وجود

... loading ...

وجود

ایسا ہوگا 2020 ۔۔۔!
(راؤ محمد شاہد اقبال)

پیر 06 جنوری 2020 ایسا ہوگا 2020 ۔۔۔!<br> (راؤ محمد شاہد اقبال)

گزرا سال کیسا رہا اور ہماری دنیا کو کس کس طرح سے متاثر کرتا رہا ،یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کیونکہ گزرے سال ظہور میں آنے والے ہر واقعہ کا ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی طور سے براہِ راست شکار بھی رہا ہے اور عینی شاہد بھی ،لیکن اِس کے باوجود الیکٹرانک میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیا تک میں سال 2019 میں بپا ہونے والے اہم ترین واقعات کے تجزیاتی خلاصے پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیئے جا رہے ۔یاد رہے کہ یہ سب پہلی بار نہیں ہورہا ہے بلکہ ہر سال ہی ہمارے ہاں تسلسل کے ساتھ گزرے سال پر تجزیات کے خصوصی ضمیمے و سالنامے پیش کیئے جاتے رہے ہیں اور ہم سب بھی انہیں پورے ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں ۔ کیونکہ من حیث القوم ہمارا ماننا ہے کہ یادِ ماضی ، آنے والے مستقبل کو بہتر سے بہترین بنانے کا سبب بنتی ہے ۔ جس طرح انسان کو اپنے ماضی میں بے حد دلچسپی ہوتی ہے،اِس سے کہیں زیادہ میلان انسانی طبیعت میںمستقبل کے اندر جھانکنے کا بھی پایا جاتا ہے ۔اپنے اِسی میلان اور جذبے کی تسکین کے لیئے حضرتِ انسان ہزارہا برس سے علمِ نجوم سے خصوصی استفادہ کرتا آیا ہے ۔ کیونکہ جہاں حال اور ماضی کا زمینی علم ہمیں اپنی غلطیوں کا پھر سے اعادہ کرنے سے روکتا ہے، وہیں مستقبل کا آسمانی علم ہمیں آنے والے حالات و واقعات کا مقابلہ کرنے کے لیئے پیش بندی کی خصوصی طاقت عطا کرتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نئے سال کی آمد کے موقع پر علم نجوم کی روشنی میں دنیا بھر میں رونما ہونے والے متوقع حالات و واقعات کے سمندر کو علمی محاکمہ کے کوزہ میں بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ 2020 کے متوقع خدوخال کی کچھ صورت گری ممکن ہو سکے۔

 

سال 2020 ،اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کا اختتام بھی ہے اور دوسری دہائی کا نقطہ آغازبھی ۔اِس لحاظ یہ سال دنیا بھر میں ایسے نئے اور پیچیدہ سیاسی حالات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ،جس کا منطقی انجام دنیا کے نقشہ میں وسیع وعریض ردو بدل کا باعث بھی بن سکتاہے ۔ یعنی اِس برس دنیا بھر میں ایسے سیاسی حالات و واقعات کا تیز رفتاری کے ساتھ ظہور ہونا شروع ہوجائے گا جو اگلے چند ہی برسوں میں 20 سے زیادہ نئے ممالک کے قیام کا باعث بن سکیں گے۔ جبکہ وہ تمام ممالک جو گزشتہ تیس ،چالیس برسوں سے دنیا بھر میں مذہبی منافرت کی بنیاد پر مختلف ممالک کے جغرافیائی حدود میں ردو بدل کی’’غیر سفارتی‘‘ کوشش اور سازشیں کر رہے تھے ۔اِس سال کی آمد کے فوراً بعدہی اِن تمام ممالک میں اندرونِ خانہ سیاست، نسل، زبان ،قومیت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر علحیدگی کی آوازیں سنائی دینا شروع ہوجائیں گی۔خاص طورپر رواں برس امریکہ ، بھارت ،برطانیہ ،فرانس ،جرمنی اور تمام خلیجی ممالک میں انارکی اور انتشار میں شدید اضافہ ہوگا ۔ ابتداء میں اِن ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے ملک میں ہونے والی احتجاجی تحاریک کو بذور قوت دبانے کی بھرپور کوشش کریں گی لیکن 2020 کے اختتام تک اِن ممالک میں چلنے والی علحیدگی اور حقوق کے حصول کی بنیاد پر چلنے والی تحریکیں اتنی زیادہ سیاسی قوت اور عوامی تائید ضرور حاصل کر لیں گی کہ جن کے سامنے آخر کاراِن ممالک کی طاقت ور حکومتوں کو بھی سرنگوں ہونا پڑجائے گا۔
رواں برس چین سپر پاور بننے کی طرف اپنے دو ، چار قدم مزید آگے بڑھائے گااور 2020 کے اختتام تک چین کے اردگرد کوئی نہ کوئی ایسی غیر متوقع جنگی صورت حال ضرور پیدا ہو جائے گی کہ چین کو پہلی بار دنیا بھر کے سامنے اپنی عسکری صلاحیت کا کھل کر مظاہر ہ کرنے پر مجبور ہونا پڑجائے گا۔ یعنی رواں برس امریکہ بھلے ہی چین کے ساتھ نہ اُلجھے لیکن چین اور بھارت کے درمیان محدود پیمانے پر عسکری جھڑپیں ہونے کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں ۔یقینا اِن جنگی جھڑپوںکا حتمی نتیجہ بھارت کی ہزیمت پر ہی منتج ہوگا۔اس کے علاوہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت سیاسی اور معاشی لحاظ سے 2020 میں پورا سال زبردست گرواٹ کا شکار رہے گا۔ ایک مرحلہ تو ایسا بھی آجائے گا کہ جب بھارتی عوام کی جانب سے ملک میں مارشل لاء لگنے کے اندیشے ظاہر کیئے جانا شروع ہوجائیں گے۔ بہرحال بھارت کا اندرونی انتشارو خلفشار اُسے تیزی کے ساتھ جمہوریت سے آمریت کی طرف لے کر جانا شروع ہوجائے گا۔جبکہ اِس سال بھارت میں علحیدگی پسند تحریکوں کی طاقت میں بھی زبردست اضافہ ہوگا اور کئی چھوٹی بڑی ریاستیں از خود ہی بھارت کی وفاقی اکائی سے علحیدگی کا اعلان کردیں گی۔ اگر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بات کی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ رواں برس آسمانی کونسل پر بننے والی منفی نظرات کی وجہ سے مودی ملک میں اور ملک سے باہر شدید ترین سیاسی افلاس وتنہائی کا شکار ہوتے ہوئے نظر آئیں گے اور اِن کا سنگھاسن ہوا کے دوش پر جھولتا ہوا صاف صاف دکھائی دے گا۔

2020 مملکت خداداد پاکستان کے لیئے کافی حد تک سکون اور اَمن کا سال رہے گا۔ اِس برس پاکستان کو اپنے معاشی اشاریے درست کرنے کے لیئے قدرت کی طرف سے غیر معمولی امداد و اعانت میسر آجائے گی ۔ جبکہ حکومت ِ وقت کے لیئے بھی مارچ ،اپریل اور اکتوبر کے مہینوں کو چھوڑ کر سارا سال استحکام کا ہی باعث ہوگا۔لیکن درج بالا مہینے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حکومت کے لیئے سیاسی حوالوں سے کافی احتیاط طلب ہیں ۔کیونکہ اِن مخصوص مہینوں میں اپوزیشن کی طرف سے حکومت وقت پرشدید سیاسی دباؤ رہے گا۔ جبکہ یہ برس پاکستان میں نظام کی تبدیلی کے لیئے بھی ساز گار ہوگا اگر رواں برس پاکستان کا نظام مکمل طور پر تبدیل نہیں بھی ہوسکا تو پھر بھی اس برس کے اختتام تک چند ایسی بنیادی تبدیلیاں ضرور کر لی جائیں گی ۔ جن سے آنے والے برسوں میں پاکستان میں نظام کی تبدیلی راہ ہموار ہوسکے ۔ خاص طور پر 2020 کا اختتام اشارہ کرتا ہے کہ اگلا سال پاکستان کے نظام حکومت میں وسیع تبدیلیوں کی نوید لے کر آئے گا۔ بہرحال مسلم لیگ ن کے لیئے 2020 ایک انتہائی بُرا سال ہے ،ہوسکتا ہے کہ اِس جماعت سے تعلق رکھنے والے مختلف رہنما دوسری سیاسی جماعتوں میں جانے کا اعلان کردیں ۔ اس کے علاوہ شریف خاندان کے کم و بیش تمام افراد مکمل طور پر ملک سے باہر روانہ ہوجائیں گے۔ یہ برس مسلم لیگ ن کے رہنما چوہدری نثارعلی خان کو بھی واپس پاکستانی سیاست میں متحرک کرنے کا باعث بنے گا۔

 

پاکستان پیپلزپارٹی کے لیئے یہ برس نت نئے سیاسی تنازعات لے کر آئے گا۔ خاص طور پر تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی لڑائی بدستور جاری رہے گی ۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی وزارتِ اعلیٰ اِس برس سنجیدہ نوعیت کے قانونی خطرات کا شکار رہے گی ۔ خاص طور پر مارچ سے لے کر اگست تک کا وقت مراد علی شاہ کے لیئے کافی مشکل ہوگا۔ اگر یہ وقت وہ بحفاظت کامیابی کے ساتھ گزار لیتے ہیں تو پھر اگلے برس تک اُن کی وزارت اعلیٰ ہر قسم کے خطرات سے محفوظ و مامون ہوجائے گی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کی صحت کو اِس برس طبی نوعیت کے سنگین خطرات لاحق رہے گے جبکہ بلاول بھٹو زرداری گزشتہ دو برسوں کی طرح اِس برس بھی ملکی سیاست میں اپنی کامیابی کا سفر بدستور جاری رکھیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ شریف خاندان کے بیرونِ ملک چلے جانے سے بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی قد و قامت میں مزید اضافہ ہوگا ۔جبکہ اِس برس وہ اپنی جماعت کو پنجاب میں بھی تنظیمی حوالے سے کافی مضبوط کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ویسے یہ سال بلاول بھٹوزردار ی کی شادی کے لیئے بھی کافی ساز گار ہے۔

 

2020 میں چند ایسی محیرالعقول ساعتیں بھی واقع ہورہی ہیں جن کا ظہورکئی دہائیوں کے بعدہونے جارہا ہے ۔خاص طور پر مشتری اور زحل کا قران، یاد رہے کہ علمِ نجوم میں قران ایک ایسی خاص تیکنیکی اصطلاح ہے جس کا اثر سحری لحاظ سے عظیم تر شمار کیا جاتا ہے ۔سمجھنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ مشتری اور زحل کے قرانات کے سالوں کے لے کر تاریخ کے اوراق سے اہم ترین واقعات کی فہرست مرتب کی جائے تو منکشف ہوتا ہے کہ دنیا میں جب بھی عظیم ترین واقعاتی تبدیلی رونما ہوئی ہے تو وہ مشتری اور زحل کے قران کے بعد ہی ہوئی ہے۔علم نجوم کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ یہ قران دنیا کے قواعد و قوانین اور رسم و رواج کو یکسر بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے۔یعنی اِس قران کے وقوع پذیر ہونے کے بعد دنیا کا ورلڈ آرڈر مکمل طور پر بدل جاتاہے جبکہ مشتری اور زحل کا یہ قران ہمیشہ سے پوری دنیا کی قوموں کے احوال ، مزاج اور نظریات پر عجیب و غریب اثرات مرتب کرتا آیا ہے ۔

 

اس صدی کا پہلا قران رواں برس 31 دسمبر 2020 کو برج دلو میںہورہا ہے ۔ یہ قران جنگوں کو زمین سے خلا پر منتقل کرنے کا باعث بنے گا۔ آپ سادہ لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مشتری و زحل کے اِس قران کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ہماری دنیا 360 ڈگری پر ایسا یوٹرن لے لی گی کہ جس کے بارے میں فی الحال سوچنا بھی ایک کارِ محال ہوگا۔کیونکہ اَب تک ہم نے جتنی بھی سائنسی ترقی دیکھی ہے وہ زمین اور یہاں پر رہنے والے باسیوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن اِس سال ہمیں پہلی بار یہ مشاہدہ کرنے کا موقع میسر حاصل ہو گا کہ ا انسان صرف زمین کے وسائل پر قابض ہونے کے لیئے ہی نہیں بلکہ خلا کی ملکیت حاصل کرنے کے لیئے بھی آخری حد تک جاسکتاہے۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ رواں برس خلا میں بھی انسانی بداعتدلیوں کے باعث سنگین ترین جرائم اور حادثات کا ظہور ہونا شروع ہوجائے گا اورخلا پر انسان کے قبضہ کی یہ جنگ اہلِ زمین پر کیا کیا قیامت ڈھائے گی فی الحال اِس کا اندازہ نہ ہی لگائیں تو زیادہ بہتر ہے ۔واللہ اعلم باالصواب۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر