وجود

... loading ...

وجود

احسان کا فرار۔۔اتنی حیرانی کیوں؟

جمعرات 13 فروری 2020 احسان کا فرار۔۔اتنی حیرانی کیوں؟

میں احسان اللہ احسان کے فرار ہونے پر اتنا حیران نہیں ہوا، جتنا لوگوں کی حیرانی نے مجھے حیران کیا۔ اس معاملے کی حقیقت توجلد سامنے آجائے گی۔لیکن پھراس معاملے پر قبل وقت ہوئے بے تحاشہ تبصروں کو کیا نام دیا جائے گا۔شاید انہیں پھرمٹی پاؤ کہہ کر نظر انداز کردیا جائے گا۔لیکن الزامات اورشکوک کے دھندلکے کے پاردیکھنے کے لیے کچھ حقیقتوں کا ادراک بھی بہت ضروری ہے۔اور اس معاملے سے جڑی تین حقیقتیں ایسی ہیں ، جن کے بارے میں پہلے جاننا بے حد ضروری ہے،قبل اس کے، کہ آپ اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی کوشش کریں۔۔

چلیں پہلے اس آڈیو پیغام کا جائزہ لے لیں ، جس میں مبینہ احسان اللہ احسان اپنے فرار کا دعویٰ کررہا ہے۔تاحال آزاد ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ مذکورہ پیغام میں موجود آواز احسان اللہ احسان کی ہے یا نہیں۔تاہم سوشل میڈیا پر شئیر کیے گئے،اس آڈیو کے بارے میں کچھ لوگ اس آڈیو کی تحقیق میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کررہے،اورہلے جلے بغیرمان رہے ہیں کہ یہ احسان اللہ احسان ہی ہے۔خیر احسان اللہ احسان کے مبینہ آڈیو پیغام میں کہا گیا ہے کہ پانچ فروری 2017 کو ایک معاہدے کے بعد اس نے خود کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے کر دیا تھا۔مبینہ آڈیو پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ اس نے تین برسوں تک اس معاہدے کی پاسداری کی لیکن اس کے باوجود ان کو اور ان کے بیوی بچوں کو رہائی نہیں مل سکی۔اس لیے وہ اپنی رہائی کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوا۔اور 11 جنوری کو فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

تو یہ تھی وہ پہلی حقیقت اور وہ آڈیو کلپ جس پر بھی ماضی میں سوشل میڈیا پر ‘‘لاکھوں تجزیہ کاروں’’ نے اپنی ماہرانہ رائے دینا شروع کی۔دوسری بات یہ ہے کہ احسان اللہ احسان سنگین جرائم کا ملزم ہے، اس کے فرار کے حوالے سے ابھی تک واضح سرکاری ردعمل تو سامنے نہیں آیا۔ تاہم مقامی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے سرکاری موقف ضرور پیش کیا ہے، جس کے مطابق ‘‘ احسان اللہ احسان ایک حساس آپریشن کے دوران فرار ہوا، اسے اپنے جرائم کی سزا ملنا تھی۔ احسان اللہ احسان نے2017 میں رضاکارانہ طور پر خود کو انٹیلی جنس اداروں کے حوالے کیا، احسان اللہ احسان نے سرنڈر کرنے سے قبل ہی حساس معلومات فراہم کرنا شروع کردی تھیں۔ابتدائی تفتیش کے بعد احسان اللہ احسان نے 26 اپریل 2017 کو اعترافی بیان دیا جس میں اس نے اپنے ہینڈلرز اور سہولت کاروں کو بینقاب کیا تھا۔تفتیش کے دوران احسان اللہ احسان کی معلومات پر سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے کئی نیٹ ورک توڑے اور بہت سے دہشت گردوں کوپکڑا گیا۔آپریشنز کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ان اہم معلومات کا حصول ضروری تھا، اور ان حاصل کردہ معلومات کے نتیجے میں دہشت گردوں کے خلاف کچھ آپریشنز تاحال جاری ہیں ’’۔

ذرائع کے حوالے سے اس سرکاری بیان کے بعد اس معاملے سے جڑی تیسری بڑی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لیے تین سال ماضی میں چلتے ہیں، جانتے ہیں احسان اللہ احسان نے اپریل 2017 کے بیان میں کیا کہا تھا۔احسان اللہ احسان نیاس بیان میں اعتراف کیا تھا کہ وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کررہا تھا،اس اعترافی بیان کی ویڈیو میں اس نے اپنا اصلی نام لیاقت علی بتایا تھااور کہا تھاکہ اس کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے۔احسان اللہ احسان کے مطابق اس نے زمانہ طالب علمی ہی میں تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور وہ بعد میں تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی کا ترجمان بن گیا تھا۔ویڈیو بیان میں احسان اللہ احسان نے طالبان کے ساتھ اپنے دس سال کے تجربے کی بنیاد پر صاف کہا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان اسلام کے نام پر لوگوں کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو گمراہ کررہی ہے۔ طالبان رہنما خود اپنے نعروں اور دعوؤں پر پورا نہیں اترتے۔اس نے اعتراف کیا تھا تحریک طالبان پاکستان کے زریعے افغان خفیہ ادارہ این ڈی ایس اور بھارتی ایجنسی ‘را’ پاکستان میں دہشت گردی کے اہداف مقرر کرتے ہیں۔اس دہشت گردی کے بدلے ٹی ٹی پی کو معاوضہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔

احسان اللہ احسان کے اس انٹرویو کے الفاظ سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اب بدلا ہوا انسان تھا جو اپنے ماضی کے برعکس کوئی کردار ادا کرنا چاہتا تھا۔چنانچہ ایسے معاملے پرتبصرے کم اور محدود پیرائے کے متقاضی تھے۔لیکن اس وقت بھی اس سارے معاملے پراحساس ذمہ داری کو پرے رکھ کر زیادہ تبصرے کیے گئے تھے۔اس معاملے میں ایک اور تازہ پیش رفت یہ ہے کہ پیر دس فروری کے روزسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے وزراتِ داخلہ سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرارکی تفصیلات 3 دن میں طلب کرلی ہیں۔کمیٹی کے چیئرمین رحمان ملک نے یہ تفصیلات نون لیگی سینیٹرجاوید عباسی کیتوجہ دلاؤ نوٹس پرطلب کی ہیں۔احسان اللہ احسان کے فرار کے معاملے پرسرکاری موقف جلد سامنے آنے کی امید ہے۔ذمہ دارانہ روئیے کا تقاضہ ہے کہ صورتحال واضح ہونے تک اس بارے میں بیان بازیوں سے گریز کیا جائے۔غلط فہمیوں کا پھیلانا اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر