... loading ...
دوستو،کالم کے عنوان نے ہی آپ کو ہنسنے پر مجبور کردیاہوگا۔۔ بیویاں معصوم ہوتی ہیں یا بہت چالاک۔۔اس پر ہمارا اپنا تبصرہ و تجزیہ تو قطعی طور پر محفوظ ہے لیکن ہم آپ کے سامنے کچھ واقعات پیش کررہے ہیں اس سے آپ کو اندازہ ہوجاآئے گا کہ ہم درست کہہ رہے ہیں یا غلط۔۔ تو چلیں اپنی اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔۔
ہمارے پیارے دوست نے ایک بہت معلوماتی تحریر ہمیں بھیجی ہے ،وہ فرماتے ہیں۔۔جاپانیوں کو تازہ مچھلیاں بہت پسند ہیں ، لیکن جاپان کے قریب کے پانیوں میں کئی دہائیوں سے زیادہ مچھلی نہیں پکڑی جاتی لہذا جاپانی آبادی کو مچھلی کھلانے کے لیے ، ماہی گیر کشتیاں بڑی ہوتی گئیں اور پہلے سے کہیں زیادہ دور جانے لگیں ۔۔ماہی گیر جتنا دور گئے ، مچھلیوں کو پکڑ کر واپس لانے میں اتنا ہی زیادہ وقت لگنے لگا۔ اس طرح ساحل تک باسی مچھلی پہنچنے لگی ۔۔مچھلی تازہ نہیں تھی اور جاپانیوں کو ذائقہ پسند نہیں تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ، فشنگ کمپنیوں نے اپنی کشتیوں پر فریزر لگائے۔وہ مچھلی کو پکڑ کر سمندر میں فریز کردیتے۔ فریزرز کی وجہ سے کشتیوں کو مزید دور جانے اور زیادہ دیر تک سمندر میں رہنے کا موقع ملا۔تاہم ، جاپانیوں کو فروزن مچھلی کا ذائقہ بھی پسند نہ آیا۔فروزن مچھلی کم قیمت پڑتی تھی۔تو ، ماہی گیر کمپنیوں نے فش ٹینک لگائے۔ وہ مچھلی کو پکڑ لیتے اور ٹینکوں میں بھر کر زندہ لے آتے ،مگر تھوڑے وقت کے بعد ، مچھلیاں سست ہو جاتیں۔ وہ زندہ تو رہتیں لیکن مدہوش ہو جاتیں ۔۔بدقسمتی سے ، جاپانیوں کو اب بھی اس مچھلی کا ذائقہ پسند نہ آیا۔ چونکہ مچھلی کئی دن تک حرکت نہیں کرتی تھی ، اس لیے تازہ مچھلی والا ذائقہ کھو جاتا۔۔ماہی گیری کی صنعت کو ایک آنے والے بحران کا سامنا کرنا پڑا!لیکن اب اس بحران پر قابو پالیا گیا ہے اور وہ اس ملک میں ایک اہم ترین تجارت بن کر ابھرا ہے۔جاپانی فشینگ کمپنیوں نے اس مسئلے کو کیسے حل کیا؟وہ جاپان میں تازہ ذائقے والی مچھلی کیسے حاصل کرتے ہیں؟مچھلی کے ذائقے کو تازہ رکھنے کے لیے جاپانی ماہی گیر کمپنیوں نے اس مچھلی کو ٹینکوں میں ڈال دیا۔لیکن اب وہ ہر ٹینک میں ایک چھوٹی سی شارک کو شامل رکھتے ہیں۔ شارک کچھ مچھلیاں کھا جاتی ہے ، لیکن زیادہ تر مچھلیاں انتہائی رواں دواں متحرک حالت میں رہتی ہیں۔مچھلیوں کو شارک سے خطرہ رہتا ہے اور اسی وجہ سے وہ متحرک رہتی ہیں اور صحت مند حالت میں مارکیٹ تک پہونچتی ہیں۔وہ اچھی قیمت پر فروخت ہوتی ہیں ۔خطرے کا سامنا انھیں تازہ دم رکھتا ہے!انسانی فطرت بھی مچھلی سے مختلف نہیں ہے۔
ایل رون ہبارڈ نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں مشاہدہ کیااورکہا کہ۔۔”انسان صرف ایک مشکل ماحول کی موجودگی میں عجیب طور پر کافی گرو(grow) اور ترقی کرتا ہے۔جارج برنارڈ شا نے کہا۔۔ اطمینان موت ہے۔۔اگر آپ مستقل طور پر چیلنجوں کو فتح کر رہے ہیں تو ، آپ خوش ہیں۔ آپ کے چیلنجز آپ کو متحرک رکھتے ہیں۔ وہ آپ کو بھرپور زندہ رکھیں گے! آپ بھی اپنے ٹینک میں شارک رکھیں اور دیکھیں کہ آپ واقعی ترقی کرکے کہاں تک جا سکتے ہیں !۔۔ اگر آپ صحت مند ، کم عمر اور متحرک نظر آتے ہیں تو ، یقینی طور پر آپ کے گھر میں بیوی موجود ہے۔جی ہاں شارک کو اپنی زندگی میں موجود رکھئیے۔۔ اور اگر زیادہ متحرک زیادہ جوان زیادہ خوشحال رہنا چاہتے ہیں تو پھر شارک کی تعداد بڑھا کر چار کر دیجئے۔۔ایک ماں نے رخصتی کے وقت بیٹی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔۔دیکھو بیٹی شوہرکا خیال رکھنا،اسے ناراض نہیں کرنا،اگر شوہر روٹھے تو رب روٹھے۔اگر دوسری بار روٹھے تو دل ٹوٹے۔اگر تیسری بار روٹھے تو جگ چھوٹے۔اور اگر بار بار روٹھے تو نکال ڈنڈا لینا اور شروع ہوجانا،جب تک ڈنڈا نہ ٹوٹے۔۔کچھ بیویاں اتنی معصوم ہوتی ہیں کہ سیلزمین نے جب کہا،میڈم آپ کو پیر دبانے والی مشین چاہیئے؟؟ وہ بولی۔۔ نہیں ، میری شادی ہوچکی۔۔
ایک صاحب نے کھانا کھانے کے دوران کسی بات پر اچانک بیوی سے کہا۔۔مجھے لگتا ہے دال میں کچھ کالا ہے۔۔ معصوم بیوی نے آگے سے جواب دیا۔۔ دال میں میرا بال ہوگا کیونکہ وہ کالا ہے یا پھر کالی مرچ ہوگی کیوں کہ کالی مرچ بھی دال میں ڈالی تھی۔۔ایک او رمعصوم بیوی نے اپنے شوہر سے شکوہ کیا۔۔میں آپ کے لیے کتنا کام کرتی ہوں،آپ کا کیا پتہ، شادی کے بعد سے تو کام کرکرکے میرے دونوں ہاتھ چھوٹے ہوگئے ہیں۔۔شوہر نے حیرت سے پوچھا، وہ کیسے؟ تم نے ناپے تھے کیا؟؟ بیوی معصومیت سے بولی ،جی ہاں، پہلے میں ایکسرسائز کرتی تھی تو ہاتھ سے پاؤں کا انگوٹھا پکڑلیتی تھی،شادی کے 15 سال بعد آج کرکے دیکھا تو گھٹنوں تک ہی پہنچے۔۔آئینے کے سامنے کھڑی بیوی نے اپنے شوہر سے بڑے لاڈبھرے انداز میں پوچھا۔۔۔کیا میں بہت موٹی لگتی ہوں؟؟ شوہر نے بیوی پر ایک نظر ڈالی، ہلکا سا مسکرایا اوریہ سوچتے ہوئے کہ کہیں لڑائی شروع نہ ہوجائے کہنے لگا، ارے نہیں،بالکل بھی نہیں۔۔بیوی خوش ہوگئی اور کہا۔۔ٹھیک ہے، پھر مجھے اپنے بازؤں میں اٹھالواور مجھے فریج تک لے جاؤ،مجھے آئس کریم کھانی ہے۔۔شوہر نے حالات قابو سے باہر جاتے ہوئے دیکھ کر کہا۔۔ڈارلنگ تم یہیں رکو، میں فریج اٹھاکرلاتا ہوں۔۔کوئی خاتون خانہ اپنے بچے کے ہمراہ کرائے کا گھر دیکھنے کے لیے گئی، کسی نے کہہ دیا کہ یہاں جن رہتے ہیں۔۔ وہ برجستہ بولی۔۔ کوئی گل نہیں، ادھا کرایہ او،دے دین گے۔۔
جب ایک لڑکے نے اپنی کلاس فیلو کو کہا، میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔لڑکی تڑک کر بولی۔۔شٹ اپ، تمہاری اوقات کیا ہے؟؟ لڑکا بڑی معصومیت سے بولا۔۔ پیرتاہفتہ صبح نوتا شام چھ بجے ،اتوار تعطیل اور وقفہ برائے جمعہ۔۔دوپہر ایک تا تین۔۔ہمارے پیارے دوست بتارہے تھے۔۔ہم نے اسے گھنٹوں ’’موٹی ویٹ‘‘ کیا،تب جاکر اس موٹی نے اپنا ویٹ کیا۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ۔۔پاکستانی عورتیں شاپنگ تین حصوں میں کرتی ہیں۔۔پہلی دفعہ پسند کرنے جاتی ہیں۔۔دوسری دفعہ خریدنے۔۔اور تیسری دفعہ تبدیل کرنے۔۔ہمارے ایک دوست کی آج تک شادی نہیں ہوسکی۔۔لاسٹ ٹائم جو بات چلی وہ بھی بہت المناک انجام سے دوچار ہوئی۔۔لڑکی والے پپو کے گھر رشتے کی بات پکی کرنے کے لیے آئے تو پپو پیاز کھا رہا تھا۔ لڑکی کی ماں نے پوچھا کہ پپو پیاز کیوں کھا رہا ہے ،پپو کی ماں بولی۔۔ پپو جب شراب پی لیتا ہے تو پیاز کھاتا ہے تاکہ مْنہ سے شراب کی بو نہ آئے۔لڑکی کی ماں حیرت سے بولی۔۔ ہائے پپو شراب بھی پیتا ہے ؟پپو کی ماں نے کہا، کبھی کبھی جب مجرا دیکھنے کھوٹھے پر جاتا ہے تو تھوڑی پی لیتا ہے۔لڑکی کی ماں نے دانتوں تلے انگلی دباتے ہوئے کہا۔۔ ہائے پپو کھوٹھے پر بھی جاتا ہے ؟پپو کی ماں نے پھر لقمہ دیا۔۔ بہن وہ تو کبھی کبھی ڈکیتی یا راہزنی میں اچھا مال مل جائے تو زرا چکر لگا لیتا ہے۔لڑکی کی ماں کوجھٹکا لگا ،پوچھنے لگی، پپو ڈکیتیاں اور راہزنیاں بھی کرتا ہے ؟پپو کی ماں بولی۔۔ ہاں مگر آج تک پکڑا نہیں گیا ، جہاں کوئی اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اسے گولی مار کر وہیں قتل کردیتا ہے۔لڑکی کی ماں صوفے سے اٹھ کر کہنے لگی۔۔ بہن معاف کرنا مجھے یہ رشتہ منظور نہیں کیونکہ آپ کا بیٹا پیاز کھاتا ہے۔اس پر پپو کے گھر والوں نے شور شرابہ شروع کردیا کہ صرف پیاز کھانے کی وجہ سے ہمیں رشتہ دینے سے انکار کردیا یہ تو ظلم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔