وجود

... loading ...

وجود

فلسطینیوں کا نیا دورِ ابتلاء.
.سیاسی زائچہ (راؤ محمد شاہد اقبال)

پیر 25 نومبر 2019 فلسطینیوں کا نیا دورِ ابتلاء.<BR>.سیاسی زائچہ (راؤ محمد شاہد اقبال)

فلسطینی علاقے غزہ پٹی کی طرف سے اسرائیلی سرزمین پر راکٹ فائر حملوںکا بہانا بنا کر اسرائیلی افواج نے غزہ میں بہیمانہ عسکری کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے ۔ جس میں اَب تک دو درجن کے قریب معصوم فلسطینیوں کی شہادتیں ہوچکی ہیں ۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مقبوضہ فلسطین میں پیدا ہونے والی اِس کشیدہ صورت حال کو گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والے انتہائی سنگین اور خونی واقعات میں شمار کیا جارہا ہے ۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کسی صاحبِ دانش و بینش تجزیہ کار اور اینکر پرسن کو معصوم فلسطینیوں کا بہتا ہوا پانی سے بھی ارزاں خون دکھائی نہیں دے رہا اور ہمارے میڈیا کی تمام تر خبروں اور تجزیوں کا مرکز و محور آج کل ایک نااہل سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی پراسرار بیماری کا علاج بنا ہوا ہے ۔ کاش ہمارا میڈیا تھوڑی دیر کے لیے سہی ہارلے اسٹریٹ کلینک لندن سے نکل کر سرزمین ِ فلسطین پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور پاکستانی عوام کو فلسطینیوں پر ہونے والی حالیہ اسرائیلی بربریت سے آگاہ کرنے میں اپنا کردار اداکرے ۔

 

اسرائیلی افواج کے تازہ ترین فضائی حملے میں بیالیس سالہ ابوالعطا مضبوط تنظیم اسلامی جہادکے عسکری ونگ القدس کے سربراہ بھی شہید ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے ابوالعطا پر ہونے والے حملہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ ابو العطا ہم سب اسرائیلیوں کے لیے کسی بھی وقت اچانک پھٹ جانے والا ایک بم تھا ،جسے ہم نے وقت سے پہلے ہی ناکارہ بنا کر ہزاروں اسرائیلیوں کو ابو العطا کا نشانہ بننے سے بچا لیا ہے ‘‘۔اسرائیلی افواج نے باقاعدہ ٹارگٹ کر کے ابو العطا کو شہید کیا ہے ۔جبکہ اِس حملے میں اسرائیل کا اصل نشانا اسلامی جہاد تنظیم کے ایک اور اہم ترین رہنما اکرم العجوری تھے ،جو خوش قسمتی سے اسرائیلی حملے میں محفوظ رہے ہیں لیکن اسرائیل نے اکرم العجوری کے تعاقب میں شامی دارالحکومت دمشق میں جس رہائشی عمات کو نشانہ بنایا اِس میں چھ فلسطینیوں کے ہمراہ العجوری کا بیٹا بھی شہید ہوگیا ہے ۔ دوسری جانب ‘اسلامی جہاد‘ نامی تنظیم کے راکٹ داغنے کا سلسلہ منگل بارہ نومبر سے جاری ہے اور اب تک دو سو کے قریب راکٹ داغے جا چکے ہیں۔

 

اسرائیل میں بظاہر ان راکٹوں سے کسی جانی و مالی نقصان کو رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔
فضائی حملوں کے علاوہ اسرائیلی افوج کی اسلحے سے لیس اسرائیلی کشتیو ں نے محصور غزہ کی پٹی کے شمالی سمندر میں فلسطینی ماہی گیروں اور انکی کشتیو ں پر حملہ کر نے کی مصدقہ اطلاعات ہیں ۔ایک غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق شمالی غزہ کے علاقے السودانیہ کے علاقے میں متعدد ماہی گیر کشتیو ں پر سوار تھے جب اسرائیلی بحریہ نے اچا نک ان پر فائرنگ شروع کر دی اور انہیں کنارے پر واپس جانے پر مجبور کر دیا۔اسلحے سے لیس اسرائیلی کشتیاں روزانہ کی بنیاد پر ماہی گیروں کے اردگرد موجود رہتی ہیں۔ ماہی گیر اور انسان حقوق کے گروپوں نے کہا کہ غزہ میں09۔ 2008 کی جنگ کے بعد سے اسرائیلی فوج باقاعدگی سے ساحل کے ساتھ حد نافذ کرتی جارہی ہے۔اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود اور ریلیف کے لیے قائم تنظیم’’اونروا‘‘نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق’’یو این‘‘کے ڈائریکٹر آپریشنز ماتھیا شمالی نے ایک بیان میں کہا غزہ میں اسرائیلی فوج کا فلسطینی بچوں کو اور اسکول کے طلبا وطالبات کو براہ راست نشانا نہ بنانا قابل مذمت اور ناقابل قبول اقدام ہے۔ اسلامی جہاد نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ میں بچوں کو بمباری کا نشانا بنانے کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ایک بیان میں اسلامی جہاد نے کہاکہ حالیہ ایام میں صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی میں بچوں کو بمباری کا نشانابنا کر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

فلسطین اور اسرائیل کی اِس کشیدہ ترین صورت حال میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی طرف سے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے لیے بطورِ خاص ایک دل دہلا دینا والا بیان سامنے آیا ہے کہ ’’ فلسطین کے علاقہ غربِ اردن میں اسرائیل کی طرف سے قائم یہودی بستیاں غیرقانونی نہیں ہیں اور غربِ اردن کی حیثیت کا فیصلہ کرنا اسرائیلیوں اور فلسطینیوں پر منحصر ہے۔‘‘۔حالانکہ اقوامِ متحدہ کا مؤقف ہے کہ الااقوامی قوانین کے تحت یہودی بستیاں غیر قانونی ہیں۔ 1967 میں مشرقِ وسطی کی جنگ کے دوران اسرائیل نے جس زمین پر قبضہ کیا تھا اس پر یہ یہودی بستیاں بنائی گئی ہیں۔فلسطینی عرصے سے ان بستیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں جہاں تقریباً چھ لاکھ یہودی آباد ہیں۔فلسطین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں یہودیوں کی موجودگی کے سبب ان کے مطابق مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تقریباً ناممکن ہے۔اسرائیل نے غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں 140 یہودی بستیاں قائم کی ہیں جنھیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی کہا جاتا ہے۔

 

واضح رہے کہ 1978 میں امریکی صدر کارٹر کی انتظامیہ بھی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ فلسطین میں قائم یہ یہودی بستیاں بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں تاہم 1981 میں صدر ریگن نے کہا تھا کہ ان کی رائے میں یہ بستیاں از خود غیر قانونی نہیں ہیں۔کئی دہائیوں تک امریکی ان بستیوں کو ’ناجائز‘ کہتا رہا تاہم انھیں غیر قانونی کہنے سے اجتناب کرتا رہا، اور ساتھ ساتھ اسرائیل کو اقوام متحدہ میں مزاحمتی قراردادوں کا نشانا نہیں بننے دیا۔تاہم اوباما انتظامیہ نے اپنے آخری دور میں امریکی روایتی موقف کے برعکس 2016 میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کو ویٹو نہیں کیا جس کے تحت اقوام متحدہ نے اسرائیل کو ان غیر قانونی بستیوں کو ختم کرنے کے لیے کہا تھا۔تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا موقف ہے کہ صدر ٹرمپ نے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے اور وہ صدر ریگن کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل تنازع کے چیف مذاکرات کارسائب نے امریکا کے اِس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ امریکا نے چار دہائی پرانے اپنے اِس مؤقف کو تبدیل کر دیا کہ غربِ اردن میں یہودی بستیاں بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہیںاور امریکاکے اس اعلان سے بین الااقوامی قوانین کے جنگل راج میں تبدیل ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے‘‘۔تاہم اسرائیلی وزر اعظم بن یامن نتن یاہو نے امریکاکے اس اقدام کی ستائش کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ امریکا نے اپنی تاریخی غلطی کو درست کیا ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر