وجود

... loading ...

وجود

این آر او کی گردان آخر کب تک .
.درپیش (قاضی سمیع اللہ )

پیر 25 نومبر 2019 این آر او کی گردان آخر کب تک .<BR>.درپیش (قاضی سمیع اللہ )

اب کپتان بھی کرسی بچانے کے حوالے سے بیان دینے لگے ہیں کہ وہ کرسی بچانے کے لیے نہیں بلکہ تبدیلی لانے کے لیے آئے ہیں ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تبدیلی سرکار تبدیل ہونے جارہی ہے یا پھر تبدیلی کی جگالی اس قدر ہوگئی ہے کہ زبان سے تبدیلی کے سوا کچھ اور نکلتا ہی نہیں ہے ۔بہر کیف کچھ تو ایسا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو کرسی بچانے جیسے جملے کی ادائیگی پر مجبور ہونا پڑا ہے جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے آزادی مارچ سے پہلے تک ایسے جملے باہر نہیں آئے تھے ۔جہاں تک این آر او دینے یا نہ دینے کا معاملہ ہے تو یہ پی ٹی آئی کے انتخابی منشور پر عملدرآمد سے مشروط ہے اگر تبدیلی سرکار کو اپنے انتخابی نعرے کی لاج رکھنی ہے تو اسے کسی صورت این آر او نہیں دینا ہوگا بلکہ یوں ہے کہ کسی بھی قسم کے این آر او کے آگے ڈھال بن کر کھڑا ہونا پڑے گا ۔

بلا شبہ بعض سیاست دانوں کی کرپشن اور مجرمانہ کوتاہیوں کی وجہ سے ہی آج ملکی معیشت تباہ حال ہوچکی ہے لیکن یہاں اس امر کو بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت سازی کے اہل سیاست دانوں کو ایسے مضبوط کاندھے کہاں سے میسر ہوتے آئے ہیں کہ وہ دھڑلے سے کرپشن بھی کرتے رہے ہیںاور قومی مفادات کے ساتھ کھلواڑ بھی کرتے رہے ہیں ۔ملکی سیاست میں غیر سیاسی مداخلت کی ایک طویل تاریخ ہے جو اسکندر مرزا سے شروع ہوتی ہے اور جنرل (ر) پرویز مشرف تک جاتی ہے لیکن’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ نام کی حقیقت اب بھی موجود ہے۔بہر کیف ملک میں سیاست اور سیاسی عمل کا انحصار’’خصوصی کرم و عنایت ‘‘ پر ہے جس پر ہوجائے وہ ’’سیاسی مالک و مختار‘‘ ہوجاتے ہیں اور یہی مالک و مختار آج احتساب کی چکی میں پس رہے ہیں اور نئے مالک و مختار گرج چمک کے ساتھ سابقہ مالک و مختار پر برس رہے ہیں اور آئندہ آنے والے ان پر برسیں گے۔

 

اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے آخر کیا کرنا ہوگا ،کیا سارے کا سارا بوجھ معزز عدالتوں اور قومی احتساب بیورو پر ڈالنے سے کرپشن ختم ہوجائے گی ۔۔؟یقینا ایسا کرنے سے کرپشن تو ختم نہیں ہوسکتی جبکہ اتنا ضرور ہے کہ اس سے کرپشن کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے بھی مروجہ قوانین میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے کرپٹ عناصر کو لگام ڈال سکے ۔اس امر میں کوئی مبالغہ نہیں کہ تبدیلی سرکا ر اپنے اقتدار کے پہلے ڈیڑھ برس کے دوران اپنے انتخابی بلند بانگ نعروں اور دعووں کو عملی شکل دینے سے ا بھی کوسوں دور ہے اور جہاں تک عوام کو ریلیف دینے کی بات ہے تو اس معاملہ میں تبدیلی سرکار کو مسلسل ناکامی کا سامنا ہے ۔ عوام کو ریلیف چاہئے ،مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات چاہئے ، بجلی اور گیس کی سستی سہولت چاہئے ، ابتدائی تعلیم اور صحت کی معیاری سہولت مفت اور بر وقت چاہئے ،کاروبار اور کاروباری طبقہ کو تحفظ چاہئے ،جینے کے لیے پُرامن اور ساز گار ماحول چاہئے ،آزادی اظہار خیال سے لیکر عدل و انصاف پر مبنی سماج چاہئے ۔کیا تبدیلی سرکار نے عوام کے ان بنیادی مسائل کی جانب توجہ دی ہے یا پھر محض تنقیدی اور الزام تراشی کی سیاست کرکے سستی شہرت کے لبادے میں خود کو چھپانے کی تدبیریں کررہی ہے لیکن یہ لبادے اس وقت تک ہی اوڑھے جاسکتے ہیں جب تک ’’ خصوصی کرم و عنایت‘‘مقدر میں ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تبدیلی سرکار سارے سیاسی محاذ چھوڑ کر عوام کو ریلیف دینے کی جانب غیر معمولی توجہ دے ۔

 

جہاں تک کرپٹ سیاست دانوں کے احتساب کا معاملہ ہے تو اسے قومی احتساب بیورو(نیب) جیسے ریاستی اداروں پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ انتخابات میں ووٹ عوامی خدمات کے صلے میں پڑتے ہیں نہ کہ تنقیدی اور الزام تراشی کی بنیاد پر پڑیں گے ۔ایک بار پھروزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں تبدیلی کی ہوا چلی ہے کہ نتائج نہ دینے والے وزراء اور مشیران و معاون خصوصی کی چھٹی کردی جائے گی ،اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر کیا ہوگا نئے وزراء لائے جائینگے جو یقینا پی ٹی آئی سے ہی ہونگے کیا اس سے پہلے والے وزراء پی ٹی آئی سے نہیں تھے ۔اس معاملے میں وزیر اعظم عمران خان کو بنیادی نکتہ کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ محض چہرے بدلنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اپنے انتخابی ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی پڑے گی جو کہ اصولاً حکومت میں آنے سے پہلے ہی کرلینی چاہئے تھی۔ بہر کیف اب بھی اتنا وقت نہیں گزرا ہے کہ اس پر عملدرآمد نہ کیا جاسکے لیکن بہت کچھ کرنے کے لیے اب کچھ نہ کرنے کی گردان بند ہونی چاہئے اور رہی بات این آر او کی تو کیا سیاسی مالک و مختار کسی کو این آر او دینے یا نہ دینے کے اہل ہوچکے ہیں ۔۔؟ تو پھر این آر او کی گردان آخر کب تک ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر