... loading ...
ایران کے پاس سپاہِ پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے ردعمل میں امریکا اور اس کے مفادات سے بدلہ چکانے کے لیے بہت سے آپشنز ہیں۔پاسداران انقلاب کی بحریہ خلیج عرب میں بحری جہازوں کو ہراساں کرسکتی ہے یا ان پر حملے کرسکتی ہے یا پھر آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی بھی کوشش کرسکتی ہے۔اس تنگ آبی گذرگاہ سے دنیا کے توانائی کے بیشتر وسائل ہوکر گذرتے ہیں۔ایران خطے میں امریکی فورسز ، اڈوں یا اتحادیوں پر راکٹ حملے کرسکتاہے۔اس میں اسرائیل کے خلاف یا خلیج میں توانائی کے انفرااسٹرکچر کے خلاف حملے بھی شامل ہیں۔لیکن شاید سب سے تشویش کا سبب دہشت گردی اور گماشتہ نیٹ ورکس ہیں جن کی نگرانی قاسم سلیمانی خود کیا کرتے تھے۔ایران عراق میں امریکی فورسز پر انتقامی حملوں کے لیے ان نیٹ ورکس کوفعال کرسکتا ہے یا انھیں خطے اور دنیا بھر میں دہشت گردی کے حملوں کے لیے بروئے کار لاسکتا ہے۔بہت سے لوگوں کو یہ تشویش لاحق ہے کہ ایران کی جانب سے خونیں ردعمل سے کشیدگی کو بڑھاوا مل سکتا ہے اور ممکنہ طور پر مشرقِ اوسط میں ایک مکمل جنگ چھڑ سکتی ہے۔تاہم یہ تجزیہ کار،ایران اس وقت جس مشکل صورت حال سے دوچار ہے،اس کو نظر انداز کررہے ہیں۔
ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای اپنے آیندہ اقدام کو عملی جامہ پہنانے سے قبل گومگو کی صورت حال سے دوچار ہیں۔قاسم سلیمانی ایک قومی ہیرو تھے۔ان کے بدلے کے لیے اگر کوئی ظاہری اقدام نہیں کیا جاتا ہے تو خامنہ ای اس صورت میں کم زور نظر آئیں گے۔وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ اگر وہ بہت آگے جاتے ہیں تو اس صورت میں دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے ساتھ ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے نظام کا بھی خاتمہ ہوسکتاہے۔خامنہ ای یقینی طور پر ایک ایسا جواب دینے کی تیاری کررہے ہیں جس سے ان کی ناک اونچی رہے۔انھیں جواب دینے کی ضرورت ہے لیکن یہ زیادہ سخت بھی نہیں ہونا چاہیے۔امریکا اب ان خدشات سے کھیل رہا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ اتوار کو ایران کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ امریکا یا اس کے اتحادیوں کے خلاف انتقام میں کوئی بڑی کارروائی کرتا ہے تو اس کے جواب میں ایران میں باون اہداف کی ایک فہرست تیار کر لی گئی ہے اور ایران کے لیے اہمیت کی حامل ان جگہوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔امریکااس کے علاوہ عراق اور شام میں ایران کے آلہ کار (پراکسی) نیٹ ورکس کو بھی نشانہ بناسکتا ہے۔وہ ایرانی بحریہ کو ڈی گریڈ کرنے کی دھمکی دے سکتا ہے( جیسا کہ 1988ء میں سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کے دورِ حکومت میں کیا گیا تھا۔)وہ ایران کے اندر اعلیٰ قدری اہمیت کے حامل اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ان میں ایران کی جوہری تنصیبات ،تیل کے ٹرمینل اور بیلسٹک میزائلوں کا پروگرام شامل ہے۔ المختصریہ کہ، صدر ٹرمپ نے تہران کو یہ باور کرادیا ہے کہ اس تنازع میں کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے امریکا کی نسبت ایران کا زیادہ نقصان ہوگا۔
مزید برآں امریکا نے گذشتہ ہفتے کے روز خطے میں مزید فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔یہ بھی سدِّ جارحیت کو تقویت پہنچانے والا ایک پیغام ہوسکتا ہے۔فوجی نفری کی یہ قسط بھی امریکا کی ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم کومزید تقویت دے گی۔اب تک اس مہم کے دوران میں امریکا نے ایران کی معیشت کے خلاف مالیاتی جنگ پر تمام تر انحصار کیا ہے اور اس کے خلاف سخت بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں عاید کی ہیں۔ان پابندیوں نے ایران کی معیشت کو مضمحل کردیا ہے لیکن اس مہم کے دوران میں قومی طاقت کے تمام آلات ووسائل کو استعمال نہیں کیا گیا ہے۔گزشتہ جمعہ کی کارروائی نے یہ بات واضح کردی ہے کہ امریکا کی ایران کے بارے میں وسیع تر حکمتِ عملی کیتحت فوجی آپشنز اب دوبارہ زیرغور ہی نہیں،زیرِ عمل آرہے ہیں۔