... loading ...
ایسا اکثر خوابوں میں ہوتا ہے، جب لمحہ بہ لمحہ منظر بدل رہا ہوتا ہے،کبھی آپ اپنے بستر سے محو پرواز ہوجاتے ہیں، اور پھر آپ کسی کار میں اور پھر سائیکل پر اور پھر ہواؤں میں غوطے کھا رہے ہوتے ہیں، خواب جاری رہتا ہے لیکن منظر لمحہ بہ لمحہ بدل رہے ہوتے ہیں، پھر آپ اپنے اسکول کے دور میں پہنچے ہوتے ہیں تو کبھی آپ اافس کی طرف بار بار گھڑی دیکھ کر دوڑ لگا رہے ہوتے ہیں اور لیٹ ہونے کے خوف سے سوتے میں بھی آپ بے چینی محسوس کررہے ہوتے ہیں، اور اسی دوران اچانک منظر بدل جاتا ہے، اور آپ کسی سڑک پر بھاگ رہے ہوتے ہیں جہاں پیچھے بم دھماکہ ہوچکا ہوتا ہے اور اس کا گہرا دھواں آپ کا پیچھا کررہا ہوتا ہے۔منظر پھر بدلتا ہے اور آپ پرستان میں ہوتے ہیں جہاں آپ کو والہانہ انداز میں خوش آمدید کہا جارہا ہوتا ہے پریاں، پرندوں کی طرح ہوا میں آپ کے گرد ہالہ بنائے ہوتی ہیں اور وہیں پر آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔
دوستو: ایسا خوابوں میں ہی ہوسکتا ہے جب منظر اس قدر تیزی سے بدلیں، کہ منظروں کے موضوع تک بدل جائیں۔ لیکن کیا کیجئے کہ مملکت خداد پاکستان کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے جہاں منظرنامہ لمحہ بہ لمحہ بدلتا ہے، اور آپ کسی ایک ماجرے پر ابھی پوری طرح حیران بھی نہیں ہوپاتے کہ دوسرا معاملہ سامنے آجاتا ہے جو پہلے معاملے پر ایسا غالب آتا ہے کہ لوگ پہلی بات ہی بھول جاتے ہیں۔یوں ایک کے بعد دوسرا ، دوسرے کے بعد تیسرا ، اور پھر لگتا ہے کہ جیسا یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن چکا ہے۔۔ بقول شاعر
خواب میں ہوں یا جاگ رہا ہوں
اس سمت کبھی اْس سمت بھاگ رہا ہوں
اسی طرح ماضی میں بھی جتنا پیچھے جاتے جائیں الگ الگ واقعات کے ورق الٹتے جاتے ہیں۔خیر ذیادہ دور کیا جانا ، پاناما معاملے سے ہی شروع کرلیں، کس قدر پیچ و خم آئے،اورآج بھی سیاست کا یہ دھارا ناگن کی طرح بل کھا رہا ہے۔صرف اس ایک معاملے سے ہی شاخ در شاخ کتنے معاملے وجود میں آچکے ہیں۔ اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان قوم آخر اتنے مسائل ہونے کے باوجود سڑکوں پر کیوں نہیں آتی تو ، کبھی لگتا ہے کہ اس بات کا جواب بھی شاید وہ خواب ہی ہے ، کہ ہر لمحہ بدلتی صورتحال سے یہ قوم حیرانی کے سمندر سے باہر ہی نہیں نکل پارہی۔ حیرانی کے سمندر میں تلاطم اس قدر ہے کہ اس نکلنا مشکل ہورہا ہے، جیسے کوئی خواب جاری ہو اور محو خواب کو ادھر ادھرا اڑا لے جارہا ہو۔ اوروہ بے چارہ خود کو سنبھالے ، یا سڑکوں پر آکر اپنے حقوق کی بات کرے۔
دو ماہ پہلے فرانس میں پٹرول مہنگا ہونے پر اس قدر بڑے میں مظاہرے ہوئے کہ ہم دفتر میں ان کی خبریں بنا بنا کر تھک گئے، پیرس میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے ، پیرس ہی کیا، فرانس کے دیگر شہروں میں بھی لوگ باہر نکلے، یوں لگا کہ پورا فرانس جیسے سڑکوں پر نکل آیا ہو۔ پیرس میں عوام کا جم غفیر اس قدر، کہ چاہیں تو تختہ الٹ کر ہی واپس جائیں ، لیکن چونکہ پٹرول سستا کرانے نکلے تھے اس لیے حد سے آگے نہیں بڑھے ، تمام تر زور اپنے اس مطالبے پر ہی لگایا جس کی منظوری کے لیے وہ باہر نکلے تھے، اورجس مسئلے کی وجہ سے انہیں زندگی میں کچھ مشکل محسوس ہوئی تھی۔ یعنی معمولی مہنگائی۔
شاید کسی مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کے لیے زہنوں کو کھلا ماحول ہی جب ملتا ہے، جب وہ مسائل کے سمندر میں غوطے نہ لگا رہے ہوں اور ایک کے بعد ایک مشکل انہیں نہ آن رہی ہو، شاید یوں ہی انہیں کسی مشکل پر غور کرنے، اسے سمجھنے اور اس پر احتجاج کرنے کے فیصلے کا موقع ملتا ہے۔ اسی پر شاید شاعر یوں بھی کہتا ہے
مجسم حیرت ہوں کیا کہوں
لفظ ڈھونڈوں یا کھوئے لمحے
ایک بار کچھ درد مند پاکستانیوں نے ایک محفل سجائی۔ سوچا گیا کہ عوام کو مسائل سے نکالنے کے لیے کون سااحتجاج کیا جائے۔غور ہوا کہ سب سے بڑا ایک مسئلہ کون سا ہے جس کو لیکر سڑکوں پر نکلا جائے؟ عمومی معاملات کے بجائے کسی ایک معاملے پر مکمل فوکس کی بات ہورہی تھی۔محفل میں ایک صاحب نے مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا،وہیں پر سوال بھی اٹھ گئے کہ کس چیز کی مہنگائی؟ پیٹرول کی ، گیس کی ؟ یا بجلی کی ؟ یا پھر آلو ٹماٹر کی یا گوشت اوردال کی ؟ یا پھر روٹی کی یا کپڑے کی یا مکان کی ؟ یہ نہیں تو ٹرانسپورٹ کی یا دیگرزرائع موصلات کی۔ یوں اس محفل میں صرف مہنگائی جیسے ایک مسئلے میں دسیوں مسائل سامنے آگئے۔ اس موقع پر کسی نے کہا کہ مہنگامی کو عمومی طور پر مسئلہ مان کر احتجاج کیا جائے۔ جس پر یہ رائے آئی کہ عمومی نعرے میں وزن پیدا نہیں ہوتا۔ کسی ایک چیز پرفوکس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یوں تعلیم کے شعبے سے متعلق احتجاج پر غور ہوا تو پتا چلا اس شعبے سے متعلق مسائل کی تعداد مہنگائی سے متعلق مسائل سے بھی ذیادہ ہے، ہیلتھ کے شعبے سے متعلق احتجاج پر بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہاں بھی مسائل کی تعداد کئی درجن سے کم نہیں ہے، کسی نے کہا امن و امان بڑا مسئلہ ہے اس پر احتجاج کیا جائے، تو مزید رائے سامنے آئیں کہ امن و امان میں کس جرم کو فوکس کیا جائے، اسٹریٹ کرائمز کو یا عام چوری ڈکیتیوں کو، یا جیب کترنے کو یا بھتہ گیری کو ، اغوا برائے تاوان کو یا شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کو یا پھر بچوں سے ذیادتی اور قتل کو۔ یوں گھمبیرمسائل سامنے آتے گئے ہر مسئلہ پہلے مسئلے بڑا محسوس ہوتا گیا۔ یوں بات کرپشن پر آئی، سیاسی جماعتوں کے مزاج پر آئی، دہشت گردی پر آئی ، مسائل پر مسائل سامنے آتے گئے، ان مسائل سے جڑیدسیوں دیگر مسائل بھی سامنے آتے گئے۔ یقین جانیں اس محفل کے ایک شریک کار کا کہنا ہے کہ ہم مسائل کے سمندر میں جیسے غوطے لگانے لگے تھے، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس ایک مسئلے کو لیکر احتجاج کیا جائے۔جیسے جیسے بحث آگے بڑھ رہی تھی شرکا الجھتے جارہے تھے اور بالکل کسی خواب کی طرح شاید وہ بھی اس وقت الجنھوں کے سمندر میں غوطے لگارہے تھے۔کچھ بے بسی سے سر بھی پیٹ رہے تھے۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جِگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
اس میٹنگ میں کیا طے پایا اس کو تو جانے دیجئے۔لیکن وہاں جو ہوا وہ اس قوم پر بھی شاید صادق آتا ہے کہ اس قدر تلاطم میں ہے کہ خود کو سنبھال نہیں پارہی اور ایسے میں وہ اپنے مسئلہ نمبر ایک کو پہچاننے کے بجائے خود کو سنبھالنے کی تگ و دو میں ہی ہے اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، جس میں اب بہت تیزی آچکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔