... loading ...
دوستو، جیسا کہ آپ سب لوگ اچھی طرح باخبر ہیں کہ ہم جس دور میں زندہ ہیں وہ ’’افراتفری‘‘ کا دور ہے۔۔ پیسہ، شہرت، ہوس،لالچ، حسد،بغض، کینہ، لاپرواہی غرضیکہ ہر قسم کے معاملے میں ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے ، سب چاہتے ہیں کہ سب کچھ حاصل کرلیں۔۔لیکن وقت سے پہلے اور نصیب سے زیادہ کے خواہش مند ہمیشہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور افراتفری کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جو شاید جب تک دنیا ہے چلتا ہی رہے گا۔۔ ہم نہیں چاہتے کہ آپ افراتفری کا شکار ہوں۔۔اسی لیے آپ کے لیے افرا۔تفریح لے کے آئے ہیں تاکہ آج چھٹی والا دن آپ کا خوشگوار گزرے ۔۔کہتے ہیں جب موڈ خوشگوار ہو تو دنیا میں سب کچھ اچھا ،اچھا لگنے لگتا ہے۔۔سڑے ہوئے موڈ سے تو اپنی اولاد اور خوب صورت بیوی بھی چڑیل سے کم نہیں لگتی۔۔موڈ اچھا ہوتو برسات بھی اچھی لگتی ہے ، موڈ خراب ہوتو باران رحمت کو زحمت کہنے کے سوالزامات زبان پر آجاتے ہیں۔۔موڈ اچھاہوتو ٹھنڈ کا لطف اٹھانے کے لیے ڈرائی فروٹ، آئس کریم ، گرم مشروبات یا خاص ڈشزاچھی لگتی ہیں لیکن موڈ خراب ہوتو یہ سب چیزیں جیب پر بوجھ لگنے لگتی ہیں۔۔اسی لیے کہتے ہیں۔۔ افراتفری میں نہیں ، افراتفریح میں رہیں۔۔
کہتے ہیں کہ پاکستانی بڑے سیانے ہوتے ہیں۔۔ ایسی ایسی ’’جگاڑ‘‘ ڈھونڈ لیتے ہیں کہ انگریز سرپکڑ کر رہ جائے۔۔ اب یہ بات انگریز کے آباؤاجداد کے علم میں نہیں ہوگی کہ دو ’’ہاف‘‘ پلیٹ ایک ’’ فل‘‘ پلیٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔۔حالانکہ پلیٹ بھی انگریز کی ہی ایجاد ہے۔۔ویسے پلیٹ سامنے ہوتو خودبخود کھانے کا موڈ سا بن جاتا ہے۔۔سیانے کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہے۔۔لیکن سیانے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ غلط حرکتیں شروع کردیں۔۔کھانے پر یاد آیا۔۔آٹا بحران پر بٹ برادری کے ترجمان نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ۔۔ملک میں آٹے کے بحران سے ہماری قوم کا کوئی تعلق نہیں۔۔کچھ لوگ اتنا کھاتے ہیں کہ انہیں کھاتے دیکھ کر ہی سامنے والے کا پیٹ بھرجاتا ہے۔۔ باباجی فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں جوبھی چیز بنتی ہے نہایت خشوع و خضوع سے کھائی جاتی ہے، ہمارا ملک بھی ستائیس رمضان المبارک کوبنا تھا ،بس اسی لیے سب مل کر اسے کھارہے ہیں۔۔۔ہمارے پیارے دوست کو آج کل ڈائٹنگ کا بھوت سوار ہے، روزانہ صبح لمبی واک اور جاگنگ بھی کرتے ہیں۔۔ ان کا کہنا ہے کہ ۔۔جب ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر جرابیں پہنتے ہوئے مشکل محسوس ہونی شروع ہو جائے تو سمجھ جاؤ ڈائٹنگ کا وقت ہوا چاہتا ہے۔۔
ایک دن بیگم صاحبہ،پروفیسر صاحب سے لڑ رہی تھیں کہ ۔۔چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی ہوتی ہوں ، کام ختم ہی نہیں ہوتے لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ آپ کی طرح نہ تو کبھی سالانہ انکریمنٹ لگتی ہے اور نہ ہی پروموشن ہوتی ہے۔۔پروفیسر نے کہا، میری انکریمنٹ لگے یا پروموشن ہو ، ظاہر ہے سب کچھ تمہارا ہی ہے لیکن پھر بھی تمہارے دونوں گِلے دور کر دیتا ہوں۔۔ہر سال تمہاری پاکٹ منی میں ایک ہزار کا اضافہ ہوگا۔۔بیگم نے ہنستے ہوئے کہا ، ڈن ہوگیا ، اب پروموشن کی بات کریں۔۔پروفیسر نے کہا،میری کسی بیس بائیس سال کی جوان بیوہ سے شادی کرا دو۔۔تم سینئر ہوجاؤ گی اور وہ جونئیر اور ثواب فری میں ملتا رہے گا۔۔اب بیگم پروموشن لینے سے بھی انکاری ہیں اور نعوذ باللہ ثواب کمانے سے بھی۔۔۔دیکھنے میں آیا ہے کہ موڈ خراب کرنے والوں پر آیا غصہ ہمیشہ موڈ ٹھیک کرنے والوں پر ہی نکل جاتا ہے۔۔باباجی فرماندے نے۔۔ زیادہ تر لوگ نصیحت اس لیے دیتے ہیں کیونکہ یہ ان کے استعمال میں نہیں ہوتی۔۔ہمارے پیارے دوست نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آکیسجن والے کمبل متعارف کرائیں تاکہ ہر دس منٹ بعد سانس لینے کے لیے کمبل سے منہ باہر نکالنے والا سیاپا تو ختم ہو۔۔ہمیں امید ہے وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی اگلی سردیوں تک ایسا کوئی کمبل ایجاد کرالیں گے۔۔کل ہم نے سوشل میڈیا پر کسی دوست کااسٹیٹس پڑھا۔۔ انہوں نے لکھا تھا کہ۔۔دنیا کا سب سے طاقتور پاسپورٹ ہمارے ملک کا ہے ، آپ دنیا میں جہاں بھی جائیں ائرپورٹ پر امیگریشن حکام والے کہتے ہیں، سر آپ لائن میں کیوں کھڑے ہیں، ذرا سائیڈ پر آجائیں۔۔اس بات میں بھی سوفیصد حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ون وے روڈ بھی انسان دونوں طرف دیکھ کر کراس کرتا ہے۔۔
کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ لڑکیاں اگر دماغ پڑھ سکتی تو ہر دومنٹ بعد کسی نہ کسی لڑکے کا گال لازمی سرخ ہوتا رہتا۔۔اگر کبھی آپ نے بچوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ہوتو لڑائی کا اختتام بھی لازمی دیکھا ہوگا۔۔بچوں کی لڑائی کا اختتام اس جملے پر ہوتا ہے۔۔پہلے اسے کہو بال چھوڑے پھر میں چھوڑوں گا ۔۔۔یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ جب اس کی تصویر اچھی آجائے تو فوری سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں ،ساتھ والا چاہے عارف لوہار کے چمٹے جیسا لگ رہا ہو۔۔ہم لاہور میں چار سال مستقل رہے، وہاں ہم نے ایک بات خاص طور سے نوٹ کی کہ۔۔پنجابی بندے کے لیے دنیا کا سب سے مشکل کام،کسی معزز بندے سے گفتگو کرتے ہوئے ’’گالی‘‘ پر کنٹرول رکھنا ہے۔۔سوشل میڈیا پر آپ کو ہزاروں ایسی لڑکیاں ملیں گی جو ہفتہ ہفتہ نہیں نہاتی اور نام پوچھو تو ۔۔مہک، خوشبو، حنا رکھا ہوتا ہے۔۔ہمارے معاشرے میں آئی فون رکھنا اسٹیٹس بن چکا ہے۔۔لیکن باباجی نے اس کا توڑ بھی نکال لیا ہے۔۔باباجی کہتے ہیں کہ۔۔جب کوئی آپ کے سامنے اپنا آئی فون الیون پکڑ کر فخرسے سامنے آئے تو آپ بھی جلدی سے جیب سے چلغوزے نکال لیں،اس کی ساری اکڑ نکل جائے گی۔۔باباجی نے کرپشن کا توڑ بھی نکال لیا ہے۔۔فرماتے ہیں۔۔جب کوئی آپ سے چائے پانی مانگے تو اسے جعلی نوٹ تھمادیں،کرپٹ انسان پیسہ فوری جیب میں ڈالتا ہے چیک بھی نہیں کرتا۔۔
تم نے خاوند کا سر کیوں پھاڑا؟؟پولیس والے نے ملزمہ سے سختی سے پوچھا۔۔وہ کہنے لگی۔۔ روز بتاتی ہوں کہ گھر میں آٹا ، دال ، گھی نہیں بچے بھوکے ہیں ، آگے سے کہتا ہے ، بس صبر کرو مشکل وقت ہے گزر جائے گا ، جلد ہی سب کچھ ہو گا۔۔ہفتہ گزر گیا،سالا مفت خورا خود دوستوں کے ساتھ کھانا کھا کر گھر آتا ہے اور ہمیں کہتا ہے مشکل وقت ہے ذرا صبر کرنا پڑے گا ، گزر جائے گا۔۔جج نے وکیل سے کہا۔۔تم حد سے بڑھ رہے ہو۔۔وکیل نے برجستہ کہا۔۔کون سالا کہتا ہے؟؟۔۔جج کو غصہ آگیا، دھاڑتے ہوئے کہا۔۔شٹ اپ،تم مجھے ’’سالا‘‘ کہہ رہے ہو؟؟ وکیل مسکرا کر کہنے لگا۔۔ سر سمجھنے کی کوشش کریں میں کہہ رہا ہوں،کون سا law کہتا ہے۔۔۔لڑکی کے باپ نے جب کہا کہ۔۔میں نہیں چاہتا کہ میری بیٹی اپنی ساری زندگی ایک گدھے کے ساتھ گزار دے۔۔لڑکابولا۔۔ اسی لیے تو میں اس کو لے جانے کے لیے آیا ہوں۔۔ ایک سردار جی گھر داماد تھے. ان کی بیوی اور سالی جڑواں بہنیں تھیں اور دونوں کی شکل ایک جیسی تھی۔ان سے کسی نے پوچھا کہ۔۔ آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے بیوی کون ہے اور سالی کون؟؟۔۔کہنے لگے۔۔چونڈی وڈھن نال۔۔پوچھنے والے نے کریدا، وہ کس طرح؟؟۔۔سردار جی آنکھ مار کے ہنستے ہوئے بولے۔۔‘میں چونڈی وڈھدا واں۔جے مسکران لگ پوے تے سالی،جے بھونکن لگ پوے تے بیوی اے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔شکر ہے واٹس ایپ کا اردو ورژن نہیں آیا۔۔ورنہ’’ لاسٹ سین ‘‘کی جگہ لکھا آتا۔۔۔۔’’آخری دیدار‘‘۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔