... loading ...
اعجاز علی میمن جب ہنڈرڈ بیڈ ہسپتال میں پہنچا تو شدت تکلیف سے اس کا بہت برا حال تھااعجاز علی میمن کا چہرہ درد سے سرخ ہورہاتھااس کے ساتھ ایک لڑکا موجود تھا جو عمر میں اس قابل نہیں تھا کہ اعجاز علی میمن کے سینے میں اٹھنے والے درد کی شدت کو محسوس کرسکتا،اعجاز علی میمن اسٹیل ٹائون بلاک نمبر 18.Dبلاک مکان نمبر101کا رہائشی تھا وہ جیب میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے پیدل چل کر ہنڈر بیڈ ہسپتال کی ایمرجنسی تک پہنچا تھا،100بیڈ ہسپتال کی اپنی چارایمبولینس ہیں جو پیٹرول یا دیگر ضروری منٹینس نہ ہونے کی وجہ سے اکثر خراب ہی رہتی ہیںاورنہ ہی ضرورت کے وقت کسی کے کام آتی ہیں،اعجازعلی میمن بری طرح سے ہانپ رہاتھا مگر اس کی اس حالت کو دیکھ کر ہسپتال انتظامیہ کے لوگ ایسا برتائو کررہے تھے کہ ان کے لیے جیسے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ روزانہ ہی تو اس قسم کے مریض اس ہسپتال میں لائے جاتے تھے یہ زیادہ تر اسٹیل مل کے ملازمین ہی تھے جو یہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجودکہ اس ہسپتال میں انہیں ایک ڈسپرین تک نہیں ملنے والی اس کے باوجود بھی یہ لوگ ہر روز اس ہسپتال میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی لائے جاتے تھے اور روزانہ ہی کوئی نہ کوئی لاش یہاں سے واپس ان کے گھر بھجوادی جاتی تھی،اور آج اعجاز علی میمن کا وقت بھی پورا ہونے والا تھا ،ڈاکٹراعجاز علی میمن کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ ان کے پاس ہسپتال میں کوئی ایک سہولت بھی باقی نہ بچی تھی خیر اعجاز علی میمن اب تکلیف کے آخری مرحلے سے گزررہاتھا اور ڈاکٹروں سے اپنے بچائو کی بھیک مانگ رہاتھا مگرانتظامیہ کا کہناتھا کہ یہاں ہمارے پاس کچھ بھی موجود نہیں ہے وہ ساتھ آئے ہوئے لڑکے کو کہہ رہے تھے کہ اسے شہر کے ہسپتال لے جائومگراعجاز علی میمن کے ساتھ جو لڑکا موجود تھاوہ تن وتنہا یہ سب کچھ کیسے کرسکتا تھا وقت گزرتا رہا اور اعجاز علی میمن کاڈھیلا پڑتا ہوا جسم اب تقریباً خاموش ہوچکا تھا اور وہ اب ڈاکٹروں سے مدد کی اپیل بھی نہیں کررہاتھا کیونکہ وقت بہت بیت چیک چکا تھا، انتظامیہ اور کچھ لیٹ پہنچنے والے دوستوں کی مدد سے شہر کے ہسپتال کارڈیو میں اعجاز علی میمن کولے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اعجاز علی میمن کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو بہت پہلے کا ہی مرچکا ہے آپ اسے ہمارے پاس مردہ حالت میں ہی لیکر آئیں ہیں ۔
اسٹیل مل سے جڑے اعجاز علی میمن کے ان دوستوں کو یہ سن کر دکھ تو بہت ہوا مگر ان کے لیے ہنڈر بیڈ ہسپتال کی انتظامیہ کی طرح علی میمن کی لاش بھی کوئی نئی لاش نہیں تھی کیونکہ اب یہ عمل روزانہ کی بنیاد پر ان کودیکھنے کو مل رہاہے اسٹیل مل جہاں ان غریب ملازمین کے لیے فاقہ کشی کا سبب بن چکی تھی وہاں اب یہ اسٹیل مل ان ملازمین کے جنازے بھی گھروں میں بھجوارہی ہے ان جنازوں میں لپٹے ملازمین کے بچے زیادہ تر بہت چھوٹے ہیں یا پھر جوان بیٹیاں جن کی شادی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں،اعجاز علی میمن کی عمر تقریبا ً چالیس سے بیالیس سال کے قریب تھی اور اس کے بچے بھی بہت چھوٹے ہیںجو اعجاز علی میمن کی کئی کئی ماہ بعد ملنے والی تنخواہ پر ایسے خوش ہوتے تھے جیسے اس روز کوئی عید کا دن ہو۔وہ بچے تھے وہ کیا جانے کے بیس ہزار کا ملازم اعجاز علی میمن اپنا گزارہ کیسے کرتاتھا ان بچوں کو کیسے معلوم ہوکہ تنخواہیں 2010کی اور مہنگائی 2019کی ،مگر خیر اب تو ان کی یہ آس بھی ہنڈر بیڈ ہسپتال کے گیٹ پر دم توڑ چکی تھی ، اور ابھی مزید خواہشات کے دم توڑنے کاعمل جاری ہے کئی کئی ماہ سے نہ ملنے والی تنخواہیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے صدموں سے دلبرداشتہ اسٹیل مل کے تقریباً500سے زائد ریٹائرڈ اور حاضر سروس ملازمین اسی ہارٹ اٹیک سے مرچکے ہیں جو زیادہ تر اپنے گھروں کے واحد کفیل ہی تھے ،5500ملازمین ریٹائرڈ ہوچکے ہیں جون 2013سے لیکر اب تک جن کو ریٹائرڈ منٹ پر اسٹیل مل سے پی ایف فنڈ سمیت دیگر فنڈ ملنے تھے جو اسٹیل مل میںدوران سروس42سال اپنی تنخواہوں سے کٹوتی کٹواتے رہے اور یہ سب کچھ اس لیے کہ ریٹائرڈ منٹ کے بعد جب انہیں ایک ساتھ یہ رقم ملے گی تو یہ اس رقم سے اپنا مکان بنوائیں گے یا پھر بچے بچیوں کی شادیاں کرینگے،یہ کل ملاکر ان ملازمین کے 17ارب روپے ہیں جواسٹیل مل انتظامیہ نے ان ملازمین کو دینے ہیں، مگر افسوس کہ30دسمبر1973سے 2008تک چلنے والا ایک منافع بخش ادارہ اب شدید بدحالی کا شکار بن چکاہے جبکہ خود اسٹیل مل کا مجموعی خسارہ300ارب روپے تک پہنچ چکاہے ، گزشتہ دوادوار کی طرح موجودہ حکومت بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے یہ ہی ہنڈربیڈ ہسپتال جس میں کبھی سب کچھ تھا جو غریب اسٹیل مل ملازمین کی ایک آس تھا جس میں گیارہ ہزار ملازمین اور کل ملاکر ان کے بال بچے چالیس ہزار سے زیادہ لوگوں کا علاج کیا کرتھا اب اس ہسپتال میں کچھ نہیں ہے اور پھر جس ملازم کو کئی کئی ماہ تک تنخواہ ہی نہ ملی ہو یعنی اس کی تنخواہ بند واجبات بند ایسے میں وہ بیچارہ کہاں سے پرائیویٹ ہسپتال میں جاکر علاج کرواسکتاہے ۔
ایس ایم ڈی الیکٹریل کے محمد سبحان ،پی ڈی این ڈیپارٹمنٹ کے ریٹائرڈ ملازم خلیل احمد ،ریفریکٹری ڈیپارٹمنٹ ڈولومائٹ شاپ کے ملازم مجیب بھائی۔سی اینڈ ایس ڈیپارٹمنٹ کے کے ریٹائرڈ جونیئر آفیسر محمد جمیل ،حاجی محمد امین ،محمد خالد کیانی اور اس کے بعد آج اعجازعلی میمن اوراسی مہینے سے پہلے کے کئی مہینے جس میں یہ خالی جیبوں والے اسٹیل مل کے ملازمین اب اس اسٹیل مل میں تنخواہیں نہ ملنے پر اسی طرح سسک کرمررہے ہیں ،یہ ملازمین جن کی وفات ہورہی ہے اسی ایک ماہ میں ہوئی ہے یہ ریٹائرڈ اور حاضر سروس دونوں طرح کے ملازم ہیں،سات سال سے ریٹائرڈ ملازمین کے لیگل واجبات انتظامیہ اسٹیل مل نہیں دی رہی ،اس لیے یہ لوگ توکہیں پرائیویٹ جاکر اپنا علاج کروانے کے قابل بھی نہیں تھے ، اور وہ محمد نواز بھی تو سب کو یاد ہے نہ جو کچھ عرصے قبل اسٹیل سے جنرل شفٹ کی ڈیوٹی کرکے واپس گھر کی جانب جارہاتھا کہ اچانک اسے اسٹیل مل کے مین گیٹ پردل کا دورہ پڑااور وہ ہی گرگیا تھا جسے ورکروں نے فوراً ہی اسٹیل مل کے 100بیڈ ہسپتال پہنچایا لیکن ضروری ادویات نہ ہونے کے باعث اسے بچایا نہ جاسکااور وہ بھی وہی ہنڈر بیڈ ہسپتال میںوفات پاگیا،محمد نوازایک انتہائی غریب آدمی تھااس کے دو بچے تھے اس کے پاس تو کھانے کے پیسے بھی نہیں تھے بہت مشکل سے وقت پاس کررہاتھا اس کے بچے بھی اعجاز میمن کے بچوں کی لائن میں لگے ہوئے ہیں جن کی آج کل یہ ہی آس ہے کہ میرے پاپا گھر کب آئینگے ۔یہ وہ ہزاروں ملازمین ہیں جو ایک ماہ میں اسٹیل مل سے اپنے واجبات نہ ملنے کی وجہ سے زہنی دبائو کے باعث سسک سسک کرمررہے ہیں ،ان کے پاس کہیں علاج کروانا تو دورکی بات بلکہ اتنے پیسے تک نہیں ہے کہ ایک وقت میں اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا ہی کھلاسکیں بلکہ یہ ہی نہیں اسٹیل مل کے اسکول میں کبھی تنخواہوں سے کٹوتی ہوکرملازمین کے بچوں کی فیسیں جمع ہواکرتی تھی اب مگر اب تو اسکول انتظامیہ کا یہ سختی سے کہنا ہے کہ تنخواہ آئے یا نہ آئے بچوں کی فیس ہر مہینے دینا ہوگی نہیں تو بچوں کو اسکول سے ہٹالو مگر اب بہت جلد اسکول کی یہ جھنجٹ بہت حدتک ختم ہونے والی ہے اس لیے کہ جن بچوں کے پاپا اپنے بچوں کو بڑا آدمی بنانے کے لیے اپنا خون پسینہ گراگرکر چالیس چالیس سالوںتک اسٹیل مل کا لوہا پگھلاتے رہے،اب ان غریب ملازمین کا وجود موت اب بہت تیزی سے پگھلارہی ہے اگر کچھ نہیں پگھل رہاتو وہ ان حکمرانوں کا سینہ ہے جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی بے شرمی اور بے حسی کی ساری حدیں عبور کرچکاہے ۔ختم شد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔