... loading ...
دوستو، آپ سب نے بچپن میں جب پڑھائی شروع کی ہوگی تواردو کا پہلا سبق، الف سے انار، بے سے بلی، پ سے پتنگ پڑھا ہوگا۔۔لیکن ہم نے ہمیشہ پ سے پولیس پڑھا۔۔کیوں کہ ہمیں بچپن سے ہی پولیس والا بننے کا شدید جنون تھا۔۔ پھر جب بڑے ہوئے، شعور آیا، ذمہ داریاں سر پر آئیں تو کسی اور نگری کے مسافر بن گئے مگر آج بھی پ سے پولیس والا سبق نہیں بھولے۔۔یہ اور بات ہے کہ اب اگر آپ موازنہ کریں تو پ سے پولیس ہی بنتا ہے۔۔ اگر ’’پیسے‘‘ نہ ہوں تو پولیس والا نہیں بن سکتا۔۔اگر’’پیسے‘‘ نہ ہوں تو پولیس والوں سے کوئی کام نہیں نکل سکتا۔۔ بس اب آپ خود ہی اندازہ لگالیجئے کہ ہم بچپن سے کتنے دوراندیش تھے اور کتنی دور کی سوچتے تھے۔۔چلیں پھر آج کچھ پولیس کے حوالے سے کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کرلیتے ہیں۔۔
زبان زدعام ہے کہ سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے قوم کو ہیروئین اور کلاشنکوف کے تحفے دیئے، کلاشنکوف دہشت گردوں کا فیوریٹ ہتھیار ہے، ضیاء الحق کے دنوں میں ان پر ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ ایسے لطیفے جب خود جنرل ضیاء کے کانوں تک پہنچے تو انہوں نے خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا کہ تحقیقات کرکے ان پر لطیفے بنانے والے شخص کا کھوج لگاکر اسے انکے سامنے حاضر کیا جائے۔۔آخر کارطاقتورترین خفیہ ادارے نے لطیفے بنانے والے ایسے سیاسی قیدی کو انکے آگے پیش کیا ۔۔سرلطیفے بنانے والا ملزم حاضر ہے۔۔جنرل ضیاء نے اپنے ’’ملزم‘‘ سے پوچھا۔۔تمہیں مجھ پر لطیفے بنانے کی جرات کیسے ہوئی۔ تمہیں معلوم نہیں کہ میں پاکستان کا پاپولر لیڈر ہوں؟۔۔ لطیفے بنانے والے نے کہا ’’بہرحال یہ لطیفہ میں نے نہیں بنایا۔
‘‘
دہشت گردوں کے مقابلے میں پولیس کے پاس وہی پرانے فرسودہ ہتھیار ہیں،اس کے باوجود ہمارے جوان بے جگری سے دہشت گردوں کی سرکوبی کرتے نظر آتے ہیں۔۔ایک زمانہ تھا جب ہمارے وزیرداخلہ صاحب آئے روز ایسے بیانات دیتے رہتے تھے کہ دہشت گردوں نے فلاں شخص‘ فلاں ادارے یا فلاں بلڈنگ کو ٹارگٹ کرنے کا ارادہ کر لیا یااب ٹارگٹ کلر فلاں شہر میں‘ فلاں اہم شخصیت کو ٹارگٹ بنائیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔ اس ساری صورتحال سے ایک بڑا پرانا لطیفہ یادآرہا ہے کہ ایک شخص دوسرے سے پوچھتا ہے کہ فرض کیا تم جنگل میں اکیلے جارہے ہو اور سامنے سے شیر آجاتا ہے تو اس شیر سے بچنے کیلئے تم کیا کرو گے ؟دوسرا شخص کہتا ہے کہ میں فوراً اپنا پستول نکالوں گا اور اسے فائر مار کے ڈھیر کردوں گا اور خود اپنی منزل کی طرف چل پڑوں گا۔ پہلا شخص کہتا ہے کہ فرض کیا تمہارے پاس پسٹل بھی نہ ہو اور شیر سامنے سے حملہ کردے تو تم کیا کرو گے اس نے کہاکہ میں اپنا چاقو نکالوں گا اور اس کے دماغ کا تاک کے نشانہ لوں گا ‘چاقو اس شیر کے دماغ میںپیوست ہوجائے گا اور وہ وہیں ڈھیر ہوجائے گا تو میں اپنی راہ لوں گا۔پہلے شخص نے پھر کہاکہ فرض کیا تمہارے پاس چاقو بھی نہ ہو تو پھر تم کیا کرو گے؟ دوسرے شخص نے کہاکہ میں بھاگ جاؤں گا‘ پہلے شخص نے پھر کہاکہ تمہارے پاس بھاگ جانے کا وقت اور راستہ بھی نہ ہو پھر تم کیا کروگے ؟ دوسرا شخص پریشان ہوکر پہلے شخص کو کہتا ہے کہ یا ر یہ بتاؤ کہ تم میرے ساتھ ہو یا شیر کے ساتھ۔۔
ویسے ایک وقت تھا جب ملک پر شیر کی حکومت تھی، عوام شیر کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں، شیر تو عوام کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، ایک زمانہ وہ بھی تھا جب عوام کو بتایا گیا کہ سارا آٹا شیر کھاگیا۔۔ویسے سچی بات تو یہ ہے عوام کا سیاست دانوں پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا ہے۔۔ایک بار سیاستدانوں کی بھری بس کہیںجا رہی تھی۔ حادثہ ہوا اور بس الٹ گئی۔ ایک کسان پاس ہی تھا۔ وہ فوراً ٹریکٹر لے آیا اور گڑھا کھود کر سارے بندے بمع بس کے دفن کر دیئے۔۔اگلے دن پولیس تحقیقات کرتی آئی تو کسان نے انہیں ساری تفصیل بتائی۔ پولیس نے پوچھا کہ کیا تم نے جائزہ لیا تھا کہ وہ سارے مر چکے تھے یا ان میں سے کوئی زندہ بھی تھا۔۔کسان بولا کہ آدھی سے زیادہ بس والے کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں۔ پر سر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سیاست دان کتنے جھوٹے ہوتے ہیں۔۔؟؟
بات پولیس کی ہورہی تھی، درمیان میں سیاست دان آگئے، جب کہ ہوتا الٹا ہی ہے جب سیاست دانوں پر بات آتی ہے تو بیچ میں پولیس آجاتی ہے۔۔ایک باراپوزیشن کے ایک لیڈر کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا۔۔بچے سے پوچھا۔۔ بیٹے آپ کے ابو القاعدہ میں ہیں کیا؟۔۔ بچہ بولا۔۔ پاپا کا تو پتہ نہیں ،میں نورانی قاعدہ میں ہوں۔۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔ اور دیکھیں میں بھی اس بات پر متفق ہوں کیوں کہ میرے پاس اس بات کا ثبوت بھی ہے۔۔جب بھی کہیں چوری یا ڈکیتی ہوتی ہے تو وہاں پر پولیس لیٹ پہنچتی ہے کیوں کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں پیر نہیں۔ اور چوری،ڈکیتی ہونے کے فورا” بعد یا پہلے پولیس اپناحصہ وصول کر لیتی ہے۔ کیا اب بھی نہیں مانو گے کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔۔پولیس افسر نے ملزم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جج سے کہا۔۔’’ جناب عالی! اس چھڑی کے سرے پر انسان نہیں ایک شیطا ن کھڑا ہے۔‘‘ ملزم حیران ہوکرکہنے لگا۔ ’’حضور! ان سے یہ بھی پوچھ لیجئے کہ کس سرے پر…؟‘‘۔۔ایک حاضر سروس ڈی آئی جی نے اپنے بچے کو کہا۔۔ بیٹا یہ تمہارا رزلٹ کتنا خراب ہے ،آج سے تمہارا ٹی وی دیکھنا، کرکٹ کھیلنا سب بند۔۔بچہ کہنے لگا۔۔ پاپا کیوں ناراض ہوتے ہو ، یہ لو سو روپے اور معاملہ ادھر ہی ختم کردیں۔۔سابق آئی جی سندھ نے اپنے بڑے صاحبزادے سے کہا۔۔تم یہ کیوں سمجھتے ہو کہ پولیس والے جنت میں نہیں جا سکتے؟ ۔۔۔صاحبزادے نے کہا۔۔اس لیے کہ وہاں ان کے کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہو گا۔۔ایک سردار جی پولیس میں بھرتی ہوگئے۔۔ پہلے ہی دن ڈیوٹی پر پہنچا کہ ٹیلفون کی گھنٹی بجی۔ سردار نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے ایک خاتون بولی۔۔ ہمارے گھر کے گارڈن میں ایک بم پڑا ملا ہے ۔۔’’ فکر کی کوئی بات نہیں ‘‘ سردار نے اطمینان سے کہا۔۔ اگر 3 دن تک کوئی لینے نہ آیا تو آپ اپنا سمجھ کے رکھ لیجئے گا۔۔
ایک بہت ہی عیار اور مکار مجرم کو گرفتارکرنے پر ایک انسپکٹر کو انعام دیتے ہوئے ڈی آئی جی صاحب نے پوچھا۔۔انسپکٹر تمہیں کیسے پتہ چلا کہ عورت کے بھیس میں وہ کوئی مرد مجرم ہے؟؟انسپکٹر نے سادگی سے جواب دیا۔۔ سر ! مجرم وغیرہ تو مجھے پتا نہیں تھا۔۔ مجھے تو وہ عورت ہی لگی تھی لیکن ذرا مشکوک دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے اس کا پیچھا شروع کر دیا۔ وہ ایک اپارٹمنٹ میں گھس کر چیزیں دیکھنے لگی۔ وہاں بہت سے آئینے بھی لگے ہوئے تھے۔ جب وہ کسی آئینے کے سامنے نہیں رْکی تب میں سمجھ گیا کہ وہ عورت نہیں ہے ۔۔ایک شخص رات کو زخمی حالت میں سڑک پر پڑاتھا۔۔پولیس پہنچی ، ابتدائی رپورٹ تیارکی، اس شخص کے ہوش آنے پرپولیس والوں نے پوچھا۔۔۔کیا تم شادی شدہ ہو؟۔۔زخمی شخص نے گھبرا کر جلدی سے جواب دیا۔۔جی میں بیوی کی ٹکر سے نہیں بلکہ گاڑی کی ٹکرسے زخمی ہوا ہوں۔۔باباجی کا ایک بار بکرا مر گیا۔۔اپنے لڑکے کو بلایا اور کہا۔۔بیٹا یہ بکرا جاکر تھانے دے آؤ، میں نے سنا ہے وہ حرام کھاتے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔حق تلفی و ناانصافی ایسے ہی قابل نفرت عوامل ہیں جسے کسی مسلمان کے نزدیک حرام گوشت کا لقمہ۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
………………………..