... loading ...
پاکستان میں سب کچھ بدلتا رہتا ہے، صرف سیاست دان نہیں۔امریکی مصنف اور مزاح نگار مارک ٹوئن کا ایک فقرہ ضرب المثل بن گیا ہے
:
“Politicians and diapers must be changed often, and for the same reason.”
’’سیاست دان اور ڈائپرز یکساں سبب سے اکثر بدلے جانے چاہئے‘‘۔
پارلیمنٹ میں آرمی ایکٹ پر تین بڑی سیاسی جماعتوں کے یکساں رویہ اور ایک جیسی حمایت سے لگتا ہے کہ مارک ٹوئن کا فقرہ مزاح کے لیے نہیں بلکہ حقیقی شعور کا نتیجہ تھا۔ یہ ایک غیر معمولی بات نہیں کہ مسلم لیگ نون نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا اور پورے پاکستان پر اس کے اچھے بُرے اثرات بھی پیدا کیے مگر پارلیمنٹ میں اچانک اپنے ماضی کو دُہرایا اور آرمی ایکٹ کی حمایت کرکے اپنے نئے نعرے کے دھوکے میں مبتلا حامیوں کو ہکا بکا چھوڑ دیا۔کچھ لکھاری اسے ’’بڑے بے آبرو ہو کر بیانئے کو ہم بدلے‘‘قرار دے رہے ہیں۔ کچھ اسے افسانوی رنگ وروپ سے تعبیر کا مسئلہ بنا رہے ہیں۔ کچھ ’’ سیاسی رومان کا المناک انجام‘‘ قرار دینے کے باوجود ’’بیانیہ زندہ ہے‘‘ کے فریب خوردہ تصور سے الجھے ہوئے ہیں۔ کوئی نوازشریف کے انتخابی جلسوں میں گونجنے والے شعر، اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی ، کے ’’طائر لاہوتی‘‘ کو ڈھونڈ رہا ہے۔ ایک نے وفاقی وزیر کے الفاظ سے ’’جادو کی چھڑی ڈھونڈی‘‘۔اور ایک صاحب کو سیاست دانوں کو اچانک لاحق ’’چپ کی بیماری‘‘ ستانے لگی۔کہیں ’’الوداع ، میاں صاحب الوداع‘‘ کی گونج گمک بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نون لیگ سے امیدیں باندھنے والے کالم نگار، تجزیہ کار اور دانشور کیا اُس کے ماضی کو فراموش کرگئے تھے۔ کیا اُنہیں نون لیگ کی سیاست کے مرکز ومحور سے واقفیت نہ تھی۔ کیا وہ رفاقت کے فریب میں اُن کی تاریخ پڑھنا بھول گئے تھے۔ کچھ اور نہیں نواب زادہ نصر اللہ خان اپنی زندگی کے آخر میں نوازشریف کے دھوکے کا زخم لے کر رخصت ہوئے۔
ذرا اپنی ماندہ یادداشتوں کو اُجاگر کریں۔جنرل مشرف کی جانب سے 12؍ اکتوبر 1999 کو ایک منظم جبر کے ساتھ اقتدار پر قبضے کے بعد یہ نواب زادہ نصر اللہ خان تھے جنہوں نے بحالی ٔ جمہوریت کا ڈول نئے سرے سے ڈالا تھا۔ اس سے قبل وہ نوازشریف کے اقتدار میں جمہوری جبر سے نالاں تھے اور جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے متحرک تھے۔ مگر جب پرویز مشرف کا جرنیلی جبر مملکت کے درودیوار سے کابوس کی مانند لپٹنے لگا تو اُنہوں نے اے آر ڈی کی بنیاد ازسر نو رکھی۔ نوازشریف کی مسلم لیگ نون اس کا سرگرم حصہ بنی۔ یہاں تک کہ ایک روز نوازشریف نے پرویز مشرف کے ساتھ ایک خاموش معاہدہ کیا اور جدہ جلاوطنی کی زندگی اپنے لیے پسند کر لی۔ اگر چہ شریف خاندان ہمیشہ اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکاری رہا یہاں تک کہ اس کے بیرونی ضامنوںسعودی انٹیلی جنس کے تب کے سربراہ شہزادہ مقرن اور لبنان کے سابق وزیراعظم کے بیٹے سعد حریری نے ستمبر 2007 میں اس معاہدے کی کاپی ہوا میں لہرائی تھی۔ بعدازاں اس معاہدے کے حوالے سے یہ بحث جاری رہی کہ نوازشریف کی جلاوطنی کا معاہدہ پانچ سال کے لیے تھا کہ دس سال کے لیے تھا۔ نوازشریف کے باب میں ہمیشہ یہ بات پاکستان کے مقتدر حلقوں سے سنائی دیتی ہے کہ وہ کسی معاہدے کی پاسداری نہیں کرتے۔الغرض نوازشریف کی جدہ روانگی پر نواب زادہ نصراللہ خان نہایت دل گرفتہ اور دل شکستہ تھے۔ بالاخر صحافیوں نے تب اُن کے گھر کا رخ کیا اور نوازشریف کی جدہ جلاوطنی سے متعلق دریافت کیا۔ اُنہوں نے تب جو شتابی ارشاد کیا وہ شریف خاندان کی سیاسی تشریح کے لیے ایک وجدانی تفہیم رکھتا ہے۔ نواب زادہ کے الفاظ تھے:
’’عمر بھر سیاست دانوں سے معاملہ کرتے رہے پہلی بار تاجروں سے واسطہ پڑا، وہ ہمیں بیچ باچ کر چلے گئے‘‘۔
ونسٹن چرچل نے دوٹوک کہا تھا
:
’’Politics is not a game. It is an earnest business.‘‘
(سیاست ایک کھیل نہیں ، یہ ایک سنجیدہ کاروبار ہے)
معلوم نہیں ہماری لکھاری تجزیہ کار کہاں سے شریف خاندان میں نظریاتی آن بان ڈھونڈ لائے تھے۔ تاریخ نے پلٹ کر ان کی بصیرت وبصارت پر کاری وار کیا ہے۔ اس میں شریف خاندان کا کوئی قصور نہیں ۔ اُنہوں نے وہی کیا جو وہ تاریخی طور پر کرتا آیا ہے۔بدقسمتی سے صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے جولائی اور اگست سے شروع ہونے والے شریف خاندان کے ساتھ خاموش معاملات پر دھیان دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ جب کالم نگار نوازشریف کے گرد جعلی عزیمت کی داستانیں بُن رہے تھے تو وہ جیل سے اُکتا کر ایک مرتبہ پھر اپنا ماضی دہرانے کو کمر بستہ ہوچکے تھے۔ ایک طرف کہا جا رہا تھا کہ باقی صوبوں سے سیاست کی آبرو بڑھاتے جنازے اُٹھے مگر پنجاب ا س تاریخ سے محروم ہے۔ نوازشریف یہ سوچتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دینے کے بیانئے کے لیے اگر ایک جنازہ پنجاب کی جیل سے اُٹھتا ہے تو تاریخ کادھارا مڑ جائے گا۔ یہ پیر کی اپنی اڑان نہ تھی بلکہ یہ مرید تھے جو پیر کو ہوا میں اڑا رہے تھے۔ اس جعلی اور پرفریب چھوی کو تراشنے والے تاریخ ، صحافت اور معروضیت کے مجرم ہیں۔ ان کے الفاظ حرمت ناآشنا ہیںاوران کا شعور محض دسترخوانی ہے۔ درحقیقت نوازشریف انتہائی خاموشی سے اگست میں جیل کے اندر کچھ اہم ملاقاتوں کے ذریعے دل یاشکم میں سے شکم کا راستا چُن چکے تھے۔ ڈیل کے رخ ورخسار سنوارنے والے اچھی طرح جانتے تھے کہ نوازشریف اب جیل مزید نہیں گزارسکتے۔ چنانچہ اُن کے پاس جیل سے نجات کا پروانہ تھمانے کی پیشکش ہی سب سے بڑی تھی ۔ باقی ذیلی امور طے کرنے میں کچھ زیادہ وقت نہ لگاتھا۔ نوازشریف اپنی بیٹی کو بھی ساتھ لے جانے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ جب یہ معاملات سِریّت کی تہہ داریوں سے اُبھریں گے تو راز کھلے گا کہ کس طرح مریم نواز کو بطور ضمانت یہاں روکا گیا۔ اور کیسے نوازشریف کو یہ یاد دلایا گیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک کیوں اور کن وجوہات کے باعث ناقابلِ اعتبار ہیں۔ اُنہیں تمام طے شدہ معاملات پر پوری طرح عمل درآمد کرنے کا اعتبار پیدا کرنے پر مریم نواز کی بیرون ملک روانگی کا یقین دلایاگیا۔ ان معاملات پر جتنا بھی غور کیا جائے تو یہ راز کھلتا ہے کہ سیاست کتنی بے حیا ہوتی ہے۔
یہ راز بھی اب منکشف ہونے کے قریب ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ایک اسٹیبلشمنٹ حامی اور دوسرا مخالف چہرہ درحقیقت ایک ہی منصوبے کا حصہ ہے۔ شریف خاندان کو یہ دوچہرے رکھنے کا ہمیشہ فائدہ ہوتا رہا ہے ۔ اُن کے لیے کبھی ایک چہرہ اور کبھی دوسرا چہرہ کسی نہ کسی شکل میں مفید ثابت ہوتا آیا ہے۔ مگرآرمی ایکٹ کی حمایت کے حوالے سے اب یہ فاصلہ کم سے کم ہو گیا ہے۔ درحقیقت اس کی حمایت کے لیے جو پیغام مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کو لندن سے ملا وہ نوازشریف کی جانب سے تھا،شہباز شریف کی جانب سے نہیں۔ اس دفعہ یہ پیغام راز میں نہیں رہا۔ اور خواجہ آصف کو پارٹی کے اندر جاری مسلسل مخالفت کے باعث صاف لفظوں میں پیغام کی وضاحت کرنا پڑی۔ درحقیقت خواجہ آصف کا یہ رویہ نوازشریف کی صاحبزادی کو زیادہ نہیں بھایا۔ اُنہوں نے پارٹی اجلاس سے قبل کچھ ایم این ایز کے ذریعے اس حمایت کا ملبہ خواجہ آصف اور شہبازشریف پر ڈالنے کی کوشش کی مگر یہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس طرزِ سیاست پر غور کریں تو اندازا ہوتا ہے کہ کس طرح سیاست میں بے وفائی کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ اور کیوں اقتدار کی سیاست خاندان کو نگل لیتی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس سیاست کی تاریخ کے وارث نوازشریف یہ نعرہ لگاتے رہے کہ وہ اقتدار کی نہیں اقدار کی سیاست کرتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ شریف خاندان اپنی ہر طرح کی متضاد اور متناقض سیاست کے لیے اپنے حامیوں سے یکساں حمایت چاہتے ہیں۔ اُنہیں اپنی ضرورت کے مطابق جب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانا ہوتا ہے تو تب اُس کی حمایت بھی درکار ہوتی ہے اور جب بوٹ کو عزت دینی ہوتو اس کی حیلہ جوئی بھی چاہئے ہوتی ہے۔ یہ کام زرخرید ذرائع ابلاغ اور دسترخوانی قبیلہ تو کرسکتا ہے مگر آزاد صحافت اور خوددار قبیلے کے لیے یہ روش قے آور ہے۔ مارک ٹوئن کا مشورہ غلط نہیں سیاست دان اور ڈائپر بدل لینے چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔