... loading ...
دنیا بھر میں جمہوریت پر سوالات اُٹھ رہے ہیں، ایک نظام کے طور پر اسے ناکام تصور ثابت کرنے کے لیے نئی نئی کتابیں منظرعام پر آرہی ہیں۔ مگر پاکستان میں اس بدترین، رسواکن اور سوال زدہ جمہوریت کو بھی ہم ترس گئے ۔ گویا دنیا گزشتہ دو صدیوں سے جمہوریت کے تجربات کے ساتھ اپنے جس’’ بدترین‘‘ میں سے’’ بہترین‘ کو تلاش کررہی ہے، اُس بہترین کو تو چھوڑئیے ہم اس کے بدترین کے بھی بدترین کے مستحق قرار نہیں پاسکے۔ ایک حقیقی منتخب جمہوری حکومت کا یقین تاحال عوام نہیں رکھتے۔ درحقیقت ایک انتخابی مشق کے ذریعے عوام کو احساس شرکت دے کر چالیس سے پچاس حلقوں میں’’ ٹائر ٹیوب‘‘ بدل کر اور اس سے بھی کہیں زیادہ حلقوں میں ’’پرانے ٹائروں ‘‘میں ’’پنکچر ‘‘ لگا کر ایک پہلے سے ڈیزائن حکومت ’’چن‘‘ لی جاتی ہے۔ اس طریقۂ انتخاب سے جو انگڑ کھنگڑ اور کاٹھ کباڑ جمع کیا جاتا ہے ، اُن میں صلاحیت ہوتی ہے اور نہ صالحیت۔ یہ’’منتخب لوگ‘‘ مصالحت ،مداہنت ، مسابقت اور مبارزت کے شکار رہتے ہیں۔ اور حکومت نہیں حکومت کی ’’اداکاری‘‘ کرتے کرتے نشانِ عبرت بن جاتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت بھی یہی اداکاری کرتے کرتے عبرت کا نشان بننے کے قریب ہے۔
یہ بات بالائے فہم ہے کہ وزیراعظم عمران خان ایک اتحادی حکومت میں بھان متی کے کنبے پر مکمل انحصار رکھنے کے باوجود ’’جمہوری‘‘ کیوں نہیں بن رہے؟ وہ ایک طفیلی حکومت کے طور پر اپنا مکمل انحصار جہاں ایک طرف اتحادیوں کے ووٹوں پر رکھتے ہیں تو دوسری طرف وہ عملاً مقتدر حلقوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ اُن کی حکومت اتحادیوں کے دم قدم سے ہونے کے باوجود اپنا دم خم ان ہی مقتدر حلقوں کے باعث رکھتی ہے۔ اتحادی تو اُنہیں بعد میںگرائیں گے، وہ جن مختلف مقدمات کی زد میں ہیں، اُن میں سے کوئی ایک بھی اپنی فطری رفتار پکڑ لے تو وہ ’’نااہل‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس تو ایک عیاں اور عریاں مقدمہ ہے۔ مگر کچھ ملفوف معاملات ایسے بھی ہیں جس کی باگ کھلی چھوڑ دی جائے تو عمران خان کا مقدر کوئی گوشۂ تنہائی ہی ہوسکتا ہے۔اس کھلے جبر کے باوجود وزیراعظم عمران خان حکومت سنبھالتے نظر نہیں آتے۔ اتحادیوں کی ناراضی کی کم سے کم پروا کرنے کے ساتھ وہ اپنی ہی جماعت کے اندر بے شمار مسائل کے شکار بھی ہیں۔یہ مسائل اُنہیں کتنے تنگ کررہے ہیں، اس کا اندازا اُن کے اس فقرے کی تہہ داری سے ہوتا ہے کہ ’’سکون قبر میں ہی ملتا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان نے یہ سمجھ لیا کہ اُن کی حکومت بچانے کی ذمہ داری بھی اُن کی نہیں بلکہ اُن کی ہے جن کی وجہ سے یہ حکومت قائم ہے؟ اس تصور کے بغیر عمران خان کا رویہ سمجھ میں نہیں آتا جو اُنہوں نے اتحادیوں کے ساتھ روا رکھا ہے۔
ایم کیوایم کے پاس اس حکومت سے منسلک ہو نے کااختیار تھا اور نہ ہی اس حکومت سے علیحدہ ہونے کااختیا رہے۔ وہ ایک جبری اتحاد کا حصہ ہے ۔ اُصولی طور پر وہ جس ’’جبر ‘‘ سے کراچی کا کنٹرول رکھتے تھے، اس پر تحریک انصاف نے ڈاکہ ڈالا ہے۔ یہ عملاً چور کے گھر چوری کی واردات تھی۔ ایم کیوایم نے انتخابات میں اسی چیز کا ذائقہ چکھا جسے وہ کراچی کی ’’لذت‘‘ بنا چکے تھے۔ اس بنیاد پر تحریک انصاف اُن کے اتحادی نہیں بلکہ سیاسی حریف ہے۔ مگر ایم کیوایم نہ صرف تحریک انصاف سے چمٹی ہوئی ہے بلکہ وہ احتجاجاً وزارت چھوڑنے کے بعد بھی حکومت کے ساتھ اپنے اتحاد کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ ایم کیوایم نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اپنے ایک وزیر پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ ایم کیوایم سے حکومت کے مختلف وفود نے جو بھی بات چیت کی ہے اس کا کوئی نتیجہ تاحال نہیں نکل سکا۔ ایم کیوام مقدمات کے جبر اور بطور جماعت بقا کے مسئلے سے دوچار ہے۔ اُن کے پاس اپنے تحفظ کے لیے واحد راستا طاقت ور حلقوں کے سامنے سرجھکائے رکھنا اور اُن کی منشاء کے مطابق خود کو ڈھالے رکھنا ہے۔ تاکہ وہ مزید ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ سے بچ سکیں۔
پنجاب کا سیاسی حال اس سے زیادہ خوار وزبوں ہے۔ وسیم اکرم پلس کی بلی’’ غٹر غوں‘‘ کررہی ہے۔یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی بال وپر نکالا سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے خیبر پختون خواہ کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے حوالے سے پچھلی حکومت میں جو تجربہ کیا تھا، اس کے بعد پنجاب میں ایک اطاعت گزار اور فرماں بردار ، بزدار کی شکل میں تلاشا گیا۔مگر عملاً فرماں بردار بزدار نے تحریک انصاف میں ہی ایک گروپ نکال کر عمران خان کے سامنے کھڑا کردیا ہے۔ عثمان بزدار ہی نہیںگورنر پنجاب چودھری سرور بھی شکوہ سنج ہے کہ بیورو کریسی اُن کی نہیں سن رہی۔ وزیراعظم عمران خان نے نامعلوم دباؤ یا اپنی معلوم سیاسی کم فہمی سے پنجاب میں ایسی بیورکریسی کو مامور کردیا جو طاقت ورحلقوں کے ساتھ مضبوط روابط کے ساتھ بروئے کار ہے۔ چنانچہ وہ سیاسی ہی نہیں سرکاری احکامات کو بھی خاطر میں نہیں نہیں لارہی۔ اس پر وزیراعلیٰ اور گورنر پنجاب کی چیخیں بلند ہورہی ہیں۔ ان ہی حالات میںپنجاب میں تحریک انصاف کے اندر ایک گروپ نے سر اُٹھایا ہے۔ جس کا مقدمہ خود وزیراعلیٰ پنجاب لڑرہے ہیں۔ عمران خان کے لیے بہت تھوڑے عرصے میںیہ ’’میری بلی مجھے میاؤں‘‘والے حالات ہیں۔ وزیر اعظم کا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ عثمان بزدار کی شکل میں ایک فاش سیاسی غلطی کر چکے، بلکہ اس سے بھی زیادہ تباہ کن خطا یہ ہے کہ وہ اس غلطی کو سمجھ ہی نہیںپارہے۔ عمران خان کو پنجاب میں اصل مسئلہ کیا درپیش ہے؟
پنجاب، خیبر پختونخوا نہیں تھا۔ وزیر اعظم کو پنجاب میں ایک مضبوط اور طاقت ور سیاسی آدمی کی ضروت تھی۔ کیونکہ یہاں اُن کا مقابلہ چار دہائیوں سے سیاست پر کسی نہ کسی طور چھائے شریف خاندان سے تھا۔ جو بیوروکریسی سے لے کر نظر نہ آنے والے مگر حکومت پر اثرانداز ہونے کی غیر روایتی طاقت رکھنے والے عناصر پر اب تک اپنی گرفت رکھتا ہے۔ یہ تمام قوتیں سیاسی بحران سے لے کر معاشی بحران پیدا کرنے کی حساب کتاب کے ساتھ صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس طرح پنجاب میں شریف خاندان سے صرف حکومت ہتھیانا کافی نہیں تھا بلکہ ان عناصر سے حقیقی طاقت کی باگ لینا بھی ضروری تھا۔ ایسے تمام عناصر کا متبادل بنے بغیر پنجاب کے سیاسی و معاشی حالات کو قابو نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان تو اس پہلو سے سیاسی ادراک رکھنے کی کوئی صلاحیت سرے سے رکھتے ہی نہ تھے ، مگر اس معاملے میں مقتدر حلقے بھی سوچنے سمجھنے میں مکمل ناکام رہے۔ چنانچہ پنجاب میں ایک سے دوسرا بحران سر اُٹھاتا ہے، اور حکومت تماشا ختم کرنے کے بجائے خو دتماشا بن رہی ہے۔ اس پورے معاملے کا اصل نکتہ یہ تھا کہ عمران خان نے یہ سب جنتر منتر کی نظر سے دیکھا۔ حالانکہ شریف خاندان ایسے سیاسی جن تھے جواس نوع کے کسی بھی جنتر منتر کے حصار میںنہیں آتے تھے۔یہ خمیازہ بھگتنے اور بھگتتے رہنے والی غلطی تھی جو ہوگئی۔ اب عثمان بزدار ایک طرف وہ شخصیت نہیں جو مضبوط سیاسی متبادل کے طور پر تحریک انصاف یا عمران خان کی جانب روایتی یا غیر روایتی طاقت ور عناصر کو متوجہ کرتے۔ دوسری طرف وہ مسائل کا حل بننے کے بجائے خود ایک مسئلہ بن گئے۔ اب وہ ایک گروپ بنا کر آنکھیں الگ دکھا رہے ہیں۔
یہ سب کا فی نہ تھا کہ عمران خان کی حکومت کے لیے اتحادیوں کی شکل میں ایک مستقل چیلنج پنجاب میں کھڑا ہے۔ پنجاب کے چودھری برادران سیاست میں کسی نہ کسی طرح ایک ایسا مقام پا لیتے ہیں جو کسی حد تک فیصلہ کن بن جاتا ہے۔یہ تو اب کوئی راز نہیںرہا کہ وزیراعظم چودھری برادران سے خوش نہیں۔دوسری طرف چودھری برادران بھی حکومت کے لیے کوئی نہ کوئی دردِ سر پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیوایم طاقت ور حلقوں کے ساتھ جبر اور چودھری برادران صبر کے ساتھ وابستہ ہیں۔وہ ہر دور میںکسی نہ کسی شکل میں ایک ضرورت بن کر کوئی نہ کوئی کردار تلاش کرلیتے ہیں۔ عمران خان مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے حوالے سے چودھری برادران کے کردار کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف چودھری برادران پنجاب میںاختیارات اور اپنے ساتھ وعدوں کا رونا روتے ہیں۔ اِدھر حکومت کے جی ڈی اے کے ساتھ بھی روابط انتہائی پتلے ہیں۔اطلاع یہ ہے کہ وہ اپنے دونوں وزراء ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور محمد میاں سومرو کو حکومت سے دستبردار کرانے پر غور کرر ہے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو بحران حل ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ اس عالم میں آپ اتحادیوں کو منابھی لیجیے تو کیا ہوا؟ٹانکے تو اکھڑ چکے، باریک سوراخ رہیں گے۔ بلوچستان کے اتحادی باقاعدہ صوبائی حکومت کے اندر وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے لیے کھلے عام گیارہ ووٹوں کی بات کررہے ہیں۔ اس سیاسی منظرنامے کا سبق یہ ہے کہ سہاروں پر کھڑی حکومت کو سیاست بھی لچکیلی کرنا ہوتی ہے۔ پھلدار درخت کی شاخیں جھکی رہتی ہیں۔ اور بے ثمر درخت تنے رہتے ہیں۔ عمران خان غور کریں کہیں اتحادیوں کا شیرازہ بکھر تو نہیں رہا۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ تن کر تو غوروفکر بھی نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔