... loading ...
دوستو،گزشتہ دنوں ایک خبر پڑھ کر ہم چونک گئے، چونکنے کی وجہ یہ تھی کہ جنوبی وزیرستان کے عالمی شہرت یافتہ علاقے’’وانا‘‘ کی حسن مارکیٹ کے ایک گودام سے مسلح ڈاکو اسلحہ کے زور پر چلغوزوں کی تئیس بوریاں لوٹ کر چلے گئے، خبر یہاں تک رہتی تو چونکنے کی ضرورت نہ پڑتی ،لیکن ہم تفصیل پڑھ کر حیران رہ گئے کہ لوٹی گئی چلغوزوں کی بوریوں کی مالیت سواکروڑ کے لگ بھگ تھی۔۔جنوبی وزیرستان کے علاقے میں ایسی واردات کا ہونا پولیس کے لیے بھی عجوبہ تھا، چنانچہ پولیس فوری ایکشن میں آئی اور چند روز میں ہی ایک کامیاب کارروائی کرکے مرکزی ملزم عمر عرف فاروق کو بنوں سے گرفتار کر لیا۔ جبکہ اعظم ورسک کے پہاڑی علاقے سے سوا کروڑ روپے مالیت کی 23 بوری چلغوزہ بھی برآمد کر لی۔ ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے جس سے واردات میں ملوث دیگر ملزمان ساتھیوں کے متعلق باز پْرس بھی کی جائے گی اور انہیں بھی گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔۔کے پی کا علاقہ ’’چلاس‘‘ چلغوزے کی عالمی منڈی کہلاتا ہے جہاں ملک بھر سے بیوپاری چلاس کا رخ کرتے ہیں۔۔ رواں سال ’’دیامر‘‘ میں چلغوزے کی پیدوار کم ہونے کی وجہ مارکیٹ میں چلغوزہ کے مانگ میںاضافے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت میں بھی ٹھیک ٹھاک اضافہ ہواہے۔۔چلیں پھر آج کچھ باتیں چلغوزے پر کرلیتے ہیں۔۔ تاکہ آپ لوگوںکی کچھ سردی کم ہوسکے۔۔
سردیوں کی آمد ہوچکی، اب ڈرائی فروٹس کا زمانہ ہے، غریب کا سب سے سستا ڈرائی فروٹ ، مونگ پھلی ہوگا۔۔جسے وہ اپنے بچوں کو کھلاسکے گا، باقی کے متعلق تو یہ ہدایات ہوں گی، خبردار مہنگے ڈرائی فروٹس بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔۔باباجی فرمارہے تھے کہ ۔۔نوہزار روپے کلو چلغوزے خریدنے والے کا فائلر ہونا لازمی ہونا چاہیئے ،اسی طرح تین سو روپے کلو ٹماٹر خریدنے والے سے نیب کو اس کے ذرائع آمدن لازمی پوچھنے چاہیئے۔۔ایک کنجوس شوہر چلغوزے کھارہا تھا، بیوی کا بھی دل للچایا،بولی مجھے بھی چکھاؤ۔۔شوہر نے ایک چلغوزہ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا، بیوی نے کہا، بس ایک؟؟ شوہربولا۔۔ ہاں، باقی سب کا بھی اسی جیسا ذائقہ ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کاکہنا ہے کہ بادام کھانے سے عقل آتی ہے تو چلغوزے کی قیمت پوچھنے سے عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔۔
چلغوزے کے حوالے سے ہم نے بچپن میں ایک لطیفہ پڑھا تھا، جو آ ج بھی ہمیں بہت اچھی طرح یاد ہے۔۔ وہ کچھ یوں ہے کہ۔۔کسی صاحب کا نوکر بہت بھلکڑ تھا، جب بھی اسے سودالینے بازار بھیجا جاتا تھا وہ بھول جاتا تھا کہ لانا کیا ہے اور کچھ کا کچھ لے آتا تھا۔۔ ایک بار گھر والے حیران رہ گئے جب نوکر وہی چیز لایا جو اس سے منگوائی تھی۔۔ہوا کچھ یوں تھا کہ صاحب نے نوکر سے کہا، بازار جاکر چلغوزہ لے آؤ، ساتھ ہی تاکید کی کہ بھولنا نہیں، چلغوزہ ہی لانا ہے۔۔ نوکر کو فکر ہوگئی کہ چلغوزہ لازمی لانا ہے، اس بار کوئی غلطی نہیں کرنی۔۔اب اس نے بار بار زیرلب دھرانا شروع کردیا ۔۔چلغوزہ۔۔چلغوزہ ۔۔چلغوزہ۔ ۔راستے میں پڑوسیوں کا نوکر ٹکرایا، سلام دعا،خیرخیریت کے بعد دونوں نے اپنی اپنی راہ لی تو نوکر بھول چکا تھا کہ لانا کیا تھا، وہ گہری سوچ میں گم چلاجارہا تھا کہ ،ایک اردو اسپیکنگ سے ٹکرا گیا۔۔اس نے غصے سے کہا۔۔چل، چل۔۔ نوکرنے ۔۔چل،چل کا رٹا مارنا شروع کردیا۔۔ کچھ ہی دور چلاتھا ،ایک انگریز سے ٹکر ہوگئی۔۔انگریز نے کہا۔۔گو،گو۔۔اب نوکر نے چل،گو،چل،گو۔۔کی گردان شروع کردی۔۔ چلتے چلتے اس بار ایک خان صاحب سے ٹکراؤ ہوگیا۔۔خان نے کہا۔۔زہ،زہ(جاؤ،جاؤ)۔۔بھلکڑ نوکر کو اچانک یاد آگیا۔۔چلغوزہ ۔۔اتفاق سے دکان بھی سامنے ہی تھی، فوری چلغوزے خریدے اور گھرکی راہ لی۔۔اور سارے گھر والے حیران و پریشان تھے کہ نوکر بالکل درست چیز لانے میں کیسے کامیاب رہا۔۔
با باجی نے گزشتہ رات جب کہ گرماگرم کافی کا دور ان کی بیٹھک میں چل رہا تھا، اپنی نوجوانی کا دلچسپ قصہ سنایا۔۔ ویسے تو باباجی کے سارے قصے ہی دلچسپ ہوتے ہیں، لیکن جب کسی خاص موقع پر انہیں کچھ اچانک یاد آجائے تو پھر یقین کرلینا چاہیئے کہ وہ واقعی دلچسپ قصہ ہی ہوگا۔۔ باباجی کی بیٹھک میں ہم ، اور ہمارے پیارے دوست تو تھے ہی،باباجی نے خاص طور سے کافی بنوائی ،کہنے لگے، کراچی میں جب کوئٹہ کی ہوا چلنے لگے تو پھر گرم مشروبات پیا کرو۔۔ ہمارے پیارے دوست نے کہا، ڈرائی فروٹس تو اتنے مہنگے ہوگئے کہ اب صرف مشروبات پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔۔ جس پر اچانک باباجی کو اپنی نوجوانی کا قصہ یادآگیا۔۔کہنے لگے۔۔ میں ساتویں یا آٹھویں کا اسٹوڈنٹ تھا (یہ پینسٹھ کی جنگ سے پہلے کی بات ہے)،ایک روز گھر کا سودا سلف لینے بازار گئے، ایک دکان میں خاکی رنگ کی گول گول شئے دیکھی تو دکاندار سے پوچھا،یہ گلاب جامن ہے کیا؟ دکاندار مسکرایا اور کہنے لگا، یہ اخروٹ ہے۔۔ میں نے پوچھا، اس کا کیا فائدہ ہے؟؟ دکاندار نے بتایا کہ ، اسے کھانے سے دماغ تیز ہوتا ہے۔۔میں سمجھ گیا،دکاندار مجھے بے وقوف سمجھ کر مزید بے وقوف بنارہا ہے۔۔میں نے کہا،اپنی بات ثابت کردو تو میں یہ خریدلوں گا۔۔دکاندار نے پوچھا، ایک کلو چنے میں کتنے عدد چنے ہوتے ہیں؟ میں سوچ میں پڑگیا کہ واقعی یہ تو اتنا مشکل سوال تھا کہ مجھے بالکل نہیں آتا تھا۔۔میں نے دکاندار سے معذرت کرلی کہ آپ کے سوال کا جواب نہیں پتہ۔۔ دکاندار نے ایک اخروٹ توڑ کر مجھے دیا اور کہا ،یہ کھالو۔۔میں نے جب اسے چبایا تو نمکین نمکین سے بڑا خوشگوار ذائقہ لگا۔۔دکاندار نے پھر سوال کیا۔۔یہ بتاؤ، ایک درجن انڈے میں کتنے انڈے آتے ہیں۔۔میں نے فوری جواب دیا، بارہ۔۔ایک درجن انڈے لوتو پورے بارہ انڈے آتے ہیں۔ ۔دکاندار مسکرایااور بولا۔۔دیکھا جناب اخروٹ کا کمال، ہوگیا ناں دماغ تیز؟؟اور میں نے سارے پیسوں کے اخروٹ خریدے اور گھر لے آیا۔۔
سوشل میڈیا پر ان دنوں چلغوزوںکی خریداری کے حوالے سے کچھ احتیاطی تدابیر ایک دوسرے کو بتائی جارہی ہیں۔۔ کہاجارہا ہے کہ ۔۔چلغوزے خریدنے کے لیے اکیلے مت جائیں، کوشش کریں ساتھ کوئی ہو اگر مسلح ہو تو زیادہ بہتر ہے۔۔۔چلغوزے دوکان پر جاتے ہی مت خرید لیں اس سے آپ فوراً ایجنسیوں کی نظر میں آسکتے ہیں۔۔۔ کوشش کریں چلغوزوں کی خریداری کے لیے جاتے ہوئے ایک ڈاکٹر بھی ساتھ ہو میڈیکل بورڈ تشکیل دینا احسن قدم ہے۔۔اگر چلغوزے ایک کلو سے زیادہ لینے ہیں تو پہلے اپنی انشورنس ضرور کروا لیں اگر پہلے سے ہو گئی ہے تو اس کے واجبات فوری ادا کریں۔۔چلغوزے خریدنے کے لیے دن کا وقت منتخب کریں رات میں سکیورٹی رسک بڑھ جاتا ہے۔۔چلغوزے خرید کر اسی راستے سے واپس مت آئیں جس سے گئے تھے ورنہ گھات لگا کر وار کرنے والوں کو موقع مل سکتا ہے۔۔کوشش کریں چلغوزے ایسی جگہ سے خریدیں جہاں اسپتال اور پولیس اسٹیشن قریب پڑتے ہوں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اس دنیا میں کوئی غروب آخری نہیں، ہر غروب کے لیے ایک نیا طلوع مقدر ہے بشرطیکہ آدمی اپنی شام کو واپس صبح میں تبدیل کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔