دکھانے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ہندو صحافی نے حیرت کااظہار کیا کہ اُن سے دلی کی اصل تصویر پیش کرنے پر مذہبی شناخت مانگی جارہی ہے۔

یہ اصل بھارت ہے، بخدا یہی اصلی بھارت ہے۔ اسی نے پاکستان بنایا۔ یہ ہجوم کی نفسیات سے جنم لینے والے واقعات نہیں، بلکہ ایک منظم منصوبے کے تحت کارگزار ہندو عقائد کے تحت بھارت کی صورت گری ہے۔جس نے دراصل ہندو بھارت کا باطن عیاں کردیا ہے۔یہاں کچھ واقعات اس بھارت کو سمجھنے میں مدد دیں گے۔ ڈزنی کی زیر ملکیت سرویس ہاٹ اسٹار نے کامیڈین جان اولیورکا ہر منگل کی شام دکھایا جانے والا شو روک دیا۔ کیونکہ اس شو میں امریکی صدر کے دورۂ بھارت اور مودی کا مذاق اڑایا گیا تھا۔اس دوران میں ایک دوسرے واقعے نے ہندوستان بھر کے حلقوں کو چونکا دیا۔ مودی حکومت نے دہلی ہائیکورٹ کے ایک جج جسٹس ڈاکٹر ایس مرلیدھر کا تبادلہ پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ کردیا کیونکہ اُنہوں نے دہلی فسادات کانوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ اور دہلی کے پولیس کمشنر کی بازپرس کی تھی۔ جسٹس مرلیدھر دہلی ہائیکورٹ کے تین سینئر ججزمیں سے ایک ہیں۔ دہلی ہائیکورٹ نے بی جے پی سیاست دانوںکپل مشرا، پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر کے اشتعال انگیز بیانات اور تقاریر کا جائزہ لیتے ہوئے اُن کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ مودی حکومت نے اس حکم کے فوراً بعد جسٹس مرلیدھر کا تبادلہ کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے حوالے سے دہلی پولیس کمشنر نے عدالت میں تو لاعلمی کا اظہار کیا، مگر اس واقعے کی باقاعدہ شکایت درج کرنے والے سول سرونٹ اشیش جوشی کو معطل کردیا گیا۔اشیش جوشی ڈیپارٹمنٹ آف ٹیلی کمیونی کیشن کے ایک عہدیدارہیں۔ کپل مشر ا کی ویڈیو میںدیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والے دشمنوں کو یہاں سے نکال پھینکاجائے گا۔افسر نے 25؍ فروری کو ایک تحریری شکایت کرتے ہوئے کپل مشر ا کی جانب سے ہجوم کو اکسانے کی شکایت کی تھی اور اسے تعزیرات ہند کی دفعہ اور آئی ڈی ایکٹ کے برخلاف اقدام قرار دیا تھا۔ اگلے ہی روز 26؍ فروری کو اُنہیں معطلی کا پروانہ تھما دیا گیا۔ مودی کا مذاق اڑانے والے شو کی بندش ،دلی فسادات پر باز پرس کرنے والے ایک جج کا تبادلہ اورمسلمانوں پر تشدد کے لیے اکسانے والے لیڈر کی شکایت کرنے والے ایک افسر کی معطلی کی خبریںیہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ آج کا بھارت کیسا ہے؟ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکی صدر اسی بھارت میں مذہبی آزادی کی تعریف کررہے تھے۔

درحقیقت یہی وہ حالات ہیں جس نے دنیا کو سب سے خطرناک بنا دیا ہے۔ اسی دنیا کے حکمرانوں کو نوم چومسکی تاریخ کے سب سے بدترین حکمران کہتا ہے۔ جن کے ہاتھ الگ کام کرتے ہیں اور جن کے منہ سے باتیں الگ نکلتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں باگ ِ اقتدار رہنااُن ملکوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر