... loading ...
دوستو، ایک زمانہ تھا جب کراچی والے گولیوں کی ’’تڑتڑ،تڑتڑ‘‘ سے خوف زدہ رہتے تھے ،کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کس وقت کہاں سے کون سی آنے والی گولی پر مرحوم کا نام لکھا ہو۔۔اسی طرح آج بھی کراچی والے پریشان اور خوفزدہ ہیں، لیکن اس بار گولیوں کی تڑ،تڑ،تڑ سے نہیں بلکہ ٹماٹر اور مٹر کی ٹر،ٹرسے۔۔ حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ ٹماٹر سترہ روپے کلو میں دستیاب ہیں اور کراچی کی منڈی میں مل رہے ہیں،جب ہم خود کراچی کی ساری منڈیاں گھوم چکے،کہیں بھی ٹماٹر دوسو روپے کلو سے کم نہیں مل رہا، رہی مٹر کی بات تو پانچ روپے کلو پتہ نہیں کون سے دیس، کون سی سرزمین پر مٹر کی فروخت جاری ہے،اور حکومتی وزرا کو حیرت انگیزرعایتی نرخوں پر کون لوگ ٹماٹر اور مٹر فراہم کررہے ہیں،اس بات کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے اور نیب کی خصوصی ٹیمیں تشکیل دینے کی ازحد ضرورت ہے تاکہ بائیس کروڑ عوام کے اشکوں کا ازالہ ہوسکے اور قیمتوں میں اتنابڑا فرق لانے والے منافع خور عناصر کو قرارواقعی سزا دی جاسکے۔۔عوام جہاں ٹماٹر کی آسمان سے باتیں کرتی قیمت پر سر پکڑے ہوئے ہیں تو وہیں حکومت کے کچھ وزرا اور مشیر عوام کی اتنی بڑی تکلیف سے ناآشنا نظر آتے ہیں اور چند حکومتی اہلکار تو اس حوالے سے عوام کے زخموں پر نمک بھی چھڑک رہے ہیں۔حکومت اور انتظامیہ ٹماٹر کی قیمت میں اس ہوشربا اضافے کی وجہ اس کی فصلیں خراب ہونے اور اگلی فصل کی تیاری میں چند ہفتے باقی ہونے کے باعث مارکیٹ میں اس کی کم دستیابی کو قرار دے رہی ہے۔
ٹماٹر ہمارے یہاں کیسے اور کہاں سے آیا اور آیا ہی نہیں ایسے چھاگیا کہ کم وبیش ہر کھانے میں شامل کیا جاتا ہے یا جاسکتا ہے۔ ایک حیرت انگیز انکشاف ہم پر یہ ہوا ہے کہ بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں، بالتحقیق مْرَتَّب کی جانے والی لغت، فرہنگ آصفیہ اور اسی کی طرح اہم سمجھی جانے والی نوراللغات میں لفظ۔۔’ ’ٹماٹر‘‘ سرے سے موجود نہیں۔ گویا یہ لفظ بہت تاخیر سے ہماری پیاری زبان میں شامل ہوا۔کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ٹماٹر کی کاشت کا باون اعشاریہ چھَے فی صد عوامی جمہوریہ چین میں، جب کہ اٹھارہ اعشاریہ سات فی صد ہندوستان میں پیدا ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ایک آمر مطلق کے دورحکومت میں ٹماٹر ہمسایہ ملک سے منگوانے کا سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع ہوا تو اِن دنوں پیدا ہونے والی مصنوعی قلت اور مہنگائی کا سبب بھی یہی بتایا جارہا ہے کہ ہندوستان سے تعلقات کشیدہ ہیں، لہٰذا ٹماٹر کم یاب ہے۔ٹماٹر کی بڑھتی ہوئی قیمت پر جہاں عوام سراپا احتجاج ہیں وہیں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر منفرد تبصرے کیے جارہے ہیں۔ٹماٹر کی قیمت کو لے کر تو اب لطیفے بنائے جانے لگے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کئی میمز اور مزاحیہ تصاویر زیر گردش ہیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کوئی ٹماٹر کو دنیا کی سب سے مہنگی کرنسی قرار دیتے ہوئے اسے پرس میں سنبھال کر رکھنے کی تجویز دے رہا ہے۔تو کوئی شادی کی پیشکش کے لیے سونے کی انگوٹھی کی جگہ ٹماٹر کے استعمال کا مشورہ دیتا نظر آرہا ہے۔ٹوئٹر پر ایک ایسی تصویر بھی زیر گردش ہے جس میں ماں اپنے بیٹے کو کسی صورت ٹماٹر کسی کو نہ دینے کی تلقین کر رہی ہے۔وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے حوالے سے یہ میم بھی دیکھی جارہی ہے کہ ‘ٹماٹر کی جگہ آلو کو سرخ رنگ کر دیں، سالوں کو کیا پتہ کہ یہ آلو ہے یا ٹماٹر۔کوئی کہہ رہا ہے کہ خواتین اب ٹماٹر کی بالیاں بھی پہن سکتی ہیں، تاہم اسے چوروں کی نظر سے دور رکھا جائے۔
ہیلی کاپٹر کا سفر پچپن روپے کلو میٹر۔۔مٹر پانچ روپے کلو۔۔ٹماٹر سترہ روپے کلو۔۔حکومتی نمائندوں کی ان تینوں پھلجڑیوں میں ’’ٹر،ٹر‘‘ نمایاں ہے۔۔ اب آپ ہماری بات کا غلط مطلب اخذ مت کرلیجئے گا کہ حکومتی نمائندے ہروقت ’’ٹر،ٹر‘‘ کرتے رہتے ہیں۔۔ ایک خاتون نے اپنی ہمسایہ خاتون سے بہت رازدانہ انداز میں اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے کہا۔۔بہن میرا شوہر شام کو جب گھر آتا ہے اس کی شرٹ پر کبھی گلابی اور کبھی سرخ نشان نظر آتے ہیں،میں جب اپنے شوہر سے اس بارے میں پوچھتی ہوں تو وہ ہمیشہ ٹالتے ہوئے کہتا ہے،یہ ٹماٹر کی چٹنی کے نشانات ہیں، تم ہی بتاؤ بہن اگر تمہارا شوہر ایسا کہے تو تم کیا کروگی؟
دوسری خاتون نے خاصے تلخ لہجے میں جواب دیا۔۔۔ میں سب سے پہلے اس ٹماٹر کی تلاش شروع کر دوں گی،جس کی چٹنی میرے شوہر کی شرٹ پر لگی ہوگی۔۔۔شوہرنامدار نے آفس میں کام کے دوران فیس بک پر اسٹیٹس لگایا۔۔اڑتا پھروں پرندہ بن کر مست ہواؤں میں۔۔بیوی نے کمنٹس میں لکھا۔۔ زمین پر جب اترو تو گھر واپسی پر بچے کا دودھ اور ٹماٹر لیتے آنا۔۔آپ کبھی غور کیجئے گا،ٹماٹر خریدنے والے جس فخر یہ انداز سے ٹماٹر کا شاپر ہاتھ میں لے کر چل رہے ہوتے ہیں ،لگتا ہے آئی فون خرید کر آرہے ہوں۔۔ڈالر ایک سو اٹھاون کا اور ٹماٹر تین سوروپے۔۔یعنی ایک کلوٹماٹر کے د وڈالر ملیں گے، اب ڈالر کی حیثیت ہمارے ٹماٹر جتنی بھی نہیں رہی، یہ کہلاتی ہے مثبت رپورٹنگ۔۔باباجی نے قوم کو قیمتی مشورے سے نوازتے ہوئے کہاہے کہ۔۔۔ٹماٹر لینے کے بعد رسیدیں ضرور حاصل کرے اور سنبھال کے رکھئے۔ کسی بھی وقت ایف بی ار والے پوچھ سکتے ہیں۔۔ایک پاگل نے دوسرے سے پوچھا۔۔یار لوگ ہمیں پاگل کیوں کہتے ہیں؟؟۔۔ دوسرا پاگل بولا۔۔ چھوڑ یار، تو لوگوں کی باتوں پر دھیان نہیں دیا کر، کچھ بھی بولتے رہتے ہیں۔۔ یہ لے ٹماٹر اور بنا روح افزائ۔۔۔
شوہر نے فریاد کی۔۔۔ڈاکٹر صاحب ! میری مدد کیجئے۔ مجھے شک ہے کہ میری بیوی کچھ عرصے سے کم سننا شروع ہوگئی ہے۔ لیکن اسکا علاج کرانے سے پہلے میں یقین کرنا چاہتا ہوں کہ وہ واقعی بہری ہے ۔۔ ڈاکٹر بولا۔۔یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ آپ اس سے 30 فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوکر اسے نارمل آواز میں بات کریں۔ اگر وہ آواز سن لے تو ٹھیک۔ ورنہ 20 فٹ کے فاصلے سے نارمل آواز میں اس سے کوئی بات کریں۔ اگر آواز سن لے تو ٹھیک ورنہ 10 فٹ سے بات کریں۔ اگر آواز سن لے تو ٹھیک ورنہ اسکے کان کے قریب جا کر اونچی آواز میں بات کر لیں۔ اور نتیجہ آکر مجھے بتائیں۔۔شوہر گھر پہنچا تو بیوی کچن میں کچھ پکا رہی تھی اور شوہر کی طرف اسکی پشت تھی۔ شوہر نے دوسرے کمرے میں اندازاً 30 فٹ دور اسے پوچھا ۔۔ بیگم ! آج کیا پکا رہی ہو ؟ کوئی جواب نہ پا کر شوہر قریب ہوا اور تقریباً 20 فٹ قریب ہوکر نارمل آواز میںپوچھا۔ بیگم کی طرف سے کوئی رد عمل ظاہر ہوتا نہ دیکھ کر شوہر نے 10 فٹ سے پھر پوچھا۔ کوئی جواب نہ پا کر شوہر بیوی کے کان کے قریب ہوکر اونچی آواز میںبولا۔۔میں نے پوچھا ہے آج کیا پکا رہی ہو ؟۔۔بیوی مڑی اور لال لال آنکھوں سے گھورتے ہوئے بولی ۔۔ تمہارے 3 بار پوچھنے پر 3 مرتبہ بتا چکی ہوں کہ آلو مٹر پکا رہی ہوں۔۔
اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ایسی قومیں جو قانونِ فطرت کی روندتی ہوئی بے حسی و بے اعتنائی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑتی چلی جائیں، بالآخر اندھے کنویں میں جاگرتی ہیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔