... loading ...
جمعیت علماء اسلام( ف) اور ان کی شریک جماعتوں مسلم لیگ نواز ، پیپلز پارٹی، جمعیت علماء پاکستان، پشتونخوا عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی ،قومی وطن پارٹی وغیرہ کے احتجاج کی دھول پوری طرح بیٹھی نہیں ہے ۔ بلاشبہ یہ پاور شو خالصتاًجمعیت علمائے اسلام کا تھا۔ باقی تمام جماعتوں کی شمولیت و شرکت نمائندگی اور تقاریر کی حد تک تھی۔البتہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پوری طرح کندھے سے کندھا ملاکر کھڑی تھی۔
25جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے قبل یہ جماعتیں کسی نہ کسی عنوان سے ایک دوسرے کی ناقد و مخالف رہی ہیں۔ سرِدست اس ضمن میںبلوچستان ہی انتقامی سیاست کا اہم مورچہ بنا رہا ۔جہاں2013ء کے عام انتخابات کے بعد نیشنل پارٹی، مسلم لیگ نواز، پشتونخواملی عوامی پارٹی اورمسلم لیگ قائد اعظم کی حکومت بنی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف اور عوامی نیشنل پارٹی حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھ گئیں۔ مری کے اندر شراکت اقتدار و حکومت سازی کا معاہدہ ہوا۔ جس کے تحت پہلے اڑھائی سال کے لیے نیشنل پارٹی کو حکومت ملی تھی۔ یعنی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بنے ۔جبکہ اگلے اڑھائی سال کے لیے ن لیگ یعنی نواب ثناء اللہ زہری کو وزات اعلیٰ دینے کا طے ہوا۔ چناں چہ پہلے اڑھائی سال کے اندر نواب ثناء اللہ زہری کی قیادت میں ن لیگ نے بھی گویا ڈاکٹر عبدالمالک کے گریبان میں ہاتھ ڈال رکھا تھا۔ ان کے ساتھ وہ لیگی اراکین بھی تھے جنہوں نے بعد ازاں نواب زہری کے خلاف بھی بغاوت کرنے میں دیر نہ لگائی۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے جیسے تیسے اپنا عرصہ پورا کرلیا ۔چناں چہ نواب زہری نے وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھالیا ۔ نیشنل پارٹی سب کچھ فراموش کرتے ہوئے پوری طرح ساتھ رہی اور اچھی اتحادی ثابت ہوئی۔ اس اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جے یو آئی کے مولانا عبدالواسع تھے۔ ان کے ڈپٹی عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک اچکزئی تھے۔ چنانچہ وفاق میں نواز حکومت کی طنابیں کَسی جارہی تھیں۔ اوریہاں بلوچستان میں بھی راز داری اور تاریک شب کی سیاست ہوتی رہی۔ وفاقی حکومت کے خلاف تحریک انصاف اور پاکستان عوامی پارٹی کا دھرنا ،پھر تحریک لبیک کا سڑکوںپر بیٹھنا۔ اس طرح مختلف ذرائع ،حربوںو منصوبوں سے نواز شریف حکومت گھیرے رکھی گئی ۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اپنی سیاسی چالوں کی نہ صرف دھمکیاں دیتے رہے ،بلکہ عمل پیر ابھی رہے ۔
آصف علی زرداری کے لوگ باقاعدگی سے بلوچستان آتے، اراکین اسمبلی و دوسروںسے ملاقاتیں ہوتیں ۔ آصف علی زرداری کی دولت کی بازگشت تھی۔ یوں ن لیگ کے اندر سے اراکین اسمبلی کی بغاوت کھل کر سامنے آگئی۔ اورنواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ جمعیت علماء اسلام ف، عوامی نیشنل پارٹی،بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی ،مجلس وحدت المسلمین ، مسلم لیگ قائد اعظم اور سردار اختر کی بلوچستان نیشنل پارٹی اور بااثر حلقے اس سیاست میں پوری طرح شریک تھے۔9جنوری2018ء کو وزیر اعلیٰ نواب ثنا ء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ۔جس کے آگے نواب زہری ٹھر نہ سکے ۔اوراسمبلی اجلاس کے مقررہ وقت سے پہلے عہدے سے مستعفی ہو گئے ۔ پھر ق لیگ سے تعلق رکھنے والے عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بن گئے۔ واضح ہو کہ ق لیگ کے صوبائی صدر شیخ جعفر خان مندوخیل تھے۔ جنہوںنے اس پورے تماشے سے خود کو الگ کیے رکھا ۔ ن لیگ کے اراکین کی ایک بڑی تعداد جس میں قبائلی مناصب کے حامل لوگ بھی شامل ہیں نے ضمیر کا سودا کرلیا۔ سردار اختر مینگل نے کوئٹہ آکر اس مہم میں پوری طرح حصہ لیا۔سب کچھ مبر ہن تھا ،نہ اس سازش کا اصل سر چسمہ پوشیدہ تھا ۔ گویاسب کا اشتراک شعوری تھا ۔اسطرح عبدالقدوس بزنجو جیسے غیر موزوں وسطحی آدمی چھ ماہ صوبے کے وزیراعلیٰ بنے رہے۔ مذکورہ جماعتوں نے فائدے حاصل کئے۔ پھر سینیٹ انتخابات میں اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی منڈیاں لگ گئیں۔ جس کے نتیجے میں ملنے والی کامیابی کے بعدصادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن گئے۔ قومی اسمبلی میں بھی بلوچستان کے کئی اراکین، جام کمال ، خالد مگسی اور دوستین ڈومکی، وغیرہ نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا۔اور پھر اسمبلیوں کی مدت ختم ہوئی۔ بلوچستان کے اندر نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر میں پھر ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ ہوا۔ علائو الدین مری جیسا ایک عام و گمنام شخص نگران وزیراعلیٰ بنایا گیا!
تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اگر مو لانا فضل الرحمن سمجھتے ہیں کہ ملک غیر موزوں لو گوں کے اقتدار میں ہے ۔تو یہ بھی پیش نظر رہے کہ بلوچستان سے شروع ہونے والی اس بازی گری میں جے یو آئی فرنٹ لائن پر کھیل رہی تھی۔ لہٰذا ضروری تھا کہ پہلے اسے گناہ و غلطی تسلیم کرتے ،اپنا محاسبہ کرتے ۔ اچھا ہوتا اگر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی مارچ ، دھرنے اور احتجاج میں مشروط طور پر شامل ہوتیں ۔ یہ کہ پہلے جے یو آئی بلوچستان کے اندر ان زیادتیوں پر معافی مانگے اور اُسے دانستہ عمل تسلیم کرنے کااقرار کرے ۔ دراصل ان کا یہ مطالبہ خلافِ اخلاق و منطق قطعی نہ ہو تا ۔ وہ اس لیے کہ جن مبینہ برائیوں کی جے یو آئی اورحزب اختلاف کی جماعتیں آج نشاندہی کررہی ہیں یا جن کے خلاف دھرنا دیا گیا، کی پہلی خشت ہی بلوچستان میں رکھی گئی تھی۔ اور جمعیت علماء اسلام کا اس میں کردار کلیدی تھا۔ گویا یہ موقع تھا کہ محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پیپلز پارٹی ، جمعیت علماء اسلام ، عوامی نیشنل پارٹی کو ان کے غیر سیاسی، غیر جمہوری و غیراخلاقی عمل کا احساس دلاتیں۔بہر حال محمود خان اچکز ئی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور میر حاصل خان بزنجو کی اعلیٰ ظرفی کہ جنہوں حزب اختلاف کی ان جماعتوں کو ان کی سابقہ زیاتیوں کا احساس تک نہ د لا یا ۔اور پھر اس دھرنے کے متعلق بہت ساری باتیں اب بھی اخفا میں ہیں۔ یہ کہ پس پردہ مولانا فضل الرحمان کو کس کے پیغامات آتے رہے ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ ’’انہیں احتجاج ختم کرنے کے بدلے بلوچستان حکومت ، سینیٹ چیئرمین اور بلوچستان کے گورنر کا عہدہ دینے کی پیشکش ہوئی۔ یہ کہ آپ کے لیے ڈی آئی خان کی نشست خالی کر دیتے ہیں، آپ منتخب ہوکر واپس ایوان میں آجائیں۔ ‘‘(22نومبر2019) آیا یہ پیغامات وزیراعظم عمران خان نے بھیجے؟ ا گر نہیں تو پھر عمران خان سے بڑھ کر طاقت و اختیار کا حامل کون ہے، جس نے مولانا کو اتنی بڑی پیشکشیں کیں؟اور مو لانا کو دسمبر میں حکومت جانے اور تین ماہ میں نئے انتخابات کی یقین دہانی کس نے کرائی ؟ ۔ لہذا ہونا یہ چاہیے تھا کہ پل پل کی پیشرفت سے عوام اور سیاسی کارکن آگاہ کیے جاتے ۔ تاکہ عوام یہ نہ سمجھے کہ مولانا یا حزب اختلاف پس پردہ معاملات کر رہی ہیں ۔