... loading ...
دوستو، کراچی سمیت سندھ بھر میں انسانوں کو کتے کے کاٹے جانے کے واقعات جس تیزی سے ہورہے ہیں اس سے بلاشبہ اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کہ سندھ میں اب ــ’’کتوں کا راج‘‘ ہے۔۔ہمارے گھر کے نیچے روزانہ درجن بھر سے زائد کتے مورچے لگا کر رات بھر شدید ’’بھونکاباری‘‘ کرتے رہتے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ زلزلہ آگیا ہو۔۔ پطرس بخاری برصغیر کی مزاح نگاری کے بے تاج بادشاہ ہیں، کافی عرصہ پہلے ان کا ایک مضمون ’’کتے‘‘ پڑھا تھا، جس میں انہوں نے نہایت آسان الفاظ میں کتوں کی اقسام بتائی تھی۔۔وہ لکھتے ہیں۔۔یوں تو کتوں کی بہت سی اقسام ہیں لیکن دو موٹی موٹی قسموں میں تقسیم کیا جائے تو پالتو/نسلی کْتے اور آوارہ یا بے نسلے کْتے ہیں۔ پالتو کتوں میں بہت سی اقسام میں جرمن شیفرڈ کیساتھ دنیا بھر میں قریب دو سو مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں میں اْن بے نسلے اور آوارہ قسم کے گھٹیا کتوں کا ذکر کررہا ہوں جو ہمارے گردونواح میں عموما پائے جاتے ہیں اور شاید ہم انہیں بے ضرر سمجھ کر کسی حد تک نظر انداز بھی کر رہے ہیں، لیکن انکا معاشرے میں اپنے وجود کا مسلسل احساس دلانا بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔۔
یہ واقعہ ایک مزاحیہ لطیفہ بھی ہے اور حقیقت بھی ہے۔ اسلام میں کتے کو نجس مانا گیا ہے اور اس کے لعاب کو نجس العین مانا گیا ہے۔ اگر یہ لعاب کپڑے پر لگ جائے تو کپڑا نجس ہوگا، اور جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ ایک صاحب کے پاس ایک مولوی صاحب گئے اور دیکھا کہ ایک کتا ان کی بغل میں دبا ہوا تھا، جب بیٹھے تو کتا ان کی گود میں رہا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ آپ نے کتا پالا ہے اچھا کیا، مگر انسان کے بچے کی طرح اسے گود میں بٹھانا، پیار کرنا تو اچھا نہیں ۔ اس نے فوراً کہا کہ مولوی صاحب میں کتے کو اس لیے ہر وقت پاس رکھتا ہوں کہ موت سے محفوظ رہوں، آپ کے یہاں کتابوں میں لکھا ہے کہ جس گھر میں کتا ہو، تو فرشتے نہیں آتے۔ جب کتا میرے پاس ہے تو جان نکالنے والا فرشتہ میرے پاس کیسے آئے گا؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ یہ خیال اور استدلال آپ کا غلط ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ کتے بھی مرتے ہیں، موت سے تو کوئی مستثنیٰ نہیں ۔ آپ نے یہ مثل سنی ہوگی ’’جیسی روح ویسے فرشتے‘‘۔ جو فرشتے کتوں کی روح قبض کرتے ہیں وہی فرشتے آپ کی روح بھی نکالیں گے۔ آپ کے پاس وہ فرشتے نہیں آئیں گے جو اچھے لوگوں کے پاس آتے ہیں۔۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ نیپال میں اور بھارت کے بعض حصوں میں انسان اور کتوں کے درمیان خصوصی بانڈ کا جشن منانے کے لیے ایک ہندو چھٹی ہے اسے ’’ککور تہار‘‘ کہا جاتا ہے جو کہ پانچ روزہ تہار نامی میلے کے دوسرے دن، لیمپ اور پٹاکھی جلا کر بھارت اور دوسری جگہوں میں دیوالی رسومات کی طرح منایا جاتا ہے۔ ککور تہار پر، لوگ ٹیکہ (سرخ بندیاں) اور خصوصی چیزیں جیسے دودھ، انڈے، گوشت، یا اعلی معیار کے کتوں کی خوراک پالتو کتوں اور بھوکے کتوں کو پیش کرتے ہیں۔ ٹکا (سرخ ڈاٹ) کتے کو مقدس کی فضائیت سے پاک کرتا ہے اور اس اچھے دن پر کتے سے ملنے والے لوگوں کو برکت کے طور پر کام کرتا ہے۔ہندوؤں کا خیال ہے کہ کتا یمراج کا محافظ ہے، جو موت کے خدا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کتوں کو وفادار جانور سمجھا جاتا ہے اور اس دن انسانوں اور کتوں کے درمیان تعلقات منائے جاتے ہیں۔ ۔ باباجی نے ایک روز ہمیں ایک واقعہ سنایا،کہنے لگے۔۔ایک چوہیا اپنے تین ننھے ننھے بچوں کے ساتھ سیر کررہی تھی کہ ایک بلی سامنے آگئی۔ اس سے پہلے کہ بلی ان پر جھپٹتی ، چوہیا اپنی پوری طاقت سے چلائی۔۔ بھوں بھوں غررررررر۔ بھوں بھوں۔ بلی ہکا بکا رہ گئی۔ اور کنفیوز ہو کر الٹے قدموں واپس چلی گئی۔۔چوہیا نے مڑ کر بچوں کو دیکھا اور فخریہ لہجے میں بولی۔۔ دیکھا بچو ! تعلیم کے فائدے۔ اب تم جان گئے ہوگے کہ مادری زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سیکھنا کتنا ضروری ہے۔
گاہک نے دکاندار سے کہا۔۔ آج کے بعد میرا کتا بھی تمہاری دکان پر آئے تو تمہیں اس کی عزت کرنی ہو گی۔۔دکاندار دونوں ہاتھ جوڑ کر بولا۔۔ بہت بہتر جناب! آپ کا کتا آئے تو سمجھوں گا کہ جناب ہی تشریف لائے ہیں۔۔۔ایک بچہ گلی میں کھیل رہا تھا، سامنے والے مکان سے ایک کتا نکلا اور اس کے پاؤں چاٹنے لگا ، بچہ روتا ہوا گھر آیا ۔۔ماں نے پوچھا، رو کیوں رہے ہو ؟ کہیں پڑوسی کے کتے نے تو نہیں کاٹ لیا ؟بچہ بولا۔۔نہیں، ابھی تو صرف چکھ کر گیا ہے، کاٹنے تو کل آئے گا۔۔کسان کھیت کی تیاری میں تھا کہ گیدڑ پاس آنکلا۔ اس نے کسان سے پوچھا، جناب کیا فصل اگانے کا ارادہ ہے۔۔کسان نے کہا، ہاں ،خربوزے کی فصل کا ارادہ ہے۔ گیدڑ بولا، واہ پھر تو میری موجیں ہوجائیں گی۔۔کسان نے کہا، نہیں میںکھیت کے گرد باڑ لگواؤں گا۔۔گیدڑ نے کہا،تو کیا ہوا میں باڑ کے نیچے سے آجاؤں گا۔۔کسان بولا، میں کھیت کے گرد دیوار بنوادوں گا۔۔گیدڑ نے کہا، میں دیوار پھلانگ لیا کروں گا۔۔کسان نے کہا، میں کھیت کی رکھوالی کیا کروں گا۔۔گیدڑ کہنے لگا، جب تم سونے جاؤگے میں کھیت میں داخل ہوکر خربوزے کھایاکروں گا۔۔اچانک کسان کو یاد آیا کہ گیدڑ کتے سے ڈرتے ہیں، بولا۔۔۔میں کھیت کی رکھوالی کے لیے کتے رکھ لوں گا۔۔’’ اوہ جٹا، ایہہ تے فیر مرداں والی گل نہ ہوئی نا (یہ تو کوئی مردوںوالی بات نہ ہوئی نا )گیدڑ یہ کہہ کر دم دبا کر آگے نکل گیا۔۔یک لیڈر (جس سے اکثرعوام نفرت کرتے ہیں) کی کار کے نیچے آ کر ایک کتے کا بچہ مر گیا۔۔لیڈر نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ جا کر معلوم کرو کہ یہ کس کا کتے کا بچہ تھا۔جب ڈرائیور واپس آیا تو ’ا س کے گلے میں پھولوں کے ہار تھے۔لیڈر نے پوچھا کہ یہ کیا۔۔ڈرائیور بولا۔۔سر میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں آپ کا ڈرائیور ہوں۔۔ کتے کا بچہ مر گیا ہے تو لوگوں نے اگلی بات سنی ہی نہیں۔۔
اورآخر میں فیض احمد فیض کی روایت سے ہٹ کر’’کتے ‘‘ پر ایک دلچسپ نظم جو ریختہ نامی ویب سائیٹ پر بھی موجود ہے۔۔یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے ،کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی ۔۔زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا ،جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی ۔۔نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے ،غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے ۔۔جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو ،ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو ۔۔یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے ،یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے ۔۔مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے ،تو انسان سب سرکشی بھول جائے ۔۔یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں ،یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں ۔۔کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے ،کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔