وجود

... loading ...

وجود

کوالالمپور کانفرنس...سیاسی زائچہ ( راؤ محمد شاہد اقبال)

جمعرات 26 دسمبر 2019 کوالالمپور کانفرنس...سیاسی زائچہ ( راؤ محمد شاہد اقبال)

ملائیشیا کے وزیراعظم مہا تیر محمد کی زیرِ میزبانی کوالالمپور میں ہونے والی کانفرنس کا موضوع’’قومی سلامتی کے حصول میں ترقی کا کردار ‘‘ تھا۔ ویسے تو اجتماع کا عنوان ہی یہ بتانے کے لیے کافی و شافی ہے کہ مسلم اُمہ کو کئی دہائیوں سے کسی ایسی ہی ایک بین الاقوامی نشست کی کتنی شدت سے ضرورت درپیش تھی لیکن اِس کانفرنس میں چھ اسلامی ممالک کے سربراہان و نمائندہ وفود کے علاوہ دیگر52 ممالک کے 450 کے قریب سیاسی رہنما، اسکالرز،علماء اور مفکرین کی خصوصی شرکت واضح کرتی ہے کہ اسلامی دنیا کے متوقع نئے عالمی اتحاد کی تیاری کے لیے اِس کانفرنس کا انعقاد یقینا مستقبل میں پہلا بڑا قدم قرار پائے گا۔ بظاہر اِس کانفرنس کے انعقاد سے طویل عرصہ کے بعد مسلم اُمہ کے رہنماؤں کو ایک جگہ مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے درست حل کی سمت مثبت پیش قدمی کرنے کا کوئی نہ کوئی سرا تو ضرور ملا ہی ہوگا۔لیکن افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑرہا ہے کہ کوالالمپور میں منعقدہ اِس عالمی اجتماع نے عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو شدید ترین عدم تحفظ اور تشویش میں بھی مبتلاء کردیا ہے اور اِن دونوں ممالک کی قیادت کو ایسا محسوس ہورہا ہے کوالالمپور کانفرنس بہت جلد اسلامی سربراہی کانفرنس یعنی او آئی سی کا متبادل بن جائے گی ۔جس کے باعث اسلامی ممالک کی قیادت و سیادت کا تاج عرب ممالک کے ہاتھوں سے پھسل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چند دوسرے برادر اسلامی ممالک کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔

 

عرب ممالک کے اِسی اندیشہ اور وہم نے اُنہیں مجبور کیا کہ وہ بہر صورت کوالالمپور کانفرنس کا کامیاب انعقاد ممکن نہ ہونے دیں ۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے عرب ممالک کی طرف سے پسِ پردہ رہ کر سفارتی سطح پر بے شمار ایسی کوشش کی گئیں،جن سے کانفرنس کا انعقاد خطرہ میں پڑسکتا تھا لیکن جب اُنہیں احساس ہوا کہ اُن کی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں کوالالمپور کانفرنس ملتوی نہیں ہو پارہی تو پھر اُ ن عرب ممالک نے عین آخری وقت میں سفارت کاری کے پردے سے باہر نکل کر کھلم کھلا اِس اجتماع پر نہ صرف اپنے شدید ترین تحفظات کا اظہار کردیا بلکہ کولالمپور کانفرنس کی اہمیت کم کرنے کے لیے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے بھی اصرار کیا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ اِس کانفرنس میں شرکت کرنے سے معذرت کرلیں ۔ یقینا وزیراعظم پاکستان عمران خان عرب ممالک کے ساتھ اپنے دیرینہ اور دوستانہ تعلقات کی وجہ سے اِس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ اُن کے مطالبہ کو رد کرسکتے ۔ پس وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے معذوری ظاہر کردی ۔ یقینا عمران خان کی عدم شرکت کی وجہ سے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو سخت مایوسی توضرور ہوئی ہوگی ۔لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنی عدم شرکت کی سفارتی مجبوریوں کے متعلق مہاتیر محمد کو خود تفصیلی فون کر کے اعتماد میں لیا جبکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے عالمی پناہ گزین کانفرنس کی سائیڈ لائین پر ملاقات کر کے اپنی سفارتی مجبوریوں سے آگاہ کیا ۔ یوں دونوں رہنماؤں کی جانب سے کولالمپور کانفرنس میں عمران خان کے عدم شرکت کے ’’جائز عذر‘‘ کو پورے صدقِ دل کے ساتھ قبول کرلیا گیا۔

مگر اِ س کے باوجود بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے لیے کوالالمپور کانفرنس میں عدم شرکت کا فیصلہ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا ۔ خاص طور پر اُن حالات میں جبکہ اِس کانفرنس کے انعقاد میں عمران خان نے ذاتی دلچسپی بھی لی ہو۔ شاید اِسی لیے پاکستانی حکومت نے آخری وقت تک بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح عرب ممالک کو یہ بات باور کروادی جائے کہ کوالالمپور کانفرنس ، مستقبل میں او آئی سی کے دائرہ اختیار کے لیے چیلنج نہیں بنے گی ۔ مگر جب اِس حوالے سے پاکستانی حکومت عرب ممالک کی قیادت کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو پھر وزیراعظم پاکستان نے یہ ہی مستحسن جانا کہ کوالامپور کانفرنس میں شرکت نہ کی جائے تاکہ عرب ممالک کی قیادت کے سینوں میں پنپنے والا یہ اندیشہ غلط ثابت ہو سکے کہ پاکستان اور چند اسلامی ممالک مل کر او آئی سی کے متبادل ایک اسلامی تنظیم بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ کیونکہ پاکستان کی ہمیشہ سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ ہر اسلامی براد ر ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو جس قدر ممکن ہو سکے متواز ن رکھا جائے اور کوئی ایسا قدم نہ اُٹھایا جائے جس سے ہلکاسا بھی یہ تاثر پیدا ہونے کا اِمکان ہو کہ پاکستان اپنے کسی برادر اسلامی ملک سے قطع تعلق کی بنیاد پر کسی دوسرے اسلامی ملک یا ممالک سے کسی بھی قسم کا سیاسی مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ بلاشبہ اِس تناظر میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ایک درست اقدام تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی عدم شرکت کے باعث بھی کو الالمپور کانفرنس اپنے تمام تر سیاسی و سفارتی مقاصد حاصل کرنے میں خاطر خواہ حد تک کامیاب رہی ۔ خاص طور پر کوالالمپور کانفرنس کے ذریعے پہلی بار اُن مسائل پر کھل کر بات کی گئی جنہیں مسلم اُمہ کی نام نہاد سیاسی قیادت نے ایک طویل عرصہ سے زیرِ بحث لانا ترک کردیا تھا۔جبکہ کوالالمپور کانفرنس کے کامیاب انعقاد نے عرب ممالک کی قیادت کو یہ احساس بھی شدت کے ساتھ دلایا کہ جب وہ مسلم اُمہ کی قیادت کا کردار درست خطوط پر ادا نہیں کریں گے تو پھر دیگر مسلم ممالک بھی اپنے تنازعات اور مسائل کے پائیدار حل کے لیے کوئی دوسری راہ نکالنے کی عملی جدوجہد کرنے کی سمت بھی جاسکتے ہیں۔اس کے علاوہ کوالالمپور کانفرنس کی کامیابی نے مسلم مخالف قوتوں کو بھی یہ پیغام بہت اچھی طرح سے پہنچایا ہے کہ اگر وہ مسلم اُمہ کو بحیثیت مجموعی عالمی تنہائی کا شکار بنانے کی اپنی مذموم کوشش جاری رکھیں گے تو پھر اِس کے نتیجہ میں مسلم ممالک بھی اپنی بقا اور تحفظ کے لیے ایک وسیع البنیاد عالمی مسلم اتحاد تشکیل دے سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر